میٹرو پولیٹن شہر، کراچی

فہیم

لائبریرین
یہ مضمون ایک نصابی کتاب سے لیا گیا ہے۔
ہوسکتا ہے اس طرح کا یا اس سے ملتا جلتا مواد پہلے بھی کہیں موجود ہو۔
اردو وکی پیڈیا پر جو مواد موجود ہے وہ اس مضمون کے مقابلے کافی زیادہ ہے۔ لیکن پھر بھی اس مضمون میں کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جو مجھے وہاں نہیں دکھائی دیں۔
تبھی میں یہ ٹائپ کرکے پوسٹ کررہا ہوں۔
 

فہیم

لائبریرین
میٹرو پولیٹن شہر کراچی
کراچی کا تاریخی پس منظر:
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جو رقبہ اور آبادی کے اعتبار سے دنیا کے بڑے بڑے شہروں جیسے لندن، ٹوکیو، بیجنگ، میکسیکو سٹی اور بمبئی وغیرہ کے ہم پلہ ہے۔ تاہم ان شہروں کے کے مقابلے کراچی نے صرف 45 برس کے مختصر عرصے میں آبادی کی انتہا کو چھو لیا ہے۔ انیسویں صدی کے نصف تک کراچی صڑف دس ہزار آبادی والا چھوٹا سا ساحلی قصبہ تھا۔ جسے ان دنوں کُراچی کہا جاتا تھا۔ جبکہ اٹھارہویں صدی میں اس کا نام کلاچی تھا۔
کراچی کو پاکستان کا پہلا دارلحکومت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔ اور اس وقت اس کی آبادی صرف 3 لاکھ تھی۔
کراچی کے لوگ:
کراچی میں نہ صرف پاکستان کے تمام علاقوں کے لوگ رہتے ہیں بلکہ یہاں بنگلہ دیشی، سری لنکن، برمیوں، افغانیوں، ایرانیوں، ویت نامیوں، وسط ایشیاء کی ریاستوں کے لوگوں، فلسطینیوں اور افریقی ممالک کے باشندوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ کراچی کی غالب آبادی بھارت سے آئے ہوئے مہاجروں اور ان کی اولاد پر مشتمل ہے۔ جو ایک اندازے کے مطابق اس شہر کا 40 فیصد حصہ ہے۔ 30 فیصد کے قریب پنجابی اور پٹھان جو یہاں کے مستقل باشندے ہیں۔ افغانیوں کی تعداد کوئی پانچ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ غیر سرکاری اطلاعات کے مطابق بنگالیوں کی تعداد دس لاکھ کے قریب ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بنگلہ دیش کے قیام کے بعد پاکستان سے چلے گئے تھے۔ اب بھوک اور افلاس نے انہیں دوبارہ کراچی آنے پر مجبور کردیا۔ سری لنکن، فلپانئنی، ویت نامی اور وسط ایشیاء کے لوگ بڑے لوگوں کے گھروں میں کام کرتے ہیں یا بطور پرائیوٹ سیکریٹری، آیا اور ڈرائیور وغیرہ کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ مذکورہ ممالک کی عورتیں خاص طور پر پاکستان کے بڑے گھروں میں کام کرتی ہیں۔ کراچی شہر کے مضافات میں قدیم سندھیوں اور بلوچوں کے گاؤں ہیں۔ جبکہ صاحب ثروت سندھی وسط شہر کی اونچی سوسائیٹیوں اور پوش علاقوں میں بھی رہتے ہیں۔
مذاہب اور نسلیں:
کراچی شہر کی غالب آبادی تو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ تاہم یہ پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں مسلمانوں کے تمام طبقات کے علاوہ دنیائے مصروف مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد رہتے بستے ہیں۔ غیر مسلم آبادی میں سب سے زیادہ تعداد عیسائیوں کی ہے۔ جن کی مستقل آبادیاں ہیں۔ دیگر غیر مسلموں مٰں ہندوؤں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔ چند ہزار پارسیوں اور چند سو بدھو کے علاوہ غالباً یہ پاکستان کا واحد شہر ہے جہاں چار پانچ سو یہودی بھی رہتے ہیں اور پاکستان میں ان کی واحد عبادت گاہ بھی کراچی کے ایک علاقے رام سوامی میں واقع ہے۔
مسلمانوں میں شیخ، سید، مغل، پٹھان بھی شامل ہیں ذاتوں اور طبقات میں ہر نسلی لسانی گروہ کے افراد ہیں۔ پاکستان کے مختلف صوبوں سے آنے والے سندھی، بلوچی، پختون اور پنجابی اپنے ساتھ مخصوص ذاتیں لے کر آتے ہیں۔
پیشے، کاروبار اور طرز زندگی:
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی اور کارباری شہر بھی ہے۔ یہاں کے لوگ بے شمار پیشوں اور کاروبار سے منسلک ہیں۔ لاکھوں افراد سرکاری، غیر سرکاری، نیم سرکاری اور نجی اداروں میں ملازمت کرتے ہیں۔ ان ملازمین میں چپڑاسی اور چوکیدار سے لے کر اعلٰی افسران بھی شامل ہیں۔ کراچی کی زندگی کا طرز بڑا نرالا ہے۔ یہاں ایک طرف اگر ساحل سمندر پر ہزاروں گز کی کوٹھیاں اور کے ڈی اے اسکیم میں محل نما بنگلے ہیں۔ تو دوسری جانب اورنگی یا قصبہ کی کئی آبادیوں کے صرف ایک کمرے والے مکانات میں آتھ دس افراد بھی رہتے ہیں۔ اگر کسی بنگلے یا کوٹھی کے ہر مکین کے لئے ایک شاندار کار موجود ہے تو لاکھوں افراد روزانہ بسوں میں لٹک کر یا منی بس میں مرغا بن کر اپنی ڈیوٹی پر جاتے ہیں۔ یہ عجیب و غریب شہر ہے جہاں اگر ہوٹل انٹرکانٹینینٹل یا ہالیڈے ان میں صرف ایک چائے کی پیالی پر سینکڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ تو اس مہنگے دور میں کسی فٹ پاتھ کے ٹھیلے پر کھڑے ہوکر روٹی کھانے والا 20 روپے میں اپنا پیٹ بھر سکتا ہے۔ آج کل کی مہنگائی میں بھی ٹھیلے پر 30-35 روپے میں کھانا کھایا جاسکتا ہے۔ کراچی کا اصل روپ دیکھنا ہو تو لیاقت آباد، نئی کراچی، بلدویہ ٹاؤن، ملیر، سعود آباد، لانڈھی اور کھوکھرا پار وغیرہ کو دیکھا جائے۔ صرف کلفٹن۔ سول لائز، کے ڈی اے اسکیم اور محمد علی ہاؤسنگ سوسائٹی دیکھنے والوں کو کراچی اور پیرس یا لندن میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا۔ کراچی کے متوسط درجے کے علاقوں میں فیڈرل بی ایریا، نارتھ ناظم آباد اور گلشن اقبال کے کچھ حصے شامل ہیں۔
کراچی کی ثقافت:
کراچی کی ایک مخصؤص ثقافت ہے جو پاکستان کے تمام شہروں سے بالکل الگ ہے۔ ہر ایک ثقافت میں ہر علاقے، ہر لسانی گروہ اور مذہب کے ماننے والوں کی ثقافت کا عکس نظر آتا ہے۔ ثقافت پر اسلام کا گہرا اثر ان معنوں میں ہے کہ بیشتر تہوار، پیداش و اموات کی رسمیں اور شادی بیاہ اسلامی طریقے سے ہوتے ہیں۔ مگر نوجوانوں پر مغربی ثقافت کے گہرے اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ کراچی میں بھانت بھانت کے لوگ اپنے مخصؤص لباس میں نظر آتے ہیں۔ یہاں شلوار قمیض پہننے میں والے، مغربی سوٹ زیب تن کرنے والے اور دھوتی کرتے میں ملبوس افراد کے ساتھ عربی عبا اور عقال والے بھی دکھائی دیتے گے۔ اگر ایک طرف اس دور میں تینو نما برقع پہننے والی خواتین نظر آئیں گی تو صدر میں نیم عریاں لباس والی مغربی یا مغرب زدہ مقامی خواتین کا نظارہ بھی کیا جاسکے گا۔ کراچی شہر لسانی علاقہ ہے اور یہاں کم و بیش ایک سو کے قریب مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں۔ بڑی بڑی زبانوں میں انگریزی، سندھی، گجراتی، کچھی، مارواڑیم سرائیکی، پشتو، پنجابی ہندکو، بلوچی، پوٹوہاری، بنگالی اور عربی شامل ہیں۔ اردو ہر طبقے کا فرد بولتا اور سمجھتا ہے۔ یہاں ادب و صحافت خوب پھل پھول رہے ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
زبردست مضمون ہے۔ البتہ یہ بیان کہ چار پانچ سو یہودی بھی اس شہر میں آباد ہیں، یکسر غلط ہے۔ مشرف کے دور میں رامسوامی کا واحد متروک یہودی عبادت گاہ کو حکومتی سرپرستی میں کھولا گیا تھا۔ اس وقت اے آر وائی کے ڈاکٹر شاہد مسعود نے بڑی مشکل سے خاندان میں آباد ایک یہودی گھرانے سے بات چیت کی تھی۔۔ 1957 میں کراچی میں 600 یہودی آباد تھے۔ 1970 میں اکثر یہودی امریکہ شفٹ ہوگئے تھے۔1972 میں یہاں صرف دس تا پندرہ یہودی خاندان رہ گئے تھے۔ آج یہاں بمشکل چند گھرانے آباد ہوں گے، جو مشرف دور میں واحد یہودی عبادت گاہ کے کھلنے کے بعد شاید یہاں آئے ہوں۔
 

یوسف-2

محفلین
یاد آیا کہ اس وقت افغانستان اور ایران میں بھی ایک یا دو یہودی خاندان آباد ہیں۔واضح رہے کہ یہاں مقامی شہریت کے حامل یہودیوں کا تذکرہ ہورہا ہے ورنہ امریکن پاسپورٹ یا نیٹو افواج کی چھتری تلے پاکستان، افغانستان میں کتنے یہودی ”سرگرم عمل“ ہیں، یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے، یا انہیں یہاں بھیجنے والے جانتے ہیں :D
 

زبیر مرزا

محفلین
کراچی کے پارسی باشندوں اور ان کے کلچر پر لکھنے کا کافی عرصے سے ارادہ ہے - دھیمے لہجے میں گجراتی بولتے اور
زردی مائل رنگت والے بڑے با سلیقہ لوگ ہیں یہ -
 
Top