جیہ
لائبریرین
میں آج کل جو کتاب پڑھ رہی ہوں وہ پشتو میں ہے ۔ نام ہے " میلینیم او کرزما د سوات پہ پشتنو کے" یہ اکبر ایس احمد کی کتاب Millennium And Charisma Among Swat Pathans کا ترجمہ ہے جسے پشتو اکیڈمی پشاور نے شایع کیا ہے ترجمہ اور نظر ثانی کا کام پشتو کے دو مشہور ادیبوں جناب سید تقویم الحق کاکا خیل اور قلندر مومند نے کیا ہے ۔
کتاب سوشل انتھروپالوجی Anthropology کے موضوع پر ہے جو کہ فریڈرک بارتھ کے سواتیوں پر تحقیقی کام پر تبصرہ اور تنقید ہے۔ فریڈرک بارتھ نے 60 کی دہائی میں سوات کے پشتونوں پر ایک انتھروپالوجیکل تحقیق کی تھی جو کہ Political Leadership Among Swat Phathans کے نام سے کتابی شکل میں شایع ہو چکی ہے۔ بارتھ کا تعلق ناروے سے تھا۔ اس نے 1959 میں سوات میں 9 مہینے گزارے تھے۔ نیٹ پر سرچ کرنے سے مجھے بارتھ کی اصل کتاب تو مل نہ سکی مگر اس کا خلاصہ مل گیا جس کو پڑھنے کے بعد اکبر ایس احمد کی کتاب سمجھنے میں تھوڑی سی مدد ملی۔
میلینیم سوشل انتھروپالوجی کی اصطلاح ہے اور ان تجدیدی تحریکوں کے لئے استعال ہوتی ہے جو تقریباً ہر مذہب اور قبیلے کے تصورات و روایات میں ہر 1000 سال بعد مذہب کے احیا کے لئے اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ اسلام میں یہی تصور امام مہدی کی شکل میں موجود ہے۔
کرزما قیادت کے اس خلقی خصوصیت کو کہتے جس میں مذہبی اور روحانی انداز قیادت موجود ہو۔ بارتھ نے ریاست سوات کے بانی اور پہلے والی عبد الودود کو charismatic Leader کے طور پر ایک ماڈل منتخب کیا ہے جس کے ساتھ اکبر ایس نے جزوی اختلاف کیا ہے ۔ بارتھ سمجھتے ہیں کہ عبد الودود میں روحانی تشخص اور کرزمائی خواص موجود ہیں۔ یہ روحانی قیادت اس کو اپنے دادا سید عبدالغفور سے جو کہ سوات کی ایک روحانی شخصیت تھی، ملی ۔ سید عبدالغفور کو ہم سیدو بابا کے نام سے جانتے ہیں جس کا مزار سیدو شریف میں ہے ۔
بارتھ نے سوات کے پشتونوں کو تین طبقوں میں تقسیم کیا ہے ۔ خان، پٹھان اور پیر یا ولی(Saint)۔ خان پشتون نسل کا نمائندہ ہے جو کہ صاحب جائداد ہے اور سوات کے زمینوں کا مالک ہے۔ پٹھان پشتو بولنے والا طبقہ ہے جو کہ مختلف پیشوں سے وابستہ ہے اور جنہیں خان غیر پشتون سمجھ کر ان کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ تیسرا طبقہ جسے بارتھ نے غلط طور پر "پیر" یا " ولی" کہا ہے، مذہبی طبقہ ہے، جو کہ سوات میں ملا، میاں اور سید کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ طبقہ بظاہر معزز مگر اصل میں بے اختیار طبقہ ہے۔ خان اس کے پیچھے نماز تو پڑھتا ہے مگر اس کی بات پر عمل تو درکنار، سنتا بھی نہیں۔ اکبر ایس احمد نے اس پر گران قدر تبصرہ کیا ہے ۔ کتاب کا یہ حصہ تکنیکی اصطلاحات کی وجہ سے مشکل مگر اہم حصہ ہے۔
اکبر نے بارتھ کی اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ بانئ سوات عبد الودود ایک روحانی قاید تھے۔ بلکہ وہ کہتا ہے
"پشتونوں کی تاریخ میں یہ ایک نادر بات ہوگی کہ ایک مذہبی رہنما ایک رسمی مرکزی ریاست بنائے۔ اس کام کے پیچھے صرف روحانی طاقت نہ تھی بلکہ سیاسی عوامل اور قابل لحاظ موروثی جائداد کا مجموعہ تھا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ عبد الودود ریاست سوات کے بانی بنے۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ ایک مذہبی رہنما تھے ۔ بلکہ وہ ایک مذہبی رہنما "بھی" تھے ۔
کتاب سوشل انتھروپالوجی Anthropology کے موضوع پر ہے جو کہ فریڈرک بارتھ کے سواتیوں پر تحقیقی کام پر تبصرہ اور تنقید ہے۔ فریڈرک بارتھ نے 60 کی دہائی میں سوات کے پشتونوں پر ایک انتھروپالوجیکل تحقیق کی تھی جو کہ Political Leadership Among Swat Phathans کے نام سے کتابی شکل میں شایع ہو چکی ہے۔ بارتھ کا تعلق ناروے سے تھا۔ اس نے 1959 میں سوات میں 9 مہینے گزارے تھے۔ نیٹ پر سرچ کرنے سے مجھے بارتھ کی اصل کتاب تو مل نہ سکی مگر اس کا خلاصہ مل گیا جس کو پڑھنے کے بعد اکبر ایس احمد کی کتاب سمجھنے میں تھوڑی سی مدد ملی۔
میلینیم سوشل انتھروپالوجی کی اصطلاح ہے اور ان تجدیدی تحریکوں کے لئے استعال ہوتی ہے جو تقریباً ہر مذہب اور قبیلے کے تصورات و روایات میں ہر 1000 سال بعد مذہب کے احیا کے لئے اٹھ کھڑی ہوتی ہیں۔ اسلام میں یہی تصور امام مہدی کی شکل میں موجود ہے۔
کرزما قیادت کے اس خلقی خصوصیت کو کہتے جس میں مذہبی اور روحانی انداز قیادت موجود ہو۔ بارتھ نے ریاست سوات کے بانی اور پہلے والی عبد الودود کو charismatic Leader کے طور پر ایک ماڈل منتخب کیا ہے جس کے ساتھ اکبر ایس نے جزوی اختلاف کیا ہے ۔ بارتھ سمجھتے ہیں کہ عبد الودود میں روحانی تشخص اور کرزمائی خواص موجود ہیں۔ یہ روحانی قیادت اس کو اپنے دادا سید عبدالغفور سے جو کہ سوات کی ایک روحانی شخصیت تھی، ملی ۔ سید عبدالغفور کو ہم سیدو بابا کے نام سے جانتے ہیں جس کا مزار سیدو شریف میں ہے ۔
بارتھ نے سوات کے پشتونوں کو تین طبقوں میں تقسیم کیا ہے ۔ خان، پٹھان اور پیر یا ولی(Saint)۔ خان پشتون نسل کا نمائندہ ہے جو کہ صاحب جائداد ہے اور سوات کے زمینوں کا مالک ہے۔ پٹھان پشتو بولنے والا طبقہ ہے جو کہ مختلف پیشوں سے وابستہ ہے اور جنہیں خان غیر پشتون سمجھ کر ان کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں۔ تیسرا طبقہ جسے بارتھ نے غلط طور پر "پیر" یا " ولی" کہا ہے، مذہبی طبقہ ہے، جو کہ سوات میں ملا، میاں اور سید کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ طبقہ بظاہر معزز مگر اصل میں بے اختیار طبقہ ہے۔ خان اس کے پیچھے نماز تو پڑھتا ہے مگر اس کی بات پر عمل تو درکنار، سنتا بھی نہیں۔ اکبر ایس احمد نے اس پر گران قدر تبصرہ کیا ہے ۔ کتاب کا یہ حصہ تکنیکی اصطلاحات کی وجہ سے مشکل مگر اہم حصہ ہے۔
اکبر نے بارتھ کی اس بات سے اختلاف کیا ہے کہ بانئ سوات عبد الودود ایک روحانی قاید تھے۔ بلکہ وہ کہتا ہے
"پشتونوں کی تاریخ میں یہ ایک نادر بات ہوگی کہ ایک مذہبی رہنما ایک رسمی مرکزی ریاست بنائے۔ اس کام کے پیچھے صرف روحانی طاقت نہ تھی بلکہ سیاسی عوامل اور قابل لحاظ موروثی جائداد کا مجموعہ تھا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ عبد الودود ریاست سوات کے بانی بنے۔ اس وجہ سے نہیں کہ وہ ایک مذہبی رہنما تھے ۔ بلکہ وہ ایک مذہبی رہنما "بھی" تھے ۔