فرخ منظور
لائبریرین
مینارِ پاکستان کی لوحوں کا نیا نوشتہ
عجیب باغوں کی سر زمیں ہے ، جسے مرے خواب سینچتے ہیں
یہ خواب ، صحرا کی گل بدن داستاں سرائوں کی فاختائیں
یہ منجمد فاختائیں جیسے حنوط لمحوں کے سرد تابوت
زرد سورج کی نیلی بارش میں کانپتے ہیں
یہ باغ ، گوتم کے گیان کی روشنی کے پیپل
یہ قافلوں کے شرار آثار گھڑ سواروں کی
برق رفتار یورشوں میں گھرے ہوئے ہیں
۔۔۔
یہ باغ اس عہد کے اندھیروں کے سرخ باغی ہیں
جن کے نعروں سے آسمانوں میں
جا بجا در سے بن گئے ہیں
۔۔۔
یہ باغ یلغار بستیاں ہیں
جہاں کے شہری غبارِ صحرا میں مورچوں کی مسہریوں پر
تمام شب یوں گزارتے ہیں
کہ جیسے اصحابِ کہف نیندوں کے معبدوں میں
صلوۃ کا قصد کر رہے ہوں
۔۔۔
یہ باغ زیرِ زمیں گھروں کے عجیب پر پیچ سلسلے ہیں
یہ گھر ہیں ، جن کی چھتوں ، مُنڈیروں پہ
کالے بارود کے دھوئیں کی سیاہ بیلیں چڑھی ہوئی ہیں
یہاں دھماکوں کے پھول کھلتے ہیں
چار جانب بموں کے گملوں میں موت کی ناز بُو مہکتی ہے
جھاڑویوں سے صدائیں آتی ہیں
اے زمیں زاد آفتابوں کی نسلِ تازہ
یہ قتل و غارت گری تو دھرتی کا کینسر ہے
مجھے خبر تھی ، اسی لیے تو
میں دلقِ لا تفسدو کو اوڑھے ہوئے
زمیں کو بچا رہا ہوں
یہ دہشتوں کا کڑا سفر ہے
میں اس سفر میں تمہارا برسوں سے ہم سفر ہوں
۔۔۔
مرے بلوچو ، مرے پٹھانو
دیارِ پنجاب اور سندھ کے مکینو
میں امن کا ایلچی بنا کر زمیں پہ بھیجا گیا تھا لیکن
مرے نصیبوں میں دہشتیں تھیں
مرا مقدر یہ شورشیں تھیں
یہ میری قسمت ، کہ خاک ایٹم بموں کی تحویل سے نکل کر
گرسنہ آدم بموں کے گھیرے میں آگئی ہے
میں ، اور میری زمیں کے سارے یتیم
شعلوں کی دھجیوں سے سلی ہوئی کفنیاں پہن کر
خلائی باغوں میں
منجمد فاختہ کے ویران آشیانے کو ڈھونڈتے ہیں
۔۔۔
مگر مرا المیہ تو یہ ہے
کہ امرِ لا تفسدو کے کفار
میرے دشمن
ہر ایک جانب سے گھات میں ہیں
مجھے بچا لو، مجھے بچا لو
مجھے بچا لو
(مسعود منور)
عجیب باغوں کی سر زمیں ہے ، جسے مرے خواب سینچتے ہیں
یہ خواب ، صحرا کی گل بدن داستاں سرائوں کی فاختائیں
یہ منجمد فاختائیں جیسے حنوط لمحوں کے سرد تابوت
زرد سورج کی نیلی بارش میں کانپتے ہیں
یہ باغ ، گوتم کے گیان کی روشنی کے پیپل
یہ قافلوں کے شرار آثار گھڑ سواروں کی
برق رفتار یورشوں میں گھرے ہوئے ہیں
۔۔۔
یہ باغ اس عہد کے اندھیروں کے سرخ باغی ہیں
جن کے نعروں سے آسمانوں میں
جا بجا در سے بن گئے ہیں
۔۔۔
یہ باغ یلغار بستیاں ہیں
جہاں کے شہری غبارِ صحرا میں مورچوں کی مسہریوں پر
تمام شب یوں گزارتے ہیں
کہ جیسے اصحابِ کہف نیندوں کے معبدوں میں
صلوۃ کا قصد کر رہے ہوں
۔۔۔
یہ باغ زیرِ زمیں گھروں کے عجیب پر پیچ سلسلے ہیں
یہ گھر ہیں ، جن کی چھتوں ، مُنڈیروں پہ
کالے بارود کے دھوئیں کی سیاہ بیلیں چڑھی ہوئی ہیں
یہاں دھماکوں کے پھول کھلتے ہیں
چار جانب بموں کے گملوں میں موت کی ناز بُو مہکتی ہے
جھاڑویوں سے صدائیں آتی ہیں
اے زمیں زاد آفتابوں کی نسلِ تازہ
یہ قتل و غارت گری تو دھرتی کا کینسر ہے
مجھے خبر تھی ، اسی لیے تو
میں دلقِ لا تفسدو کو اوڑھے ہوئے
زمیں کو بچا رہا ہوں
یہ دہشتوں کا کڑا سفر ہے
میں اس سفر میں تمہارا برسوں سے ہم سفر ہوں
۔۔۔
مرے بلوچو ، مرے پٹھانو
دیارِ پنجاب اور سندھ کے مکینو
میں امن کا ایلچی بنا کر زمیں پہ بھیجا گیا تھا لیکن
مرے نصیبوں میں دہشتیں تھیں
مرا مقدر یہ شورشیں تھیں
یہ میری قسمت ، کہ خاک ایٹم بموں کی تحویل سے نکل کر
گرسنہ آدم بموں کے گھیرے میں آگئی ہے
میں ، اور میری زمیں کے سارے یتیم
شعلوں کی دھجیوں سے سلی ہوئی کفنیاں پہن کر
خلائی باغوں میں
منجمد فاختہ کے ویران آشیانے کو ڈھونڈتے ہیں
۔۔۔
مگر مرا المیہ تو یہ ہے
کہ امرِ لا تفسدو کے کفار
میرے دشمن
ہر ایک جانب سے گھات میں ہیں
مجھے بچا لو، مجھے بچا لو
مجھے بچا لو
(مسعود منور)