مہدی نقوی حجاز
محفلین
The House on Mango Street کا ترجمہ درج کر رہا ہوں اردو کی اصلاح فرمادیجے گا۔
By: Sandara Cisneros
مینگو سڑک پر ایک گھر
ہم شروع سے مینگو میں نہیں رہتے تھے۔ اس سے پہلے ہمارا گھر لومیس کے تیسرے مالے پر تھا، اور اس سے پہلے کیلر میں۔ کیلر سے پہلے پاؤلینا میں رہتے تھے اور اس سے پہلے کا مجھے یاد نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ گھر بہت تبدیل کیے ہیں۔ اور ہر مرتبہ ہمارے گروہ میں کسی نہ کسی کا اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ جب ہم نے مینگو میں رہائش اختیار کی تو ہم چھ ہو چکے تھے۔ ماں، پاپا، کارلوس، کی کی، میری بہن ننی اور میں۔
مینگو سڑک پر گھر ہمارا اپنا ہے اور ہم مجبور نہیں ہیں کہ اس کے لیے کسی کو کرایہ دیں، یا اپنے نیچے والوں کے ساتھ مشترکہ صحن استعمال کریں، ہمیں اب زیادہ شور شرابہ کرنے کے لیے احتیاط بھی نہیں کرنی پڑتی۔ اور یہاں تک کہ کوئی مکان مالکن بھی نہیں ہے کہ بات بات پر جھاڑو کے ہتھے سے چھت پر مار مار کر ہمیں تنگ کرے۔ ان سب باتوں کے باوجود یہ وہ گھر نہیں جو ہم سمجھ رہے تھے کہ ہمیں ملے گا۔
ہم لومیس والے گھر کو جلد سے جلد خالی کرنے پر مجبور تھے۔ پانی کے پائپ پھٹ چکے تھے اور مکان مالک کسی قیمت پر راضی نہیں تھا کہ انہیں تبدیل کروائے۔ اپنے پڑوسی کا حمام استعمال کرتے، اور پانی دودھ کے خالی برتنوں میں حمام تک لے جاتے تھے۔ اسی وجہ سے پاپا گھر کی تلاش میں تھے اور اسی خاطر ہم مینگو سڑک والے گھر میں وارد ہوئے جو شہر کے آخری کونے میں تھا۔
ہمیشہ ہم سے کہا جاتا تھا کہ ایک دن ایک ایسے گھر میں جائیں گے جو واقعی ہمارا ہوگا، اور ہم ہر سال مکان کی تبدیلی پر مجبور نہ ہوں گے۔ ایسا گھر جہاں پانی کے پائپ ڈھنگ سے لگے ہوں گے۔ اس گھر کی سیڑھیاں ہوں گی، ہاں اصلی سیڑھیاں ، بالکل ویسی ہی سیڑھیاں جیسی ٹی وی میں دکھاتے ہیں۔ ہمارے گھر میں ایک تہ خانہ بھی ہوگا اور کم از کم تین چار حمام تاکہ جب ہمیں نہانے کی حاجت ہو تو چیخنا چلانا نہ پڑے۔ ہمارا گھر بالکل سفید اور بڑا ہوگا، اس کی چاروں سمت درخت ہی درخت ہوں گے اور ایک بہت بڑا صحن ہوگا جس میں سبزہ کاری کی ہوئی ہوگی۔ یہ وہ گھر تھا جس کے بارے میں پاپا ہر مرتبہ انعامی اسکیم کا ٹکٹ لیتے تو بتاتے جاتے تھے۔ اور یہ وہی گھر تھا جس کے بارے میں ماں ہمیں سونے سے پہلے کہانیاں سنایا کرتی تھی، جس کی اسے خواہش تھی۔
لیکن مینگو سڑک کا گھر وہ گھر نہیں جس کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا۔ چھوٹا ہے اور لال، سیڑھیاں بھی باریک ہیں اور کھڑکیاں اتنی چھوٹی کہ ہر آن انسان کو لگتا ہے کہ شاید اس کی سانس گھٹ جائے گی۔ دیوار کی اینٹیں اپنی جگہ سے باہر نکل آئی ہیں اور ہل رہی ہیں اور سامنے کا دروازہ نمی کھا گیا ہے اور صحیح طرح کھل بند نہیں ہوتا، اسے کھولنے کے لیے زور سے دھکا دینا ہوتا ہے۔ کوئی سبزہ دار صحن نہیں ہے، صرف چار "نارون" کے درخت ہیں جنہیں بلدیہ نے سڑک کے کنارے اگا رکھا ہے۔ ہمارے گھر کے پیچھے چھوٹی سی ایک پارکنگ بھی ہے اس گاڑی کے لیے جو اب تک ہم نے نہیں خریدی اور ایک چھوٹا سا صحن ہے جو دو بلڈنگوں کے بیچوں بیچ ہے اور اسی وجہ سے اورزیادہ چھوٹا محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے گھر کی سیڑھیاں بھی نہیں ہیں، لیکن معمولی سی سیڑھیاں دہلیز کے پاس ہیں اور گھر میں صرف ایک حمام ہے۔ ہم سب کو ایک ہی کمرے میں سونا پڑتا ہے۔ ماں اور پاپا، کارلوس اور کی کی، میں اور ننی۔
ایک بار جب ہم لومیس میں رہتے تھے، میرے مدرسہ کی ایک راہبہ ہمارے گھر کے پاس سے گزری اس نے دیکھا کہ میں کھیل رہی ہوں۔
مجھ سے پوچھنے لگی، آپ لوگ کہاں رہتے ہو؟
میں نے تیسرے مالے کی طرف اشارہ کیا اور کہا، وہاں۔
وہاں رہتے ہو؟
وہاں، اس وقت وہ جہاں اشارہ کر رہی تھی مجھے وہاں دیکھنا پڑا۔ تیسری منزل، جہاں کا رنگ بھی خراب ہو چکا تھا، پاپا نے کھڑکی کے سامنے لکڑی کے ٹکڑے لگا رکھے تھے تاکہ ہم بچے وہاں سے کر نہ جائیں۔ وہاں رہتے ہو؟ جس طریقے سے وہ پوچھ رہی تھی میرا دل چاہا کہ پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔ ہاں وہاں، میں وہاں رہتی تھی!۔ میں نے اپنا سر جھکا لیا۔
اس وقت بھی مجھے معلوم تھا کہ ہمارا ایک گھر ہونا چاہیے۔ ایک حقیقی گھر۔ ایسا گھر جو میں اسے دکھا سکوں۔ لیکن یہ وہ گھر نہیں۔ مینگو سڑک والا گھر وہ گھر نہیں۔ ماں کہتی ہے فی الحال نہیں ہے، پاپا کہتے ہیں عارضی طور پر نہیں ہے۔ لیکن مجھے ساری حقیقت معلوم ہے۔
By: Sandara Cisneros
مینگو سڑک پر ایک گھر
ہم شروع سے مینگو میں نہیں رہتے تھے۔ اس سے پہلے ہمارا گھر لومیس کے تیسرے مالے پر تھا، اور اس سے پہلے کیلر میں۔ کیلر سے پہلے پاؤلینا میں رہتے تھے اور اس سے پہلے کا مجھے یاد نہیں۔ بس اتنا یاد ہے کہ گھر بہت تبدیل کیے ہیں۔ اور ہر مرتبہ ہمارے گروہ میں کسی نہ کسی کا اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ جب ہم نے مینگو میں رہائش اختیار کی تو ہم چھ ہو چکے تھے۔ ماں، پاپا، کارلوس، کی کی، میری بہن ننی اور میں۔
مینگو سڑک پر گھر ہمارا اپنا ہے اور ہم مجبور نہیں ہیں کہ اس کے لیے کسی کو کرایہ دیں، یا اپنے نیچے والوں کے ساتھ مشترکہ صحن استعمال کریں، ہمیں اب زیادہ شور شرابہ کرنے کے لیے احتیاط بھی نہیں کرنی پڑتی۔ اور یہاں تک کہ کوئی مکان مالکن بھی نہیں ہے کہ بات بات پر جھاڑو کے ہتھے سے چھت پر مار مار کر ہمیں تنگ کرے۔ ان سب باتوں کے باوجود یہ وہ گھر نہیں جو ہم سمجھ رہے تھے کہ ہمیں ملے گا۔
ہم لومیس والے گھر کو جلد سے جلد خالی کرنے پر مجبور تھے۔ پانی کے پائپ پھٹ چکے تھے اور مکان مالک کسی قیمت پر راضی نہیں تھا کہ انہیں تبدیل کروائے۔ اپنے پڑوسی کا حمام استعمال کرتے، اور پانی دودھ کے خالی برتنوں میں حمام تک لے جاتے تھے۔ اسی وجہ سے پاپا گھر کی تلاش میں تھے اور اسی خاطر ہم مینگو سڑک والے گھر میں وارد ہوئے جو شہر کے آخری کونے میں تھا۔
ہمیشہ ہم سے کہا جاتا تھا کہ ایک دن ایک ایسے گھر میں جائیں گے جو واقعی ہمارا ہوگا، اور ہم ہر سال مکان کی تبدیلی پر مجبور نہ ہوں گے۔ ایسا گھر جہاں پانی کے پائپ ڈھنگ سے لگے ہوں گے۔ اس گھر کی سیڑھیاں ہوں گی، ہاں اصلی سیڑھیاں ، بالکل ویسی ہی سیڑھیاں جیسی ٹی وی میں دکھاتے ہیں۔ ہمارے گھر میں ایک تہ خانہ بھی ہوگا اور کم از کم تین چار حمام تاکہ جب ہمیں نہانے کی حاجت ہو تو چیخنا چلانا نہ پڑے۔ ہمارا گھر بالکل سفید اور بڑا ہوگا، اس کی چاروں سمت درخت ہی درخت ہوں گے اور ایک بہت بڑا صحن ہوگا جس میں سبزہ کاری کی ہوئی ہوگی۔ یہ وہ گھر تھا جس کے بارے میں پاپا ہر مرتبہ انعامی اسکیم کا ٹکٹ لیتے تو بتاتے جاتے تھے۔ اور یہ وہی گھر تھا جس کے بارے میں ماں ہمیں سونے سے پہلے کہانیاں سنایا کرتی تھی، جس کی اسے خواہش تھی۔
لیکن مینگو سڑک کا گھر وہ گھر نہیں جس کے بارے میں ہمیں بتایا گیا تھا۔ چھوٹا ہے اور لال، سیڑھیاں بھی باریک ہیں اور کھڑکیاں اتنی چھوٹی کہ ہر آن انسان کو لگتا ہے کہ شاید اس کی سانس گھٹ جائے گی۔ دیوار کی اینٹیں اپنی جگہ سے باہر نکل آئی ہیں اور ہل رہی ہیں اور سامنے کا دروازہ نمی کھا گیا ہے اور صحیح طرح کھل بند نہیں ہوتا، اسے کھولنے کے لیے زور سے دھکا دینا ہوتا ہے۔ کوئی سبزہ دار صحن نہیں ہے، صرف چار "نارون" کے درخت ہیں جنہیں بلدیہ نے سڑک کے کنارے اگا رکھا ہے۔ ہمارے گھر کے پیچھے چھوٹی سی ایک پارکنگ بھی ہے اس گاڑی کے لیے جو اب تک ہم نے نہیں خریدی اور ایک چھوٹا سا صحن ہے جو دو بلڈنگوں کے بیچوں بیچ ہے اور اسی وجہ سے اورزیادہ چھوٹا محسوس ہوتا ہے۔ ہمارے گھر کی سیڑھیاں بھی نہیں ہیں، لیکن معمولی سی سیڑھیاں دہلیز کے پاس ہیں اور گھر میں صرف ایک حمام ہے۔ ہم سب کو ایک ہی کمرے میں سونا پڑتا ہے۔ ماں اور پاپا، کارلوس اور کی کی، میں اور ننی۔
ایک بار جب ہم لومیس میں رہتے تھے، میرے مدرسہ کی ایک راہبہ ہمارے گھر کے پاس سے گزری اس نے دیکھا کہ میں کھیل رہی ہوں۔
مجھ سے پوچھنے لگی، آپ لوگ کہاں رہتے ہو؟
میں نے تیسرے مالے کی طرف اشارہ کیا اور کہا، وہاں۔
وہاں رہتے ہو؟
وہاں، اس وقت وہ جہاں اشارہ کر رہی تھی مجھے وہاں دیکھنا پڑا۔ تیسری منزل، جہاں کا رنگ بھی خراب ہو چکا تھا، پاپا نے کھڑکی کے سامنے لکڑی کے ٹکڑے لگا رکھے تھے تاکہ ہم بچے وہاں سے کر نہ جائیں۔ وہاں رہتے ہو؟ جس طریقے سے وہ پوچھ رہی تھی میرا دل چاہا کہ پھوٹ پھوٹ کر روؤں۔ ہاں وہاں، میں وہاں رہتی تھی!۔ میں نے اپنا سر جھکا لیا۔
اس وقت بھی مجھے معلوم تھا کہ ہمارا ایک گھر ہونا چاہیے۔ ایک حقیقی گھر۔ ایسا گھر جو میں اسے دکھا سکوں۔ لیکن یہ وہ گھر نہیں۔ مینگو سڑک والا گھر وہ گھر نہیں۔ ماں کہتی ہے فی الحال نہیں ہے، پاپا کہتے ہیں عارضی طور پر نہیں ہے۔ لیکن مجھے ساری حقیقت معلوم ہے۔