محسن وقار علی
محفلین
گیارہ مئی۔۔۔مسند یا دھمکی؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔بالحق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنایت عادل
گیارہ مئی کو کیا ہوا؟ یہ سوال اس وقت پاکستان کے کونے کونے میں سر اٹھائے نظر آتا ہے۔ ایک دفعہ کئے جانے والے اس سوال کے بیسیوں جواب بھی اسی تواتر سے سامنے آ جاتے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ نظریہ جیتا، کوئی کہتا ہے پیسہ جیت گیا۔ کوئی کہتا ہے جاگیردارانہ نظام ایک بار پھر جیت گیا تو کوئی کہتا ہے کہ قوم جیت گئی۔کوئی اپنی جیت کو عوامی مقبولیت کا ثمر کہہ رہا ہے تو کسی نے اسے کھلم کھلا دھاندلی کا شاہکار انتخابات کہہ کر کسی دوسری جماعت کے مینڈیٹ کو ہی ماننے سے انکار کر دیا ہے (یہ اور بات کہ 48گھنٹے کی تاخیرکے بعد اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا مینڈیٹ ملنے پر دھاندلی کا جواز دور دور تک نظر نہیں آتا)۔میری ناقص رائے میں گیارہ مئی کو صرف ایک ہی واقعہ ہوا، اور یہ واقعہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ کہلایا جا سکتا ہے۔یہ واقعہ ہے قوم کی جانب سے دئے گئے سیدھے سادے ، کھلم کھلا، دھڑلے کا فیصلہ کرنے کا واقعہ۔۔اس فیصلے کو نہ تو مرکز میں بننے والی حکومت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی صوبے یا حلقے میں کامیاب ہونے والی جماعت کے نتائج سے۔ بلکہ یہ فیصلہ سراسر ایک سبق، ایک عبرت اور اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں ایک دھمکی سے لبریز فیصلہ کہا جا سکتا ہے۔وہی سبق کہ جو ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی جیسی مقبول ترین اور عوامی نیشنل پارٹی جیسی قوم پرستی کا نعرہ لگانے والی جماعت کو اس قوم نے گیارہ مئی کو سکھایا۔ لیکن پیپلز پارٹی اور اے این پی کو سکھائے جانے والے سبق پر نہ تو میاں صاحب خوش ہوں اور نہ ہی عمران خان صاحب بغلیں بجائیں۔اس سبق میں جہاں اس مرتبہ مینڈیٹ لینے والی جماعتوں اور ان کے قائدین کے لئے سامان عبرت ہے وہیں، عوام کی جانب سے کھلم کھلا اعلان اور فیصلہ ہے کہ اگر کوئی بھی جماعت، چاہے کتنی ہی مقبول کیوں نہ ہو، کتنے ہی جیالے متوالے اور سرفروش اسکے حامی اور کارکن کیوں نہ ہوں، کتنے ہی بلند بانگ دعوے، نعرے اور ضخیم قسم کے منشور وں کے پلندے ، اور مائیکروں فونوں کو توڑتے مقرر جذباتی تقریروں کے اشتہار اور قربانیوں کی کہانیاں کیوں نہ سناتے پھریں۔ اگر پرفار م نہ کیا تو انجام وہی ہو گا جو گیارہ مئی کو پی پی پی اور اے این پی کا ہوا۔قوم نے جہاں میڈیا پر اس قسم کے جذباتی اشتہار دیکھے، وہیں اس قوم نے ان انتخابات کی انتخابی مہم کے سلسلے میں کامیاب ہونے والی جماعتوں اور انکے امیدواروں کی تقریریں اور مستقبل کے حسین خواب دکھاتے وعدے بھی بہت سنے اور انکی جانب سے کئے گئے ایک ایک وعدے ، ایک ایک خواب کی ریکارڈنگ، عوام کے ذہنوں میں ثبت ہے۔میاں صاحب نے مرکز میں حکومت بنا لی۔ اب قوم انکی جانب سے حلف اٹھانے تک ہی انتظار کر رہی ہے۔ اس کے بعد کائونٹ ڈائون شروع۔۔۔ایک ایک دن کی بنیاد پر میاں صاحب کی کارکردگی کو کسی اور ترازو میں نہیں، خود انکی تقریروں اور بیانات کے تناظر میں جانچا جائے گا۔ خیبر پختونخواہ میں بر سر اقتدار تحریک انصاف، پانچ سال سے جس بری حکومت کا واویلہ کرتی رہی، آج اس نے اچھی حکومت قائم کرنے کا بیڑہ اٹھانا ہے۔ تنقید کرنا بھی آسان اور تنقید کروانے میں بھی کوئی محنت درکار ہر گز نہیں ہوتی ۔۔۔مسئلہ تو اس وقت ہوتا ہے کہ تنقید کرنے والوں کو تعریف کرنے پر مجبور کر دیا جائے۔ سابقہ دور میں باریاں البتہ اس کے الٹ حادثوں کی بنیاد پر بدلتی رہیں۔ ستم ہوتا یہ رہا کہ تعریف کرنے والے، تنقید کرنے پر مجبور ہوتے رہے۔ اور اس سلسلے میں ''انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا'' کا محاورہ با لکل ہی کارفرما نہیں رہا۔ بلکہ ان حکومتوں کی ناقص کارکردگی ہی تعریف کرنے والوں کی تعداد میں کمی اور تنقید، بلکہ کئی کئی مرتبہ تو نفرت کرنے پر آمادہ کرتی چلی گئی۔ اور یہ ان حکومتوں سے نفرت ہی تھی کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی مضبوط جماعتوں کے درمیان ایک دم سے تحریک انصاف آ دھمکی۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ عمران خان کو ملنے والی مقبولیت میں عمران خان سے محبت سے زیادہ ، کئی بار حکومت کرتی جماعتوں سے بغض کا عنصر شامل حال رہا۔ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت کا بھانڈا تو ان انتخابات نے کھول ہی دیا تو عرض ہے جناب کہ 2002 کے انتخابات میں مشکل سے ایک نشست حاصل کرنے والا ، اور 2008میں کسی قسم کے انتخابی عمل میں حصہ نہ لینے والا عمران خان ، آج ایک صوبہ میں اکثریت تو مرکز میں مضبوط اپوزیشن بنانے کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔یہ کس کا کیا دھرا ہے؟ عمران خان کا؟ اسکے ممی ڈیڈی کہلائے جانے والے کارکنا ن کا؟ ہرگز نہیں۔۔یہ سارے کا سارا کیا دھرا، ان جماعتوں کا ہے کہ جنہوں نے کئی کئی بار حکومتیں کیں، لیکن حکمرانی کے ڈھنگ نہ سیکھ سکے۔نہ سیکھ سکے کہ حکمران بننا صرف ذاتی املاک میں اضافے یا سرکاری املاک کو اپنے آبائو اجداد کے نام سے منسوب کرنا نہیں ہوتا۔ عوام کی فلاح و بہبود ، انکی ترقی و خوشحالی اورانکے جان و مال کا تحفظ ایک حکمران، کامیاب حکمران کا خاصہ ہوا کرتا ہے، وہی عوام کے جو ، ان کو مسند تک پہنچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کرتی ہے۔ یہاں ایک بات اور بھی وضاحت کی متقاضی ہے کہ جب کوئی جماعت کارکردگی نہیں دکھا پاتی تو ساری کی ساری عداوت و نخوت، اس جماعت کے سربراہ کے سر جڑ دی جاتی ہے۔ یہ درست کہ ٹیم کی کامیابی و ناکامی کا بلا شرکت غیرے ، ذمہ دار کپتان ہی ہوا کرتا ہے۔ لیکن کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی ممکن ہے کہ ایک میچ میں سارے کا سارا سکور کپتان ہی بنائے، دس کی دس وکٹیں کپتان ہی اڑائے اور بائولروں کو لگنے والی مخالفت کی شارٹ کو بائونڈری تک پہنچنے سے بھی اکیلا کپتان ہی روکے۔ گیارہ کھلاڑیوں کی بائیس ٹانگیں،بائیس ہاتھ اور بائیس آنکھیں اور ان تمام کے دماغ مل کر کسی میچ کو جیتنے کی کوشش کیا کرتے ہیں اور ان سب سے اہم، ان گیارہ کھلاڑیوں کے سینوں میں دھڑکتے دل میں موجزن جذبہ ہی وہ عنصر ہوا کرتا ہے کہ جو قوم کو جیت کی خوشی نصیب کرتا ہے۔ یہ جذبہ نہ ہو توکپتان سمیت، تمام کھلاڑی ائیرپورٹوں پر منہ چھپاتے نظر آتے ہیں۔اول خویش، بعد درویش کے تحت، ڈیرہ سے منتخب ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی علی امین کا ہی ذکر کئے دیتے ہیں۔کپتان نے ان پر اعتماد کیا اور شائقین سے بھرے میدان میں اتار دیا۔ منجھے ہوئے کپتان کی جانب سے کیا جانے والا اعتماد، ڈیرہ سٹی کے عوام کے اعتماد کا موجب بن گیا۔ میچ کانٹے کا ہے، مقابلے میں ایک نہیں، کئی کئی ٹیمیں (بال ٹیمپرنگ کی مہارت کے ساتھ)بیک وقت بال ہاتھ میں لئے، علی امین اور کپتان کو آئوٹ کرنے کے لئے میدان میں ہیں۔ڈیرہ کے شائقین مسلسل ہارتے چلے آرہے ہیں اور اب وہ کوئی ورلڈ کپ نہیں، چھوٹی سی جیت چاہتے ہیں۔ ننھی نھی خوشیاں، برسوں سے محروم و مغموم ڈیرہ والوں کی زندگیوں میں رنگ بھرنے کو کافی ہیں۔ نہیں ہے مطالبہ کہ ڈیرہ کو اسلام آباد یا لاہور بنا دو، نہیں ہے دعویٰ کہ یورپ کے نقشے کھینچ دو، مطالبہ ہے تو بس اتنا کہ سرکاری اداروں سے سیاسی اجارہ داری ختم کر دو۔کروڑوں کی تنخواہیں لیتے ، واپڈا، بلدیہ، محکمہ صحت، محکمہ تعلیم، محکمہ مال، محکمہ انہار، پبلک ہیلتھ، پولیس، اور محکمہ گیس جیسے براہ راست عوامی محکموں کا قبلہ درست کر دو۔ کوئی ٹرانسفارمر نہ تو عوامی چندے سے مرمت ہو اور نہ ہی سیاسی سفارش پر، کوئی نالی ، گلی، اور سڑک، ایم پی اے، ایم این کی تختی کا انتظار نہ کرے اور نہ ہی ہلکی سی بارش، شہر کو تالاب بنا دے، ہفتہ صفائی کے شوشے کے بجائے روزانہ کی صفائی ہونے لگے۔ گھر ، کالونیاں نقشوں پر اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کی یقین دہانی پر تعمیر ہوں، راتیں روشن تو دن میٹھا ٹھنڈا پانی ایک ایک گھر تک پہنچانے سے طلوع ہو، ہسپتال میں مریض کو انسان کا درجہ اور عملہ میں انسانیت کا جزبہ آجائے۔مفت دوائیاں سٹوروں پر بکنے کے بجائے غریب کی شفا کا موجب بن جائیں۔ ایم ایس سیاسی پشت پناہی پر نہیں، کارکردگی کی بنیاد پر تبدیل یا تعینات ہوں۔ڈاکٹر مریض سے پہلے ہسپتال میںموجود ہوں اور آخری مریض کے بعد نجی کلینکوں پر جائیں۔ دواساز کمپنیوں سے ساز باز کے بجائے، میرٹ پر نسخے برآمد ہوں،استاد رشوت اور سیاسی اثر رسوخ پر نہیں، قابلیت اور قوم کے مستقبل کی تعمیر کی اہلیت پر تعنیات ہوں، محکمہ تعلیم، بغیر کچھ پڑھائے، بچوں کو اگلی جماعتوں میں بھیج دینے کے لیٹر نہ جاری کرے۔ کوئی سکول جاگیردار یاا سکے ڈھور ڈنگروں کا ڈیرہ نہ بن پائے۔کوئی استاد، اپنے محکمہ کے افسران کی جیب گرم کرتے ہوئے، گھر بیٹھے تنخواہیں نہ وصول کرے۔کوئی پٹواری، کسی غریب کا ایک انچ ادھر سے ادھر نہ کر پائے۔کوئی اہلکار، زرعی پانی کی تقسیم میں ڈنڈی مارنے کا سوچ بھی نہ سکے، ٹھیکے کوڑیوں کے مول نہ بکیں۔شہر کی ہر دوکان کے نرخ علیحدہ نہ ہوں۔تھانوں میں عزت دار کی عزت نہ اچھلے اور مجرم کی عزت نہ کی جائے۔پولیس اور عوام ایک ہو کر باہمی عزت کے ساتھ شہر کو امن کا گہوارہ بنائیں۔گیس کے کنکشن کسی سیاسی پرچی یا نقدی کے محتاج نہ ہوں۔ کھدائی کے بعد بارشوں کا پانی ڈیرہ کے مکانوں کی بنیادیں کھوکھلی نہ کر پائے۔ یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں کہ جن کو ڈیرہ وال ترسائے جاتے رہے ہیں۔کپتان اور ڈیرہ کے عوام کے اعتماد کا مان رکھنا ہے تو یہ سب کرنا پڑے گا۔ اردگر د چرب زبان روائتی مفاد پرستوں کا گھیرا قائم کرنے کے بجائے ایک آدھ قابل، مخلص اور کہنہ مشق ٹیم منیجر کی خدمات حاصل کرتے ہوئے، کپتان کی ٹیم کو جتوانا ہو گا۔ ڈیرہ والوں کی نظریں کپتان سے زیادہ علی امین پر ہیں۔اگر پرفارم نہ کیا تو گیارہ مئی کو مسند ملنے کی تالیوں کے ساتھ ساتھ، عوام کی دھمکی صاف سنائی دے رہی ہے۔کپتان بھی عبرت اور علی امین بھی۔۔۔۔
ربط
گیارہ مئی کو کیا ہوا؟ یہ سوال اس وقت پاکستان کے کونے کونے میں سر اٹھائے نظر آتا ہے۔ ایک دفعہ کئے جانے والے اس سوال کے بیسیوں جواب بھی اسی تواتر سے سامنے آ جاتے ہیں۔ کوئی کہہ رہا ہے کہ نظریہ جیتا، کوئی کہتا ہے پیسہ جیت گیا۔ کوئی کہتا ہے جاگیردارانہ نظام ایک بار پھر جیت گیا تو کوئی کہتا ہے کہ قوم جیت گئی۔کوئی اپنی جیت کو عوامی مقبولیت کا ثمر کہہ رہا ہے تو کسی نے اسے کھلم کھلا دھاندلی کا شاہکار انتخابات کہہ کر کسی دوسری جماعت کے مینڈیٹ کو ہی ماننے سے انکار کر دیا ہے (یہ اور بات کہ 48گھنٹے کی تاخیرکے بعد اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا مینڈیٹ ملنے پر دھاندلی کا جواز دور دور تک نظر نہیں آتا)۔میری ناقص رائے میں گیارہ مئی کو صرف ایک ہی واقعہ ہوا، اور یہ واقعہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ کہلایا جا سکتا ہے۔یہ واقعہ ہے قوم کی جانب سے دئے گئے سیدھے سادے ، کھلم کھلا، دھڑلے کا فیصلہ کرنے کا واقعہ۔۔اس فیصلے کو نہ تو مرکز میں بننے والی حکومت سے تعبیر کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کسی صوبے یا حلقے میں کامیاب ہونے والی جماعت کے نتائج سے۔ بلکہ یہ فیصلہ سراسر ایک سبق، ایک عبرت اور اس سے بھی زیادہ سخت الفاظ میں ایک دھمکی سے لبریز فیصلہ کہا جا سکتا ہے۔وہی سبق کہ جو ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی جیسی مقبول ترین اور عوامی نیشنل پارٹی جیسی قوم پرستی کا نعرہ لگانے والی جماعت کو اس قوم نے گیارہ مئی کو سکھایا۔ لیکن پیپلز پارٹی اور اے این پی کو سکھائے جانے والے سبق پر نہ تو میاں صاحب خوش ہوں اور نہ ہی عمران خان صاحب بغلیں بجائیں۔اس سبق میں جہاں اس مرتبہ مینڈیٹ لینے والی جماعتوں اور ان کے قائدین کے لئے سامان عبرت ہے وہیں، عوام کی جانب سے کھلم کھلا اعلان اور فیصلہ ہے کہ اگر کوئی بھی جماعت، چاہے کتنی ہی مقبول کیوں نہ ہو، کتنے ہی جیالے متوالے اور سرفروش اسکے حامی اور کارکن کیوں نہ ہوں، کتنے ہی بلند بانگ دعوے، نعرے اور ضخیم قسم کے منشور وں کے پلندے ، اور مائیکروں فونوں کو توڑتے مقرر جذباتی تقریروں کے اشتہار اور قربانیوں کی کہانیاں کیوں نہ سناتے پھریں۔ اگر پرفار م نہ کیا تو انجام وہی ہو گا جو گیارہ مئی کو پی پی پی اور اے این پی کا ہوا۔قوم نے جہاں میڈیا پر اس قسم کے جذباتی اشتہار دیکھے، وہیں اس قوم نے ان انتخابات کی انتخابی مہم کے سلسلے میں کامیاب ہونے والی جماعتوں اور انکے امیدواروں کی تقریریں اور مستقبل کے حسین خواب دکھاتے وعدے بھی بہت سنے اور انکی جانب سے کئے گئے ایک ایک وعدے ، ایک ایک خواب کی ریکارڈنگ، عوام کے ذہنوں میں ثبت ہے۔میاں صاحب نے مرکز میں حکومت بنا لی۔ اب قوم انکی جانب سے حلف اٹھانے تک ہی انتظار کر رہی ہے۔ اس کے بعد کائونٹ ڈائون شروع۔۔۔ایک ایک دن کی بنیاد پر میاں صاحب کی کارکردگی کو کسی اور ترازو میں نہیں، خود انکی تقریروں اور بیانات کے تناظر میں جانچا جائے گا۔ خیبر پختونخواہ میں بر سر اقتدار تحریک انصاف، پانچ سال سے جس بری حکومت کا واویلہ کرتی رہی، آج اس نے اچھی حکومت قائم کرنے کا بیڑہ اٹھانا ہے۔ تنقید کرنا بھی آسان اور تنقید کروانے میں بھی کوئی محنت درکار ہر گز نہیں ہوتی ۔۔۔مسئلہ تو اس وقت ہوتا ہے کہ تنقید کرنے والوں کو تعریف کرنے پر مجبور کر دیا جائے۔ سابقہ دور میں باریاں البتہ اس کے الٹ حادثوں کی بنیاد پر بدلتی رہیں۔ ستم ہوتا یہ رہا کہ تعریف کرنے والے، تنقید کرنے پر مجبور ہوتے رہے۔ اور اس سلسلے میں ''انسان کسی حال میں خوش نہیں رہتا'' کا محاورہ با لکل ہی کارفرما نہیں رہا۔ بلکہ ان حکومتوں کی ناقص کارکردگی ہی تعریف کرنے والوں کی تعداد میں کمی اور تنقید، بلکہ کئی کئی مرتبہ تو نفرت کرنے پر آمادہ کرتی چلی گئی۔ اور یہ ان حکومتوں سے نفرت ہی تھی کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی جیسی مضبوط جماعتوں کے درمیان ایک دم سے تحریک انصاف آ دھمکی۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ عمران خان کو ملنے والی مقبولیت میں عمران خان سے محبت سے زیادہ ، کئی بار حکومت کرتی جماعتوں سے بغض کا عنصر شامل حال رہا۔ کہنے والے کہہ سکتے ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت کا بھانڈا تو ان انتخابات نے کھول ہی دیا تو عرض ہے جناب کہ 2002 کے انتخابات میں مشکل سے ایک نشست حاصل کرنے والا ، اور 2008میں کسی قسم کے انتخابی عمل میں حصہ نہ لینے والا عمران خان ، آج ایک صوبہ میں اکثریت تو مرکز میں مضبوط اپوزیشن بنانے کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔یہ کس کا کیا دھرا ہے؟ عمران خان کا؟ اسکے ممی ڈیڈی کہلائے جانے والے کارکنا ن کا؟ ہرگز نہیں۔۔یہ سارے کا سارا کیا دھرا، ان جماعتوں کا ہے کہ جنہوں نے کئی کئی بار حکومتیں کیں، لیکن حکمرانی کے ڈھنگ نہ سیکھ سکے۔نہ سیکھ سکے کہ حکمران بننا صرف ذاتی املاک میں اضافے یا سرکاری املاک کو اپنے آبائو اجداد کے نام سے منسوب کرنا نہیں ہوتا۔ عوام کی فلاح و بہبود ، انکی ترقی و خوشحالی اورانکے جان و مال کا تحفظ ایک حکمران، کامیاب حکمران کا خاصہ ہوا کرتا ہے، وہی عوام کے جو ، ان کو مسند تک پہنچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا کرتی ہے۔ یہاں ایک بات اور بھی وضاحت کی متقاضی ہے کہ جب کوئی جماعت کارکردگی نہیں دکھا پاتی تو ساری کی ساری عداوت و نخوت، اس جماعت کے سربراہ کے سر جڑ دی جاتی ہے۔ یہ درست کہ ٹیم کی کامیابی و ناکامی کا بلا شرکت غیرے ، ذمہ دار کپتان ہی ہوا کرتا ہے۔ لیکن کبھی نہیں دیکھا اور نہ ہی ممکن ہے کہ ایک میچ میں سارے کا سارا سکور کپتان ہی بنائے، دس کی دس وکٹیں کپتان ہی اڑائے اور بائولروں کو لگنے والی مخالفت کی شارٹ کو بائونڈری تک پہنچنے سے بھی اکیلا کپتان ہی روکے۔ گیارہ کھلاڑیوں کی بائیس ٹانگیں،بائیس ہاتھ اور بائیس آنکھیں اور ان تمام کے دماغ مل کر کسی میچ کو جیتنے کی کوشش کیا کرتے ہیں اور ان سب سے اہم، ان گیارہ کھلاڑیوں کے سینوں میں دھڑکتے دل میں موجزن جذبہ ہی وہ عنصر ہوا کرتا ہے کہ جو قوم کو جیت کی خوشی نصیب کرتا ہے۔ یہ جذبہ نہ ہو توکپتان سمیت، تمام کھلاڑی ائیرپورٹوں پر منہ چھپاتے نظر آتے ہیں۔اول خویش، بعد درویش کے تحت، ڈیرہ سے منتخب ہونے والے رکن صوبائی اسمبلی علی امین کا ہی ذکر کئے دیتے ہیں۔کپتان نے ان پر اعتماد کیا اور شائقین سے بھرے میدان میں اتار دیا۔ منجھے ہوئے کپتان کی جانب سے کیا جانے والا اعتماد، ڈیرہ سٹی کے عوام کے اعتماد کا موجب بن گیا۔ میچ کانٹے کا ہے، مقابلے میں ایک نہیں، کئی کئی ٹیمیں (بال ٹیمپرنگ کی مہارت کے ساتھ)بیک وقت بال ہاتھ میں لئے، علی امین اور کپتان کو آئوٹ کرنے کے لئے میدان میں ہیں۔ڈیرہ کے شائقین مسلسل ہارتے چلے آرہے ہیں اور اب وہ کوئی ورلڈ کپ نہیں، چھوٹی سی جیت چاہتے ہیں۔ ننھی نھی خوشیاں، برسوں سے محروم و مغموم ڈیرہ والوں کی زندگیوں میں رنگ بھرنے کو کافی ہیں۔ نہیں ہے مطالبہ کہ ڈیرہ کو اسلام آباد یا لاہور بنا دو، نہیں ہے دعویٰ کہ یورپ کے نقشے کھینچ دو، مطالبہ ہے تو بس اتنا کہ سرکاری اداروں سے سیاسی اجارہ داری ختم کر دو۔کروڑوں کی تنخواہیں لیتے ، واپڈا، بلدیہ، محکمہ صحت، محکمہ تعلیم، محکمہ مال، محکمہ انہار، پبلک ہیلتھ، پولیس، اور محکمہ گیس جیسے براہ راست عوامی محکموں کا قبلہ درست کر دو۔ کوئی ٹرانسفارمر نہ تو عوامی چندے سے مرمت ہو اور نہ ہی سیاسی سفارش پر، کوئی نالی ، گلی، اور سڑک، ایم پی اے، ایم این کی تختی کا انتظار نہ کرے اور نہ ہی ہلکی سی بارش، شہر کو تالاب بنا دے، ہفتہ صفائی کے شوشے کے بجائے روزانہ کی صفائی ہونے لگے۔ گھر ، کالونیاں نقشوں پر اور بنیادی سہولیات کی فراہمی کی یقین دہانی پر تعمیر ہوں، راتیں روشن تو دن میٹھا ٹھنڈا پانی ایک ایک گھر تک پہنچانے سے طلوع ہو، ہسپتال میں مریض کو انسان کا درجہ اور عملہ میں انسانیت کا جزبہ آجائے۔مفت دوائیاں سٹوروں پر بکنے کے بجائے غریب کی شفا کا موجب بن جائیں۔ ایم ایس سیاسی پشت پناہی پر نہیں، کارکردگی کی بنیاد پر تبدیل یا تعینات ہوں۔ڈاکٹر مریض سے پہلے ہسپتال میںموجود ہوں اور آخری مریض کے بعد نجی کلینکوں پر جائیں۔ دواساز کمپنیوں سے ساز باز کے بجائے، میرٹ پر نسخے برآمد ہوں،استاد رشوت اور سیاسی اثر رسوخ پر نہیں، قابلیت اور قوم کے مستقبل کی تعمیر کی اہلیت پر تعنیات ہوں، محکمہ تعلیم، بغیر کچھ پڑھائے، بچوں کو اگلی جماعتوں میں بھیج دینے کے لیٹر نہ جاری کرے۔ کوئی سکول جاگیردار یاا سکے ڈھور ڈنگروں کا ڈیرہ نہ بن پائے۔کوئی استاد، اپنے محکمہ کے افسران کی جیب گرم کرتے ہوئے، گھر بیٹھے تنخواہیں نہ وصول کرے۔کوئی پٹواری، کسی غریب کا ایک انچ ادھر سے ادھر نہ کر پائے۔کوئی اہلکار، زرعی پانی کی تقسیم میں ڈنڈی مارنے کا سوچ بھی نہ سکے، ٹھیکے کوڑیوں کے مول نہ بکیں۔شہر کی ہر دوکان کے نرخ علیحدہ نہ ہوں۔تھانوں میں عزت دار کی عزت نہ اچھلے اور مجرم کی عزت نہ کی جائے۔پولیس اور عوام ایک ہو کر باہمی عزت کے ساتھ شہر کو امن کا گہوارہ بنائیں۔گیس کے کنکشن کسی سیاسی پرچی یا نقدی کے محتاج نہ ہوں۔ کھدائی کے بعد بارشوں کا پانی ڈیرہ کے مکانوں کی بنیادیں کھوکھلی نہ کر پائے۔ یہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں کہ جن کو ڈیرہ وال ترسائے جاتے رہے ہیں۔کپتان اور ڈیرہ کے عوام کے اعتماد کا مان رکھنا ہے تو یہ سب کرنا پڑے گا۔ اردگر د چرب زبان روائتی مفاد پرستوں کا گھیرا قائم کرنے کے بجائے ایک آدھ قابل، مخلص اور کہنہ مشق ٹیم منیجر کی خدمات حاصل کرتے ہوئے، کپتان کی ٹیم کو جتوانا ہو گا۔ ڈیرہ والوں کی نظریں کپتان سے زیادہ علی امین پر ہیں۔اگر پرفارم نہ کیا تو گیارہ مئی کو مسند ملنے کی تالیوں کے ساتھ ساتھ، عوام کی دھمکی صاف سنائی دے رہی ہے۔کپتان بھی عبرت اور علی امین بھی۔۔۔۔
ربط