محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
ڈان کا اداریہ۔ میٹرو بس سروس یا کراچی سرکلر ریلوے
اردو محفل کے لیے ترجمہ : محمد خلیل الرحمٰن
مسئلے کے متعلق مکمل معلومات نہ رکھنے کے باوجود میاں شہباز شریف اور قمر زمان کائرہ ، دونوں کے بیانات سن کر بہت سوں کو ایک خوشگوار حیرت ہوئی ہوگی، جنھیں کراچی کے کثیر تعداد کے نقل وحمل کے منصوبے سے دلچسپی ہے۔
پنجاب کے سابق وزیر ِ اعلیٰ اور نئے نامزد وزیرِ اعلی کے اس بیان کی مخالفت میں دیا گیا پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما کا بیان یقیناً سیاسی نوعیت کا ہے۔جناب شہباز شریف کے اس بیان پر کہ کراچی میں بھی لاہور جیسا میٹرو بس چلانے کا منصوبہ پاکستان مسلم لیگ نون کی ترجیحات میں سے ہے، ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے جناب کائرہ نے کہا کہ کراچی میں لاہور کی طرز پر چلائی جانے والی بس پر حکومت کی جانب سے ایک ارب روپیے ماہانہ کی اعانت درکار ہوگی یوں شاید میٹرو بس کا منصوبہ کراچی کے لیے سفید ہاتھی ثابت ہوگا۔ لیکن کائرہ صاحب نے یہ نہیں بتایا کہ اس کا کوئی متبادل ان کے ذہن میں بھی ہے یا نہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ میاں شہباز شریف بھی کراچی کے کثیر افرادی نقل و حمل کے اس منصوبے کی از سرِ نو ابتداء سے لاعلم ہیں، جس کے لیے جاپان کی حکومت مدد دینے کے لیے تیار ہے، جسے کراچی سرکلر ریلوے کہا جاتا ہے۔
کراچی کثیر افرادی نقل و حمل کا یہ منصوبہ پہلی مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے ۱۹۷۰ ء میں پیش کیا جس میں لالو کھیت ( لیاقت آباد) سے لیکر ٹاور تک نو کلو میٹر لمبی سرنگ بھی شامل تھی۔ ۱۹۷۷ء میں فوجی حکومت نے اس منصوبے کو پسِ پشت ڈال دیا۔ پھر کراچی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور رقبے کی ضرورت کے مدِ نظر جونیجو حکومے اس منصوبے پر دوبارہ غور شروع کیا۔ لیکن اس منصوبے کو دن کی روشنی دیکھنی نصیب نہ ہوئی۔ ۱۹۸۰ ء میں انڈس ماس ٹرانزٹ کمپنی کا قیام عمل میں لایا گیاجس میں ٹیکنالوجی اور رقوم کئی ممالک سے آرہی تھیںلیکن یہ منصوبی بھی خواب ہی رہا۔
اب ہم کراچی سرکلر ریلوے کے بارے میں سن رہے ہیں اور یہ فرض کرتے ہوئے کہ اس مرتبہ یہ منصوبہ افسر شاہی کی جانب سے سبوتاژ نہیں کیا جائے گا، ایسا لگتا ہے گویا، کراچی بالآخر اس منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل دیکھ پائے گا، جس کے نتیجے میں روزآنہ سات لاکھ مسافروں کو سفر کی سہولیات میسّر آسکیں گی۔
ہم سمجھ سکتے ہیں کہ پاکستان مسلم لیگ نون کے رہنما یقیناً شہری سندھ میں اپنی سیاسی حمایت پیدا کرنے میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن امیدِ واثق ہے کہ جلدی میں شہباز شریف کہیں کوئی ایسا قدم نہیں اُٹھائیں گے، جس سے کراچی سرکلر ریلوے کا جاپانی منصوبہ کھٹائی میں پڑجائے یا تعطل کا شکار ہوجائے۔ یقیناً ہم سب یہ نہیں چاہیں گے کہ میٹرو بس کے خیالی منصوبے کی وجہ سے کہیں کراچی سرکلر ریلوے کے اس منصوبے کو ترک نہ کردیا جائے۔
ربط