میٹرو بس سروس یا کراچی سرکلر ریلوے۔

ڈان کا اداریہ۔ میٹرو بس سروس یا کراچی سرکلر ریلوے​
اردو محفل کے لیے ترجمہ : محمد خلیل الرحمٰن​
مسئلے کے متعلق مکمل معلومات نہ رکھنے کے باوجود میاں شہباز شریف اور قمر زمان کائرہ ، دونوں کے بیانات سن کر بہت سوں کو ایک خوشگوار حیرت ہوئی ہوگی، جنھیں کراچی کے کثیر تعداد کے نقل وحمل کے منصوبے سے دلچسپی ہے۔​
پنجاب کے سابق وزیر ِ اعلیٰ اور نئے نامزد وزیرِ اعلی کے اس بیان کی مخالفت میں دیا گیا پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما کا بیان یقیناً سیاسی نوعیت کا ہے۔جناب شہباز شریف کے اس بیان پر کہ کراچی میں بھی لاہور جیسا میٹرو بس چلانے کا منصوبہ پاکستان مسلم لیگ نون کی ترجیحات میں سے ہے، ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے جناب کائرہ نے کہا کہ کراچی میں لاہور کی طرز پر چلائی جانے والی بس پر حکومت کی جانب سے ایک ارب روپیے ماہانہ کی اعانت درکار ہوگی یوں شاید میٹرو بس کا منصوبہ کراچی کے لیے سفید ہاتھی ثابت ہوگا۔ لیکن کائرہ صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ اس کا کوئی متبادل ان کے ذہن میں بھی ہے یا نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ میاں شہباز شریف بھی کراچی کے کثیر افرادی نقل و حمل کے اس منصوبے کی از سرِ نو ابتداء سے لاعلم ہیں، جس کے لیے جاپان کی حکومت مدد دینے کے لیے تیار ہے، جسے کراچی سرکلر ریلوے کہا جاتا ہے۔​
کراچی کثیر افرادی نقل و حمل کا یہ منصوبہ پہلی مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے ۱۹۷۰ ء میں پیش کیا جس میں لالو کھیت ( لیاقت آباد) سے لیکر ٹاور تک نو کلو میٹر لمبی سرنگ بھی شامل تھی۔ ۱۹۷۷ء میں فوجی حکومت نے اس منصوبے کو پسِ پشت ڈال دیا۔ پھر کراچی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور رقبے کی ضرورت کے مدِ نظر جونیجو حکومے اس منصوبے پر دوبارہ غور شروع کیا۔ لیکن اس منصوبے کو دن کی روشنی دیکھنی نصیب نہ ہوئی۔ ۱۹۸۰ ء میں انڈس ماس ٹرانزٹ کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیاجس میں ٹیکنالوجی اور رقوم کئی ممالک سے آرہی تھیںلیکن یہ منصوبی بھی خواب ہی رہا۔​
اب ہم کراچی سرکلر ریلوے کے بارے میں سن رہے ہیں اور یہ فرض کرتے ہوئے کہ اس مرتبہ یہ منصوبہ افسر شاہی کی جانب سے سبوتاژ نہیں کیا جائے گا، ایسا لگتا ہے گویا، کراچی بالآخر اس منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل دیکھ پائے گا، جس کے نتیجے میں روزآنہ سات لاکھ مسافروں کو سفر کی سہولیات میسّر آسکیں گی۔​

ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما یقیناً شہری سندھ میں اپنی سیاسی حمایت پیدا کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن امیدِ واثق ہے کہ جلدی میں شہباز شریف کہیں کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھائیں گے، جس سے کراچی سرکلر ریلوے کا جاپانی منصوبہ کھٹائی میں پڑجائے یا تعطل کا شکار ہوجائے۔ یقیناً ہم سب یہ نہیں چاہیں گے کہ میٹرو بس کے خیالی منصوبے کی وجہ سے کہیں کراچی سرکلر ریلوے کے اس منصوبے کو ترک نہ کردیا جائے۔​
 
ابھی ڈان کے 28 مئی کے ادارئیے کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ اسی اخبار نے مرکزی حکومت کے بار بار کے بیانات کی روشنی میں ہفتہ 8 جون کو ایک مرتبہ پھر اس مسئلے کو اپنے ادارئیے کا موضوع بنایا۔ ذیل میں ہم نے محفلین کے لیے اس ادارئیے کا اردو ترجمہ کیا ہے۔

جلدی کیا ہے؟ میٹرو بس سروس کے تجربے کی دہرائی کا عزم

لاہور میٹرو بس سروس کے منصوبے کو معاشی طور پر ممکن منصوبے کے طور پر ثابت ہونے اور ایک مستقل حل کے طور پر سامنے آنے میں ابھی وقت درکار ہے، یہی وجہ ہے کہ پی ایم ایل نون کی حکومت کے کراچی اور اسلام آباد کے لیے بھی اسی نوعیت کے منصوبے شروع کرنے کا عزم اور سوچ جلد بازی کا شاخسانہ لگتا ہے۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ پاکستان کے تمام بڑھتے ہوئے شہروں کو آرام دہ نقل و حمل کے منصوبوں کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن ہر شہر کی ضروریات مختلف ہیں اور ان تمام شہروں پر لاہور کی طرز کا حل لاگو کردینا، صحیح نہیں۔ کراچی کو لیجیے: بہت سے منصوبے بنائے گئے، منظور کیے گئے، یہاں تک کہ رقوم کی فراہمی کے لیے قابلِ اعتماد ذرائع کی رضامندی کے بعد بھی بیورو کریسی اور حکومتی اہل کاروں کی سرخ فیتے کی نظر ہوئے۔ یا سیاسی بے توجہی کا شکار ہوئے۔ جاپان کی مدد سے تیار کیا ہوا منصوبہ ابھی موجود ہے۔ لیکن اندرایں حالات یہ سوچنا کہ یہ منصوبہ دن کی روشنی دیکھے گا، دیوانے کا خواب ہی لگتا ہے۔

اُدھر اسلام آباد جو یوں تو ایک جدید شہر کی بہت سی خوبیوں کا حامل ہے، لیکن حکومتی انتظام کے تحت چلنے والے پبلک ٹرانسپورٹ کے نظام سے تاحال محروم ہے۔ یہ تمام حکومتوں کے لیے باعثِ شرم ہے۔ اور ذاتی گاڑیوں والے حکومتی اہل کاروں کی اس بے حسی اور بے توجہی کے روئیے کا مظہر ہے جو انھوں نے عام طور پر عوام کے مسائل کی جانب روا رکھا ہوا تھا۔ اس روشنی میں اگر اسلام آباد کے عوام کو جدید نقل و حمل کی سہولیات کی فراہمی کا کوئی منصوبہ بنایا جاتا ہے تو اس کے لیے ان کی اہم ضروریات تو تیز اور آرام دہ بسیں ہی ہیں جن کے کرائے کم ہوں۔ راولپنڈی کو بھی لاہور کی طرح میٹرو بس کے منصوبے کے بجائے عام بسوں کی ضرورت ہے جن کی مدد سے وہ شہر رکے اندر اور اسلام آباد تک رسائی حاصل کرسکیں۔

دیگر شہروں کا بھی یہی حال ہے۔ فیصل آباد، ملتان، پشاور اور حیدرآباد جہاں پر سواری کے تیز اور آرام دہ ذرائع کا فقدان، ان شہروں کی کس مپرسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اب جس بات کی یقینی خوشی ہوسکتی ہے وہ پلاننگ کمیشن کی جانب سے یہ رپورٹ اور فیصلہ ہوگا جس میں ہر شہر کے لیے میٹرو بس کے منصوبے کےلیےمختص کیے گئے تیس ارب روپیے کی رقم کو سالانہ ترقیاتی منصوبے میں شامل کیا جائے۔

موجودہ سوچ یقیناً حکومت کی جانب سے اس روئیے کی مظہر ہے کہ انھیں عوام کی نقل و حمل کے مسائل کا یقینی ادراک ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تمام مسائل کو ایک ہی لکڑی سے ہانکا جائے ۔ اگر کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے پر عمل درآمد کو یقینی بنادیا جائے تو یہ کراچی کے عوام کی زیادہ بہتر خدمت ہوگی۔ لہٰذا مرکزی حکومت کو چاہیے کہ وہ کراچی کے لیے میٹرو بس کے منصوبے پر ضد کرنے کے بجائے اس بات کو یقینی بنائیں کہ کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کو کہیں حکومتی اہل کاروں یعنی بیوروکریسی کی بے توجہی کا نشانہ بنا کر سرخ فیتے کی نظر نہ کردیا جائے، اور اس کے پہلے حصے کی ۲۰۱۷ میں بغیر کسی رکاوٹ کے تکمیل کو یقینی بنایا جائے۔

ڈان مورخہ 8 جون 2013

یہ تو ہوا ادارئیے کا ترجمہ۔ اب ایک خوشی کی خبر اسی سلسلے میں بھی ملاحظہ فرمائیے جس میں سندھ حکومت کے وزیرِ اعلی نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے ۲۶ ارب روپیے کے کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کی منظوری دے دی ہے جس کا پہلا مرحلہ ۲۰۱۷ میں تکمیل پاجائے گا۔ ان شا ءاللہ۔
 

ساجد

محفلین
اور یہ حقیقت اپنی جگہ موجود ہے کہ ان انتخابات کے بعد سندھ حکومت بھی شہباز شریف کے سٹائل کو اپنانے کی سر توڑ کوشش کر رہی ہے ، کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کی منظوری اس کو عیاں کرتی ہے ورنہ کافی سارے سیاستدان پنجاب میں ایک اچھی ، معیاری اور سستی بس سروس کو رقم کا ضیاع قرار دیتے رہے ہیں ۔
سید قائم علی شاہ نے بھی اپنی حکومت قائم ہوتے ہی ایک تھانے پر "شہبازی چھاپے" سے اپنا آغاز کیا ہے۔ ہمارے تمام کے تمام سیاسی شیر کام ایک جیسے ہی کریں گے لیکن ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے منصوبوں پر تنقید بھی جاری رکھیں گے ، اگر ایسا نہیں کریں گے تو ان کا لہو گرم نہیں رہتا اس لئے یہ پلٹنا جھپٹنا جاری رہے گا اور ہم پنجاب کی سابقہ حکومت کی چند اچھی مثالوں کو دوسرے صوبوں میں رو بہ عمل ہوتے دیکھتے رہیں گے۔
 
ساجد بھائی ، ہمارا استدلال اس بات پر نہیں تھا کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس منصوبے پر عمل درآمد کا اعلان کیا ہے، کہنے کا مقصد یہ تھا کہ سال ہا سال سرد خانے کی نذر ہونے کے بعد بالآخر حکومت نے اس پر عمل در آمد کا ایک بار پھر اعلان کردیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ صرف ایک اعلان ہی رہتا ہے یا پھر اہل کراچی کا یہ خواب شرمندہٗ تعبیر بھی ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت یوں تو دیہی علاقوں سے مینڈیٹ حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو کراچی میں ترقیاتی کاموں کا مکلف نہیں سمجھتی، جیسا کہ اس کے پچھلے ریکارڈ سے ظاہر ہے، ( یاد رہے کہ کراچی میں ایک ڈکٹیٹر نے کروڑوں روپیے دے کر سڑکوں اور پلوں کا ایک ایسا نیٹ ورک بنوادیا جس کی مثال پچھلے ساٹھ سالوں میں نہیں ملتی) لیکن ہم نے امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے ، شاید اس بار ہم دیکھ ہی لیں سرکلر ریلوے کو کراچی میں مسافروں کی خدمت کرتے ہوئے۔
 
کراچی سرکلر ریلوے سے متعلق ایک مرتبہ پھر ڈان نے اداریہ لکھا ہے جسے نہایت دل گرفتہ ہوکر پیش کررہے ہیں۔ چونکہ یہ کراچی سرکلر ریلوے کا نوحہ ہے ، ہم اسی مناسبت سے کراچی پر لکھا ہوا اپنا افسانہ بھی دوبارہ توجہ کی خاطر پیش کررہے ہیں۔

کراچی سرکلر ریلوے کا نوحہ
ڈان۔ 23 نومبر 2013

جاپانی رقم مہیا کرنے والے اداروں نے کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہے، جو قابلَ فہم ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ریلوے کے وفاقی وزیر نے اپنی پریس کانفریس میں یہ اطلاع بھی دی ہے کہ جاپانی بین الاقوامی تعاون کے ادارے نے یہ رقم بنگلہ دیش کی جانب منتقل کردی ہے۔ جائیکا ( جاپان انٹر نیشنل کوآپریشن ایجنسی ) کے اس فیصلے پر کوئی حیرت نہیں ہوگی، اگر ان کی ناامیدی ( غصہ نہ سہی) کے احساس پر غور کیا جائے۔ کے سی آر عرصہ بیس سال پہلے ختم ہوچکی ہے ا ور اس کی پٹریاں منوں ٹنوں مٹی کے نیچے دب چکی ہیں۔ گزشتہ بیس سال ہی سے اس منصوبے کو دوبارہ فعال بنانے اور اس کے لیے رقم مہیا کرنے کی پیش کش بھی موجود ہے۔ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتیں اس ایجینسی کی اس پیش کش کے لیے حالات ساز گار بنانے میں کبھی سنجیدہ نہیں ہو پائیں۔ ریلوے کی زمین پر قبضہ گروپوں کے قبضے کو بھی ایک ایسی صورتحال کہا جاسکتا ہے جو مہیب صورت اخیتار کرنے کے باوجود قابلِ حل ہے۔ اگر سندھ کی صوبائی حکومت کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے پر عملدر آمد کا ارادہ رکھتی تو ریلوے کی زمین پر قبضہ گروپوں کے قبضے کو حکومت کی جانب سے بہت پہلے ہی حل کیا جاسکتا تھا ۔ ظاہر ہے کہ پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر کراچی کو ماس ٹرانزٹ کا ایک عدیم المثال منصوبہ دینے پر سیاسی سنجیدگی مفقود تھی۔

جاپانی منصوبے نے گو کئی دشواریوں کو عبور کیا جن میں حکومتی سرخ فیتہ بھی شامل تھا اور یہ اعلان کیا گیا تھا کہ ۲۰۱۷ تک اس منصوبے کا پہلا مرحلہ مکمل کرلیا جائے گا۔ جمعرات کو خواجہ سعد رفیق اور جناب قائم علی شاہ کی اس نیوز کانفریس کو کراچی سرکلر ریلوے کے منصوبے کی نوحہ خوانی کہا جاسکتا ہے۔ جاپانی سرمایہ کاروں کی ناامیدی کا برملا اعلان کرتے ہوئے ان دونوں اصحاب نے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا جس میں وفاقی حکومت بھی مدد دے گی۔ عوام یقینی طور پر وفاقی حکومت کی نیت پر شک کرنے میں حق بجانب ہوں گے ۔ لاہور شہر میں میٹرو بس کا منصوبہ ریکارڈ مدت میں پایہ تکمیل کو پہنچ چکا ہے۔ حکومتِ پنجاب نے اس سلسلے میں یکسوئی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچایہ ۔ ادھر کراچی کے معاملے میں یہاں کی ( سندھ کی) دو جماعتوں نے جنھوں نے سیاسی افق پر عرصہ دراز سے علما اپنی عملداری قائم کی ہوئی ہے، اس بارے میں مکمل غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا ہے۔ لاہور میں میٹرو ریل چلانے کا منصوبہ بھی بنایا گیا ہے۔ لیکن ’’جدید‘‘ اسلام آباد کے لیے کسی بھی قسم کا جدید سہولتوں سے آراستہ نقل وحمل کا کوئی منصوبہ ہنوز مفقود ہے جو ہمارے طبقہ شرفا ء اور افسر شاہی کے مایوسانہ طرز عمل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
 
کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ 3 سال میں مکمل ہوگا
سید اشرف علی منگل 28 فروری 2017

751223-Karachicircularrailwayproject-1488255971-483-640x480.JPG

تجاوزات کی صفائی کے لیے کمشنر کراچی کوٹاسک دے دیا گیا۔ فوٹو : فائل

کراچی: صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ نے کراچی سرکلر ریلوے کے احیا کے لیے منصوبہ تیار کرکے صوبائی محکمہ منصوبہ وبندی وترقیات میں جمع کرادیا ہے۔

تفصیلات کے مطابق کراچی سرکلر ریلوے کی تعمیر نو کا منصوبہ پاکستان اور چینی حکومت کے درمیان مشاورت سے30دسمبر 2016کو سی پیک سے منسلک ہوا ، وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی ہدایت پر صوبائی محکمہ ٹرانسپورٹ کے سندھ ماس ٹرانزٹ سیل نے تیزی سے کام کرتے ہوئے اس کا پی سی ون اور فیزیبلٹی تیار کرکے گزشتہ دنوں صوبائی محکمہ ترقیات ومنصوبہ کی پرونشل ڈسٹرکٹ ورکنگ پارٹی کو بھیج دیا ہے۔

ذرائع کے مطابق صوبائی محکمہ ترقیات ومنصوبہ بندی سے منصوبہ کا پی سی ون اور فیزیبلٹی رپورٹ ایک ہفتے میں منظور ہوکر وفاقی پلاننگ کمیشن کے سی ڈی ڈبلیو پی اور ایکنک میں بھیجا جائے گا جہاں سے منظوری کے بعد مارچ کے آخر تک پاک چین جوائنٹ کوآرڈی نیشن کمیٹی (جے سی سی) کے جوائنٹ ورکنگ گروپ میں جمع کرادیا جائے گا جس کا دفتر بیجنگ میں قائم ہے حتمی منظوری کے بعد چین اور پاکستان کے درمیان آسان شرائط کے قرصے پر معاہدے طے پایا جائے گا۔




کراچی سرکلر ریلوے کی تعمیر نو کیلیے تعمیراتی کام رواں سال اکتوبر میں شروع کردیا جائے گا اور تین سال کی مدت میں مکمل کرلیا جائے گا،کراچی سرکلر ریلوے کی تعمیر نو کا منصوبہ 43.2کلومیٹر پر محیط ہے جس میں 14.94کلومیٹر زمینی اور 28.18کلومیٹر بالائی گذرگاہ تعمیر کی جائیگی، اس کے ساتھ ہی ریلوے اسٹیشن کی تعمیر ومرمت کا کام بھی کیا جائے گا، واضح رہے کہ کراچی سرکلر ریلوے کا موجودہ نظام تباہ و برباد ہوچکا ہے، پٹریاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور ریلوے اسٹیشن خستہ حالی کا شکار ہیں۔

دوسری جانب نئے منصوبہ کے تحت کراچی سرکلر ریلوے کے 14اسٹیشن بالائی ہوں گے اور 10اسٹیشن زمین کی سطح پر تعمیر کیے جائیں گے، بالائی گزرگاہ ڈرگ روڈ اسٹیشن ، جوہر اسٹیشن ، الہ دین اسٹیشن، گیلانی اسٹیشن، یاسین آباد اسٹیشن، نارتھ ناظم آباد اسٹیشن، اورنگ آباد اسٹیشن، ایچ بی ایل سائیٹ اسٹیشن، منگھوپیر اسٹیشن، سائیٹ اسٹیشن، شاہ عبدالطیف اسٹیشن، بلدیہ اسٹیشن، لیاری اسٹیشن اور کراچی کینٹ اسٹیشن پر تعمیر ہوں گے جبکہ نیپا اسٹیشن، لیاقت آباد اسٹیشن، وزیر مینشن اسٹیشن، ٹاور اسٹیشن، سٹی اسٹیشن، پی آئی ڈی سی، ڈپو ہل اسٹیشن ، مہران ، چنیسر اور کارساز اسٹیشن پر زمینی ٹریک کی تنصیب کی جائے گی۔

ذرائع نے بتایا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے اطراف غیرقانونی تعمیرات اور تجاوزات کے خاتمے کیلیے کمشنر کراچی کو ذمے داری سونپ دی گئی ہے جس پر جلد ہی عملی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔




کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ 3 سال میں مکمل ہوگا - ایکسپریس اردو
 
  • ’کراچی سرکلرریلوے پر اب کوئی اختلاف نہیں رہا‘ڈان اخبار17 دسمبر 2017
    4

    کراچی: وفاقی وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ کراچی سرکلرریلوے (کے سی آر) منصوبے کے آغاز میں حائل تمام معاملات درست کرلیے گئے ہیں۔

    کراچی سٹی اسٹیشن میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے منصوبے کی تکمیل میں ذاتی دلچسپی اور باہمی تفہیم سے تمام مسائل حل کئے اور اب پہلی مرتبہ کراچی سرکلولر منصوبہ ٹھیک ٹریک پر ہے‘۔


    انہوں نے واضح کیا کہ ‘دونوں جانب سے کے سی آر کے معاملے پر اب کوئی اختلاف رائے نہیں ہے‘۔

    خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ وہ کراچی سکولر منصوبے کے حوالے متعدد بار وزیراعلیٰ سندھ سے ذاتی حیثیت میں ملاقات کر چکے ہیں اور آخری ملاقات جمعے کو ہوئی۔

    وزیرریلوے نے صحافیوں کوبتایا کہ ‘کراچی میں دیگر منصوبوں خصوصاً کراچی تا پشاور مین ریلوے لائن منصوبے کی تکیمل سے چاروں صوبوں کے لوگ فائدہ اٹھا سکیں گے‘۔


    سعد رفیق کے مطابق پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبوں کے تحت کراچی یا پشاور مین ریلوے لائن منصوبے پر 2018 کی تیسری سہ ماہی میں کام کا آغاز ہوجائے گا۔

    انہوں نے کہا کہ منصوبے کی تکیمل میں طویل وقت درکار ہوگا لیکن مکمل ہونے کے بعد ایک صدی تک کارآمد رہے گا۔


    اس موقع پر وزیر ریلوے نے کہا کہ ‘سیاسی منظر نامے پر ہر روز نئی تبدیلی رونما ہو رہی ہے اور میں صرف عاجزی سے درخواست کروں گا کہ تمام ترقیاتی منصوبے اگلے برس انتخابات سے قبل مکمل کرلیے جائیں کیوں کہ ملک کسی نئے سیاسی تجربے کا متحمل نہیں ہوسکتا’۔

    آخرمیں انہوں نے کہا کہ ‘اب کوئی معاملہ سیاسی نہیں بلکہ ملکی استحکام سے منسوب ہے’۔
 

فاخر رضا

محفلین
ہم وہ لوگ ہیں جو بریانی کی ایک پلیٹ کے عوض اپنا ووٹ دے دیتے ہیں اور اسے بھی فائدے کا سودا سمجھتے ہیں. یہاں یہ حکمران اربوں روپے بلکہ ڈالر کھا جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے. اب الیکشن سے چھ مہینے پہلے انہیں کراچی والوں پر رحم آنا شروع ہوگیا ہے تاکہ الیکشن کے لئے پیسے بٹورے جاسکیں. انہیں کوسے دینے کو جی چاہتا ہے وہ بھی دل بھر کے. خدا غارت کرے ان بے غیرت لوگوں کو جو عوام کا پیسہ کھا رہے ہیں اور شرم نہیں آتی
 

Muhammad Qader Ali

محفلین
کراچی پاکستان کی جوان بیوہ ہے ہر کوئی اس کی عزت ابرو کو بچانے کا پروگرام بناتے ہیں لیکن
سیاسی مافیا اس کے بجٹ کو کھا کر ڈکار تک نہیں لیتے۔
ہمارے بزرگ کہتے ہیں کہ ایوب خان صاحب کا دور وہ دور تھا جب کراچی میں کام زیادہ اور ورکر کم تھے
سب کچھ برباد ہوگیا۔
 
کراچی سرکلر ریلوے ایک بار پھر خبروں میں ہے۔ ملاحظہ فرمائیے ایکسپریس نیوز میں شبیر احمد ارمان کا کالم:




لوکل ٹرین، بحالی کی داستان (آخری حصہ)
1423196-ShabbirAhmedArmanNEW-1542221727.JPG

پاکستان ریلوے نے دھابیجی ایکسپریس کے لیے دیگر نئی تجاویز پر بھی غور شروع کردیا ہے۔
شبیر احمد ارمان


جمعرات 15 نومبر 2018
کراچی اور دھابیجی اسٹیشن کے درمیان چلنے والی دھابیجی ایکسپریس ابتدا میں ہی بڑے خسارے کا شکار ہوگئی تھی ۔ڈاکٹر توصیفٖ احمد خان نے اپنے گذشتہ کالم میں کئی حقائق بیان کیے ہیں۔ بلاشبہ پہلے ہفتے میں دھابیجی ایکسپریس مطلوبہ ریونیو اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہی ۔

لوکل ٹرین دھابیجی ایکسپریس میں 546 مسافروں کی گنجائش ہے تاہم مطلوبہ مسافروں کے بجائے پہلے ہفتے کے دوران دھابیجی سے کراچی لوکل ٹرین میں صرف 10فیصد مسافروں نے سفرکیا ،اس ضمن میں دھابیجی ایکسپریس کی کامیابی کے لیے ریلوے حکام نے سر توڑ کوششیں شروع کردی ہیں۔ ٹرین کی کامیابی کے لیے نہ صرف دھابیجی ایکسپریس کے اسٹاپ بڑھانے بلکہ ٹرین کی تشہیر کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ ٹرین کی تشہیر کے لیے پمفلٹ شایع کیے جائیں گے جب کہ کیبل سروس سے بھی استفادہ کیا جائے گا اور اس کام کے لیے نجی اداروں سے مدد لی جائے گی۔ اس حوالے سے مختلف ریلوے اسٹیشنوںپر بینرز آویزاں کرنے شروع کردیے گئے ہیں ۔

اس کے علاوہ پاکستان ریلوے نے دھابیجی ایکسپریس کے لیے دیگر نئی تجاویز پر بھی غور شروع کردیا ہے، ٹرین کی آمد و روانگی کے اوقات کار تبدیل کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے، امکان ہے کہ دھابیجی سے ٹرین کی کراچی روانگی کا وقت 6بجے سے تبدیل کرکے 7بجے صبح کردیا جائے، ریلوے حکام نے ٹرین کی کامیابی اور لوگوں کواس جانب مائل کرنے کے لیے پورٹ قاسم اتھارٹی ، پاکستان کسٹمز ، پی ایس او اور بعض بینکوں کی انتظامیہ اور سربراہان سمیت دیگر اداروں کی انتظامیہ سے ملاقاتیں کی ہیں تاکہ ان اداروں میں کام کرنے والے افراد کو ٹرین سے سفرکرنے پر مائل کیا جاسکے ، ماہانہ ٹکٹ بک کرنے پر دن میں کئی بار ٹرین (دھا بیجی ایکسپریس )کے ذریعے سفرکی سہولت حاصل ہوگی ۔

اب ملاحظہ کریںکراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کی داستان:

ایک بار پھر سندھ حکومت نے کہا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر ) پر کام کررہے ہیں ، چین کی مدد سے اس کا آغاز کیا جائے گا ، یہ منصوبہ 43کلو میٹر طویل ہے اور یہ تمام بی آر ٹی لائنزکو مدد بھی فراہم کرے گا ۔ اس تناظر میں چینی قونصل جنرل نے جمعہ 14ستمبر 2018ء کو وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ملاقات کی تھی اس ملاقات کے بعد وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا تھا کہ کراچی سرکلر ریلوے کا کام جہاں رکا تھا ، وہیں سے پھر شروع کروں گا ۔

واضح رہے کہ 29دسمبر2016ء کو چینی حکام نے سندھ کے 3اہم منصوبوں کراچی سرکلر ریلوے ، کیٹی بندر پورٹ اور ٹھٹھہ میں اسپیشل اکنامک زون کے قیام کو اصولی طور پر چین پاکستان اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل کرنے کی منظوری دی ہے۔ یہ فیصلہ سی پیک سے متعلق بیجنگ میں جوائنٹ کو آپریشن کمیٹی کے چھٹے اجلاس میں کیا گیا ۔

یاد رہے کہ وزیر اعلیٰ سندھ کی خصوصی درخواست پر اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کراچی سرکلر ریلوے کو سی پیک کا حصہ بنانے، خود مختار ضمانت ،کراچی اربن ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی سندھ حکومت کو منتقلی اور سرکلر ریلوے کے راستوں کا قبضہ دینے سے متعلق واضح ہدایت دی تھی ۔ منصوبہ سی پیک کے تحت چینی قرضے سے تعمیر کیا جائے گا ۔

2011ء اور 2012ء میں کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا تھا اور اس ضمن میں قبل ازیں جاپانی تنظیم جاپانانٹر نیشنل کارپوریشن ایجنسی (جائکا ) نے کراچی سرکلر ریلوے کو چلانے میں دلچپسی ظاہر کی تھی اور اس حوالے سے سرکلر ریلوے ٹریک کا باریک بینی سے وزٹ کرکے اپنی فزیبلٹی رپورٹ تیارکرلی تھی۔ جائکاایک ہاتھ میں فزیبلٹی رپورٹ اور دوسرے ہاتھ میں منصوبے کی تیاری میں استعمال ہونے کے لیے رقم رکھ کر برسوں وفاقی حکومت اور اداروں کے دروازوں پر دستک دیتا رہا لیکن عوامی مفاد کا حامل اہم منصوبے نامعلوم وجوہ کی بنا پر تعطل کا شکار ہوکر ردی کی ٹوکری کی نذر ہوگیا ۔

حکومت سندھ نے 11 جنوری 2017ء کو کراچی سرکلر ریلوے کی فزیبلٹی کے لیے ساڑھے 4کروڑ روپے کی منظوری دی اور اس وقت کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے سرکلر ریلوے کے راستے سے تجاوزات کے خاتمے کا حکم دیا تاکہ منصوبے پر پاک چین اقتصادی راہداری کے ذریعے کام شروع ہوسکے ۔

کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کی مجموعی لمبائی 43کلو میٹر ہے جس میں سے 13.43کلومیٹر ریلوے کی مرکزی لائن پر ہے اور 29.69کلومیٹر کے سی آر کی لوپ لائن پر ہے ۔ کراچی سرکلر ریلوے منصوبے کے لیے مجموعی طور پر 360ایکڑ رقبہ درکار ہے جس میں سے 260ایکڑ پاکستان ریلوے کی زمین اور 100ایکڑ مین لائن پر ہے اور 67ایکڑ زمین پر تجاوزات ہیں جس میں 47ایکڑ کے سی آر لوپ لائن پر ہے اور 20ایکڑ زمین لائن کے ساتھ ہے قبضہ کی گئی زمین پر 4653گھر تعمیر کیے گئے ہیں اور 2997دیگر تجاوزات ہیں کے سی آر کے 20فیصد حصے پر تجاوزات قائم ہیں منصوبے پر اسی صورت عمل ہوسکتا ہے کہ اس کے راستے سے تجاوزات کا خاتمہ کردیا جائے ۔

11جنوری 2017ء کواس وقت کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے اس وقت کے کمشنر کراچی اعجاز خان کو ہدایت کی تھی کہ وہ تمام ڈپٹی کمشنرز کے ساتھ اجلاس منعقد کریں اور کے سی آر کے روٹ سے تجاوزات کے خاتمے کے لیے پلان ترتیب دیں اور سات دن کے اندر رپورٹ پیش کریں ۔ انھوں نے سیکریٹری خزانہ کو بھی ہدایت کی کہ وہ کے سی آر کی فزیبلٹی کے لیے 45ملین روپے جاری کردیں ۔

بعد ازاں 15فروری 2017ء کو وزیر اعلیٰ ہاؤس میں کراچی سرکلر ریلوے سے متعلق اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ نے کہا کہ کراچی سرکلر ریلوے کے ٹریک پر 2013ء سے قبل کی جو تجاوزات ہیں انھیں انسانی ہمدردی کے تحت معاوضہ دیا جائے گا ، 2013ء کے بعد تجاوزات قائم کرنے والوں کو کسی بھی قسم کا کوئی معاضہ نہیں دیا جائے گا اور اسی اجلاس میں تمام تجاوزات کو ہٹانے کااصولی فیصلہ کرلیا گیا ۔ 3اپریل 2017ء کو بلدیہ عظمیٰ کراچی کے محکمے انسداد تجاوزات نے مچھر کالونی میں سرکلر ریلوے کی اراضی واگزار کرانے کے لیے کاروائی کی انسداد تجاوزات کے عملے کو قبضہ مافیا کی طرف سے سخت مزاحمت کاسامنا کرنا پڑا جس کے باعث کاروائی ادھوری چھوڑ دی گئی البتہ اس 2دن کی کارروائی میں کے سی آر کی قبضہ کی گئی 20ایکڑ اراضی میں سے 7ایکڑ اراضی واگزار کرالی گئی ۔

کراچی سرکلرریلوے کے اس منصوبے کے لیے بین الاقوامی ٹینڈرز اکتوبر 2017ء میں طلب کیے جانے تھے اوراس منصوبے کا آغاز بانی پاکستان محمد علی جناح کے یوم پیدائش 25دسمبر 2017ء کو ہونا تھا اور 3سال میں اسے مکمل کیا جانا تھا لیکن اگست 2017ء میں یہ منصوبہ نوکر شاہی کے حربے کی وجہ سے پھر التواء کاشکار ہوگیا تاہم یہ امر باعث اطمینان ہے کہ سندھ حکومت کاکہنا ہے کہ سرکلر ریلوے کا کام جہا ں رکا تھا،وہیں سے پھر شروع کیا جائیگا ۔امید ہے کہ کے سی آر کے اطراف تجاوزات کا بروقت خاتمہ کیا جائیگا ۔سرکلر ریلوے کی تکمیل سے کراچی کے لاکھوں مزدوروں کے ساتھ شہریوں کو بھی سستی اور تیز رفتار ٹرانسپورٹ کی سہولت دستیاب ہوگی ۔



 
سپریم کورٹ نے کراچی میں ریلوے کی زمین سے قبضہ چھڑوا کر فوری طور پر کراچی سرکلر ریلوے اور ٹرام لائن کی بحالی کا حکم دے دیا۔

سپریم کورٹ کراچي رجسٹری ميں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی ميں سماعت ہوئی جہاں عدالت نے سرکلر ريلوے کو فوری طور پر بحال کرنےکا حکم دیا۔

عدالت نے ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ کراچی بھر ميں ريلوے کی زمينوں کو واگزار کرا دیا جائے اور ڈپٹی کمشنرز کےذريعے تمام علاقوں سےريلوے لائن صاف کرا دی جائیں۔

ریلوے کے ڈی ایس نے عدالت کو بتایا کہ کراچی کے بيشتر علاقوں ميں ريلوے کی زمينوں پر قبضہ ہے۔

'کراچی سرکلر ریلوے پر کام رواں سال شروع ہوگا'

سپريم کورٹ نے شہر میں ٹرام لائن کی بحالی کا بھی حکم ديا اور کہا کہ سياحتی مقاصد کے لیے صدر سے اولڈ سٹی ايريا تک ٹرام چلائی جائے۔

انتظامیہ کو ہدایت کی گئی کہ کے ايم سی اور ضلعی انتظاميہ کی مدد سے بوگياں تيار کی جائیں اور مقامی انتظاميہ ريلوے کی مدد سے روٹ کا تعين کرے گی۔

سپریم کورٹ کا کراچی میں سیاحتی مقاصد کیلئے ٹرام چلانے کا حکم - Pakistan - Dawn News
 
سپریم کورٹ کی کے سی آر بحالی کی حتمی مدت سے تجاوز نہ کرنے کی ہدایت
ڈان

5f6d7010e7612.jpg

سپریم کورٹ نے فروری میں کے سی آر کو 6 ماہ میں بحال کرنے کی ہدایت کی تھی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
اسلام آباد: سپریم کورٹ نے حکومت سندھ کے ساتھ ساتھ پاکستان ریلویز کو خبردار کیا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے (کے سی آر) کی بحالی کے لیے مجوزہ مدت سے تجاوز نہ کیا جائے۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے پاکستان ریلوے کو درپیش خسارے سے متعلق از خود نوٹس کی سماعت کی جس میں عدالت کو بتایا گیا کہ فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن(ایف ڈبلیو او) نے کے سی آر روٹ کو آسانی سے چلانے کے لیے زیر زمین ار بالائی گزرگاہیں تعمیر کرنے کی تجویز دی ہے۔

سماعت میں ایڈیشنل اٹارنی جنرل چوہدری عامر رحمٰن، سیکریٹری ریلویز حبیب الرحمٰن گیلانی کے ساتھ ساتھ حکومت سندھ کے کچھ عہدیداران بھی موجود تھے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے فروری میں کے سی آر کو 6 ماہ میں بحال کرنے کی ہدایت کی تھی۔

عدالت کو بتایا گیا کہ ایف ڈبلیو نے 11 زیر زمین گزرگاہوں کی تعمیر کا سروے مکمل کرلیا ہے جبکہ بقیہ 13 کا بھی جلد مکمل کرلیا جائے گا۔

عدالت کو یہ بھی بتایا گیا کہ کے سی آر کی منصوبہ بندی کرلی گئی اور ڈیزائننگ کا کام جاری ہے، ایف ڈبلیو او ڈیزائن تیار اور تعمیری لاگت کا تخمینہ کرے تو ان زیر زمین گزرگاہوں کی تعمیر کا ٹھیکا جلد دے دیا جائے گا۔

عدالت سے کراچی سرکلر ریلوے کو فعال کرنے کی حتمی مدت میں 6 ہفتوں کے اضافے کی بھی درخواست کی گئی۔

سماعت کے دوران سیکریٹری ریلوے نے عدالت کو یقین دہانی کروائی کہ سندھ حکومت کی جانب سے کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی گئی اور دی گئی ٹائم لائنز کے اندر ٹرینیں چلانے کے لیے شب و روز کام ہورہا ہے۔

مزید پڑھیں: سرکلر ریلوے کے متاثرین کو محکمے کی زمین پر گھر بنا کر دیں گے، شیخ رشید

تجاوزات کے حوالے سے عدالت کو بتایاگیا کہ سندھ حکومت نے متعدد اقدامات اٹھائے ہی جبکہ سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ زیادہ تر تجاوزات ختم کی جاچکی ہیں اور بقیہ بھی جلد ختم کردی جائیں گی۔

عدالت نے حکومت سندھ کو بقیہ تجاوزات ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ آئندہ ٹریکس پر تجاوزات نہ ہوں۔
 

سیما علی

لائبریرین
ہم وہ لوگ ہیں جو بریانی کی ایک پلیٹ کے عوض اپنا ووٹ دے دیتے ہیں اور اسے بھی فائدے کا سودا سمجھتے ہیں. یہاں یہ حکمران اربوں روپے بلکہ ڈالر کھا جاتے ہیں اور ڈکار بھی نہیں لیتے. اب الیکشن سے چھ مہینے پہلے انہیں کراچی والوں پر رحم آنا شروع ہوگیا ہے تاکہ الیکشن کے لئے پیسے بٹورے جاسکیں. انہیں کوسے دینے کو جی چاہتا ہے وہ بھی دل بھر کے. خدا غارت کرے ان بے غیرت لوگوں کو جو عوام کا پیسہ کھا رہے ہیں اور شرم نہیں آتی
ڈاکٹر صاحب !!
بالکل درست فرمایا،بالکل انہی الفاظ میں بددعائیں دینے کا دل چاہتا۔کراچی سرکلر میں خود سفر کیا ہے ۔آپ لوگ تو بہت کم عمر ہیں ۔آپ کے لئیے یہ بات بہت حیران کن ہوگی کہ پورے مہینے کا پاس کل گیارہ روپے میں بنتا تھا ۔افسوس صد افسوس اس شہر کا کیا حال کردیا ۔
 
ڈاکٹر صاحب !!
بالکل درست فرمایا،بالکل انہی الفاظ میں بددعائیں دینے کا دل چاہتا۔کراچی سرکلر میں خود سفر کیا ہے ۔آپ لوگ تو بہت کم عمر ہیں ۔آپ کے لئیے یہ بات بہت حیران کن ہوگی کہ پورے مہینے کا پاس کل گیارہ روپے میں بنتا تھا ۔افسوس صد افسوس اس شہر کا کیا حال کردیا ۔
کراچی سرکلر ریلوے میں ہم نے بھی ایک بار سفر کیا ہے اور وہ بھی یونہی تفریحا ً۔ ہم تین بھائی اپنے ایک کزن کے ہمراہ سٹی اسٹیشن پہنچے، وہیں سے سفر کا آغاز کیا اور پورے شہر کا چکر کاٹ کر واپس وہیں پر اتر گئے۔
 

سیما علی

لائبریرین
حکمرانوں کا مطمحِ نظر کراچی سرکلر ریلوے کو بنانا نہیں بلکہ ہمیں بیوقوف بنانا ہے۔
اللّہ کرے بھیا یہ لوگ بیوقوف بنانے سے باز آیئں اور کچھ کام کرئیں۔کیونکہ کراچی کے بے ہنگم ٹریفک کا یہ واحد موثر علاج ہے ۔ سنگاپور اتنا سا ہو کر ًMRT کس خوش اسلوبی سے سنبھالتا ہے -ایک ہم ہیں۔شرم اِن کو مگر نہیں آتی۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
کراچی سرکلر ریلوے میں ہم نے بھی ایک بار سفر کیا ہے اور وہ بھی یونہی تفریحا ً۔ ہم تین بھائی اپنے ایک کزن کے ہمراہ سٹی اسٹیشن پہنچے، وہیں سے سفر کا آغاز کیا اور پورے شہر کا چکر کاٹ کر واپس وہیں پر اتر گئے۔
بھیا اتنا پرُسکون سفر ۔صاف سُتھری ٹرین :):) ائیر پورٹ والے اسٹیشن سے سٹی اسٹیشن۔کچھ عرصہ ہم کرائےپہُ وہاں رہے صاف ستھری آبادی اب تو شائد وہ علاقہ مشکل سے پہچان سکیں۔ کیونکہ شہر اسقدر بےہنگم طریقے سے پھیلا کہ سمجھ میں نہیں ۔کچھ عرصہ پہلے کسی ملیر جعفر طیار کے علاقے میں دیکھنے گئی تو علاقہ اسقدر بدل چکا تھا کہ پہچاننا مشکل۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
Top