بلال
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
میڈیا اور اردو کے رضاکار – چند تلخ حقائق
ہاں تو یہ باتیں ہیں میرے، میڈیا، اردو کے رضاکاروں اور اردو کے متعلق۔ آپ کے پاس وقت ہے تو پڑھیے اور سوچیئے کہ اردو کے ان رضاکاروں کیا ملا؟ جب سے پاک اردو انسٹالر بنایا ہے تب سے کسی اپنے جیسے پر کھل کر بات بھی نہیں کر پاتا۔ کئی تحاریر لکھ رکھی ہیں مگر شائع نہیں کیں کیونکہ لگتا ہے کہ لوگ کہیں گے کہ یہ شہرت کا بھوکا ہے یا ”انگور کٹھے ہیں“ کا طعنہ بھی مل سکتا ہے۔ مگر یارو! اب بات برداشت سے باہر ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی بات دل پر لے کر اردو اور بلاگنگ سے کنارہ کشی کر جاؤں، مجھے کچھ پرانی اور کچھ نئی باتیں کہہ لینے دیں، تاکہ میں جذبات میں کوئی الٹا سیدھا فیصلہ نہ کروں۔ ہو سکتا ہے کہ میں اس تحریر میں اپنے جیسوں کے لئے کئی الٹے سیدھے الفاظ استعمال کروں مگر مجھے پوری امید ہے کہ میرے جیسے ”پاگل“ ان الفاظ کو دل پر نہیں لیں گے۔
میں کمپیوٹر پر اردو تو بہت پہلے سے لکھ رہا ہوں مگر اردو کی ترویج کے لئے تھوڑا بہت انفرادی طور پرآج سے تقریبا چھ سال پہلے یعنی 2006ء میں کام شروع کیا اور پھر ”سر پھروں“ کے کارواں میں 2007ء میں شامل ہوا۔ ابھی میں نے نئی نئی اردو محفل میں شمولیت اختیار کی تھی کہ عمار ابن ضیاء نے ”اردو محفل کی تشہیر“ کے نام سے موضوع شروع کر دیا۔ دراصل ان دنوں اردو کو رضاکاروں کی ضرورت تھی جو کہ آج بھی ہے۔ خیر اردو محفل پر اس بارے میں کئی مشورے سامنے آئے، جن میں ایک صحافیوں اور کالم نگاروں سے رابطہ تھا تاکہ وہ اردو محفل کے متعلق لکھیں، لوگوں تک اردو کی آواز پہنچے اور مزید لوگ اس کارواں میں شامل ہوں۔ یوں تو میں اس کارواں میں لکھاری بننے کے لئے شامل ہوا تھا لیکن جب دیکھا کہ ابھی تو قلم (اردو کمپیوٹنگ) ہی ٹھیک طرح تیار نہیں، تو پھر لکھنے کے شوق کو ایک طرف رکھ کر اردو کمپیوٹنگ کے لئے اپنی طرف سے کوشش کرنے لگا۔
جب اردو محفل سے صحافیوں اور کالم نگاروں سے رابطہ کرنے والا آئیڈیا ملا تو میں نے میڈیا کے بڑے بڑے لوگوں سے رابطے کی کوشش شروع کر دی۔ تب اردو کمپیوٹنگ میں میرا کوئی حصہ شامل نہیں تھا تو میں کھلے دل سے میڈیا والوں سے رابطہ کرتا کیونکہ تب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ اپنی شہرت کے لئے ایسا کر رہا ہے۔ کالم نگاروں اور خاص طور پر اخبارات کو بھیجی گئی ای میلز اور فیکس میں میرا مقصد ان کی توجہ اردو محفل اور اردو کی ترویج کی طرف دلانا ہوتی۔ میرے علاوہ کئی اور لوگوں نے بھی رابطے کیے مگر کچھ خاص نہ ہو سکا۔ آسان الفاظ میں کہ میڈیا والوں نے ہمیں منہ ہی نہ لگایا۔ جب ایسا ہوتا دیکھا تو سوچا کہ ابھی ہم جتنے ہیں انہیں ہی کچھ کرنا ہو گا۔ میں نے اردو کمپیوٹنگ کے لئے ٹیوٹوریل لکھنے شروع کر دیئے۔ ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً اخبارات سے رابطہ کی کوشش بھی کرتا رہا۔ خاص طور پر جب 2008ء میں امجد حسین علوی نے علوی نستعلیق بنایا تو میں نے کئی اخبارات کو اس بارے میں اس انداز سے آگاہ کیا کہ یہ ایک اہم سنگِ میل تھا بلکہ یہ اردو کمپیوٹنگ میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ میری یہ رابطے کی کوشش صرف ای میل تک محدود نہیں تھیں بلکہ فیکس بھی کرتا تھا۔ میں ان اخبارات کو یونیکوڈ اردو کے فوائد لکھتا، ان کو بتاتا کہ اپنی ویب سائیٹ یونیکوڈ اردو میں بھی بناؤ، اس سے اخبار کو بہت فائدہ ہو گا۔ آپ میرے پاگل پن کی انتہا دیکھو کہ ان دنوں فرصت تھی تو میں انہیں مفت یونیکوڈ اردو ویب سائیٹ بنا کر دینے کی آفر تک کرتا۔ مگر کچھ نہ ہو سکا۔ کسی نے ہماری ایک نہ سنی، ای میل یا فیکس کا جواب تک دینا گوارہ نہ کیا، اجی وہی کہ ہمیں منہ تک نہ لگایا۔ آخر کب تک، یوں میں نے آخری کافی لمبی چوڑی فیکس روزنامہ ایکسپریس کے فیکس نمبر 0425878708 پر 24 مارچ 2009ء کو بھیجی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ اس مادیت پرست دور میں ضرورت سے زیادہ خلوص بھی آپ کی اور آپ کی بات کی قدر کم کر دیتا ہے، شاید میرے ساتھ بھی وہی ہوا۔
انہیں دنوں میں اپنے صحافت کے شوق کی وجہ سے ایک لوکل اخبار میں شوقیہ کام کرتا تھا۔ اس اخبار میں صاحبِ اختیار تھا تو میں نے اردو کے متعلق جی بھر کر خبریں لگائیں۔ خیر اخبار میں کام کرنے کی وجہ سے دن بدن ان صحافیوں اور میڈیا کی اصلیت میرے سامنے آنے لگی تو مجھے پتہ چلا کہ یہاں تو سب مایا ہے۔ جس طرح میں سوچ رہا ہوں ایسا کچھ نہیں۔ قومی اخبارات میں خبر وہی لگے گی، فیچر وہی شائع ہو گا، چینل پر پٹی وہی چلے گی جس سے ادارے کا یا ان کے نمائندوں کا مفاد وابستہ ہو۔ ادارے کے کسی بڑے کو لالچ/رشوت دو یا ایک نمائندے کو سیگرٹ کی ڈبی سے خریدو یا تعلقات قائم کرو، تبھی کچھ ہو سکتا ہے۔ اگر تم سوچو کہ مفت میں یعنی قابلیت کی قدر کرتے ہوئے یا ملک و قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہو تو ایسا کچھ نہیں اور اگر ایسا سوچو تو یہ سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں۔ غلط طریقہ میں اپنانا نہیں چاہتا تھا تو چپ کر گیا۔ ہو سکتا ہے ان میں اچھے لوگ بھی موجود ہوں مگر کم از کم میں ایسے کسی کو نہیں جانتا یا میرا اس سے رابطہ کرنا ممکن نہیں ہو سکا۔
خیر وقت گذررہا تھا۔ کچھ سر پھرے لوگوں نے منظم ہو کر اپنی مدد آپ کے تحت رضاکارانہ طور پر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو کی ترویج کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ نہ کوئی حکومتی سرپرستی، نہ کوئی فنڈ اور نہ کسی کی طرف سے حوصلہ افزائی۔ مگر وہ سرپھرے اپنا جیب خرچ تک اردو کی خدمت میں لگا کر، اپنی بھری جوانی میں مغز ماری کرتے۔ مگر مجال ہے کسی اخبار یا چینل کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ اردو محفل ترقی کرتی رہی۔ پاک نیٹ اور القلم جیسے فورم وجود میں آئے۔ رضاکار دن رات محنت کرتے رہے۔ اردو کمپیوٹنگ اور بلاگنگ کے متعلق ایک کے بعد ایک تحقیق شائع ہوتی۔ آئے دن نئے سے نئے اردو فانٹ بنتے۔ کئی قسم کے نستعلیق فانٹ بن گئے، جن میں علوی نستعلیق اور جمیل نوری نستعلیق خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ قرآن پاک کے اردو ترجمہ والے چند سافٹ ویئر بنے اور نہایت محنت کے ساتھ قرآن پاک کے لئے برصغیری نسخ فانٹ بنانے کے ساتھ ساتھ قرآن کے متن کی سافٹ کاپی بھی تیار ہوئی۔ نبیل بھائی کا اردو ویب ایڈیٹر جہاں بے شمار اردو ویب سائیٹوں پر استعمال ہوا وہیں پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائیٹ تک نے استعمال کیا۔ انپیج سے یونیکوڈ کنورٹر بنے۔ اردو ٹائیپنگ ٹیوٹر بنا۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب ایک طرف سافٹ ویئر انجینیئر اردو سافٹ ویئر پر تحقیق کرتا تو دوسری طرف ٹائیپسٹ بن کر کاپی رائیٹ سے آزاد اردو کتابیں بھی ٹائیپ کرتا تاکہ انٹرنیٹ پر اردو مواد زیادہ سے زیادہ ہو۔ اردو والوں کی محنتیں رنگ لانے لگیں۔ آہستہ آہستہ اہم سے اہم سنگِ میل عبور کرتے ہوئے اس کارواں نے جس کے سب سے آخر پر میں ہوں یعنی میرا نام پانی پلانے والوں میں آتا، خیر اس کارواں نے 2011ء میں اردو کو اس مقام پر لا کھڑا کیا، جہاں پر عام صارف کے لئے تمام دروازے کھول دیئے۔ جس سے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو بہتر انداز میں پڑھنے، ہر جگہ لکھنے اور اردو بلاگنگ جیسے کام اتنے آسان کر دیئے کہ آج ہر کوئی آسانی سے اردو لکھ سکتا ہے۔ اس کارواں نے اردو کے لئے بے شمار فانٹ اور سافٹ ویئر بنائے، اردو کمپیوٹنگ پر کتابیں لکھیں اور اردو کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا۔ اوپر سے سب کچھ مفت میں رکھا تاکہ ہر کوئی اس سے استفادہ کر سکے۔ آج اکثر چینل جو خبروں کی ”اپڈیٹس“ چلا رہے ہیں ان میں اور ان کی ویب سائیٹوں پر جو اردو فانٹ استعمال ہو رہے ہیں یہ انہیں رضاکاروں کی محنتوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے دن رات ایک کر کے پاگلوں کی طرح اردو کے لئے کام کیا اور آج بھی کر رہے ہیں۔
ایک طرف میڈیا گونگا بہرہ بنا رہا تو دوسری طرف میں نے اپنے اردو محفل کے اساتذہ کی تحقیق، تجربات اور کام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا تھوڑا سا حصہ بھی اردو کی خدمت میں شامل کر دیا۔ یاد رہے میرے ان اساتذہ کی فہرست کافی لمبی ہے کیونکہ میں نے جو بھی اردو کے متعلق کام کیا ہے اس میں سب سے زیادہ ہاتھ اردو محفل کا ہی ہے اور اردو محفل پر جس سے جو کچھ بھی سیکھا ہے اسے میں استاد مانتا ہوں۔ مجھے ان لوگوں کے نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے، کئی ایک سے کئی معاملات میں ہے بھی اور سخت قسم کا ہے، مگر اردو کے حوالے سے حقیقت یہی ہے کہ اردو محفل میری استاد ہے۔
اپنے اساتذہ کی مہربانی سے جہاں میں نے اردو تھیم بنائے، اردو اور کمپیوٹر کتابچہ لکھا اور اردو کمپیوٹنگ کے متعلق دیگر کئی ٹیوٹوریل اور تحقیقی مضامین لکھے وہیں پر 2011ء کے شروع میں اردو اور بلاگ کتاب لکھ دی۔ یوں میری طرف سے اردو کے اس کام میں تھوڑا سا حصہ شامل ہو گیا۔ آپ لوگوں نےاتنی حوصلہ افزائی کی کہ اب تو میں اخبارات والوں سے ہرگز رابطہ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اگر رابطہ کرتا تو ”مجھے“ ایسا لگتا جیسا میں ان سے حوصلہ افزائی یا شہرت چاہتا ہوں جبکہ جس (اللہ) سے جو چاہتا ہوں وہ مجھے ان سب سے بڑھ کر دے رہا ہے۔ جون 2011ء میں پاک اردو انسٹالر بن گیا۔ آپ لوگوں نے اتنی حوصلہ افزائی کی اور تعریفوں کے ایسے انبار لگائے کہ میں ان میں دبتا ہی چلا گیا۔ کسی دوسرے پر تنقید برائے تعمیر حتی کہ خرابی بیان کرنے کے متعلق تو جیسے میرے ہاتھ ہی کٹ گئے۔ ایک ایک لفظ کئی کئی دفعہ سوچ کر لکھنا پڑتا کہ کہیں کوئی تھوڑی سی بھی بات ہو گئی تو لوگ کہیں گے کہ اس نے اردو کے متعلق کام کیا ہے تو احسان جتا رہا ہے یا خود کو بڑا تیس مار خاں سمجھتا ہے۔اردو سے متعلقہ میڈیا اور اخبارات کے بارے میں کسی بات پر تو جیسے سانپ سونگھ گیا کیونکہ لگتا کہ اگر ذرا سی بھی بات کی تو یار لوگ سوچیں گے کہ یہ اپنی شہرت چاہتا ہے یا دوسرے کا حسد کر رہا ہے۔
میڈیا پر آئے روز ایجادیوں کی برات دکھاتے تو میں اس پر تحریر لکھتا، کمپیوٹر میں محفوظ کرتا، میڈیا کی جہالت پر ہنستا اور چپ چاپ اپنے کام سے کام رکھتا۔ زاہد حسین اور پھر واٹر کٹ پر میرا صبر جواب دے گیا اور پھر پچھلی لکھی ہوئی تحاریر کو ملا کر ایک تحریر ”میڈیا لایا ایجادیوں کی برات“ شائع کر ہی دی۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ کئی القابات ملے، گالیاں سنیں اور لوگوں نے ذاتی پیغامات میں یہاں تک کہا کہ ”انگور کٹھے ہیں“۔ اس سب کے باوجود دل میں کوئی بات نہیں آئی کیونکہ ایسے کاموں میں ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ ویسے بھی آپ لوگوں نے حوصلہ افزائی کی تو سب باتیں بھول گیا۔
روزنامہ جنگ سے لے کر ایک عام اخبار تک، زیادہ تر اپنی ویب سائیٹوں پر اسی اردو محفل اور دیگر رضاکاروں کی محنت کا پھل کھا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں روزنامہ ایکسپریس نے آخر کار اپنی یونیکوڈ ویب سائیٹ بنا ہی دی مگر انہوں نے بھی وہی اردو والوں کی محنتوں کا پھل کھانا شروع کر دیا۔ باقی میڈیا دیگر رضاکاروں کی محنتوں کا پھل کھا رہا تھا اس لئے میں اس کے خلاف نہیں بول سکتا تھا کیونکہ ہو سکتا ہے جس کا وہ کام ہے اس نے کوئی معاہدہ کر رکھا ہو مگر ایکسپریس والوں نے میرے بلاگ/ویب سائیٹ کی پالیسی کے خلاف میرے بنائے ہوئے اردو فانٹ انسٹالر کا نام بدل کر اسے اپنی ویب سائیٹ پر اپنے نام سے اپلوڈ کر دیا۔ یہ حرکت مجھے اچھی نہ لگی اور کیوں نہ لگی یہ بعد میں بتاتا ہوں۔ خیر میں نے اور آپ جیسے مہربانوں نے فیس بک پر خوب جم کر احتجاج کیا اور ایکسپریس والوں نے انسٹالر اپنی ویب سائیٹ سے ہٹا دیا۔ ہمیں معلوم تھا کہ اگر ہمارے احتجاج نے اثر کیا تو وہ انسٹالر ہٹا دیں گے۔ خیر انسٹالر ہٹانے سے کیا ہوا؟
کیا یونیکوڈ اردو کی تشہیر رک گئی؟ کیا ہم نے اردو انسٹالر کی تشہیر کا موقع گنوا دیا؟ اس احتجاج کا کیا کوئی فائدہ ہوا؟
پہلی بات کہ کیا اردو کی تشہیر رک گئی، تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اردو اپنا لوہا منوا رہی ہے اور ان اداروں کی مجبوری ہے۔ انہیں یونیکوڈ اردو استعمال کرنی ہی ہو گی اور یہ اس کا کوئی نہ کوئی ”جگاڑ“ ضرور لگائیں گے۔ لہذا ایسی کوئی بات نہیں کہ یونیکوڈ اردو کی تشہیر رک گئی۔
کیا ہم نے اردو انسٹالر کی تشہیر کا موقع گنوا دیا؟ سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رکھیں کہ ایکسپریس والے صرف فانٹ انسٹالر اپنے نام سے ڈاؤن لوڈ کروا رہے تھے، جس سے صرف اردو بہتر انداز میں پڑھی جا سکتی ہے۔ اردو کے قارئین تو پہلے ہی بہت ہیں مسئلہ صرف اتنا ہے کہ لوگ اردو لکھ نہیں پاتے اور سرچ انجن میں اردو میں تلاش نہیں کرتے اور اصل اردو ویب سائیٹ تک نہیں پہنچ پاتے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اردو لکھنے کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ اس کے لئے اگر ایکسپریس والے پورے کا پورا پاک اردو انسٹالر اور بے شک اپنے نام سے ہی شائع کرتے تو پھر بھی شاید ہم چپ ہی رہتے کہ چلو کسی بہانے سہی مگر اردو کی ترویج تو ہو رہی ہے۔
اس احتجاج کا کیا کوئی فائدہ ہوا؟ جی اس کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ایکسپریس اور دیگر میڈیا والوں کو یہ احساس ہوا ہے کہ جن رضاکاروں کو ہم فراموش کرتے رہے یعنی جن کے کام کو اہمیت ہی نہیں دی آج ہمیں انہیں کے کام کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ آج ہم انہیں کے فانٹس کے محتاج ہیں۔ فائدہ یہ ہوا کہ دنیا کو احساس ہوا کہ یہ سرپھرے اردو کے رضاکار جو سالوں پہلے سے چیختے چلاتے آ رہے ہیں یہ واقعی درست ہیں، اصل اردو یونیکوڈ ہی ہے جبھی تو آج بڑے بڑے ادارے یونیکوڈ اردو کی طرف آ رہے ہیں۔ دنیا کو پتہ چلا کہ ان پاگل رضاکاروں نے جو کیا وہ واقعی اہمیت رکھتا ہے جبھی تو آج بڑے بڑے ادارے ان کی محنتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دنیا کو بھی تو پتہ چلے کہ یہ رضاکار کوئی اہمیت رکھتے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ احساس تو ان سے پیار محبت سے بات کر کے بھی تو دلایا جا سکتا تھا۔ تو غور کیجئے بڑا عرصہ ان کے ترلے منتیں کرتے رہے کہ اردو محفل اور القلم ہیں، اردو کے رضاکار ہیں، خدا کے لئے ان کی تھوڑی سی حوصلہ افزائی کے لئے دو بول ہی بول دو، کچھ ان کی حوصلہ افزائی ہو جائے گی تو کچھ لوگوں کو پتہ چلے گا اور مزید رضاکار اس کارواں میں شامل ہو جائیں گے اور یوں اردو کی ترویج آسان ہو جائے گی۔ مگر کسی اخبار کو توفیق ہی نہیں ہوئی۔ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے م بلال م جھوٹ بول رہا ہو۔ انہوں نے رابطے نہ کیے ہوں اور میڈیا کورضاکاروں کے کاموں کا پتہ ہی نہ ہو۔ پہلی بات تو یہ کہ اوپر ایک فیکس کا مکمل حوالہ لکھا ہے آپ ایکسپریس والوں سے تصدیق کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ فرض کریں میں جھوٹ ہی بول رہا ہوں تو غور کریں جناب! یہ میڈیا والے اردو ویب فانٹ سرور، القلم، اردو محفل اور اردو کے رضاکاروں کی ویب سائیٹوں سے فانٹ اور انسٹالر ڈاؤن لوڈ کر کے استعمال کر سکتے ہیں تو کیا انہیں یہ سب کچھ کرنے والے سر پھرے لوگ نظر نہیں آتے؟ نبیل کا اردو ویب ایڈیٹر تو استعمال کر سکتے ہیں مگر نبیل کیا کوئی جن ہے جو انہیں نظر نہیں آتا؟ بڑے بڑے کالم نگار اردو بلاگوں کی تحاریر کی نقل مار سکتے ہیں مگر انہیں صاحب بلاگ کیوں نظر نہیں آتا۔ واٹر کٹ فراڈ پر ڈاکٹر عطاء الرحمان کے بعد سب سے پہلے آواز بلند کرنے والوں میں اردو بلاگستان تھا، اس میڈیا کو پوری دنیا نظر آ گئی مگر اردو بلاگستان کیوں نظر نہیں آیا؟ یہ چوروں کے بچے، کرک نامہ کی تحاریر تو چوری کر سکتے ہیں مگر انہیں فہد نظر کیوں نہیں آتا؟ حضور! مجھے بتائیے کہ سارا میڈیا دھڑا دھڑ ان رضاکاروں کی محنت کا پھل کھا رہا ہے مگر اسے اردو کے رضاکار کیوں نظر نہیں آتے؟؟؟
مجھے ایکسپریس والوں کی حرکت اسی لئے بری لگی کہ جب رضاکار تم سے رابطہ کرتے تھے تو تب تم فراڈیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ پچھلے آٹھ سال سے یہ اردو کے مجنوں (رضاکار) خون دیتے رہے ہیں اور تم چُوری (محنت) کو اپنے نام سے شائع کرو۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ ایک طرف میڈیا فراموش کر رہا ہے اور دوسری طرف الٹا رضاکاروں کی محنت پر ڈاکہ ڈال رہا ہے۔ آپ خود سوچو کیا یہ حالات قابل برداشت ہیں؟ مسئلہ م بلال م کا نام نہ آنے کا نہیں مسئلہ ان رضاکاروں کی محنتوں کو فراموش کرنے کا ہے جنہوں نے اردو فانٹ بنائے ہیں۔
ایسی باتیں کریں تو یار لوگ کہتے ہیں کہ تم لوگ شہرت چاہتے ہو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شہرت نہیں چاہتے۔ اس کی وضاحت بعد میں کرتا ہوں۔ فی الحال یہ فرض کریں کہ شہرت چاہتے ہیں۔ تو بھائیو! اس میں کونسا جرم ہے۔ اپنا حق مانگ رہے ہیں، کوئی خیرات نہیں مانگ رہے۔ ہم تو بہت معمولی ہیں ہم شہرت کی چاہت کر لیں تو کوئی طوفان نہیں آنے والا۔ مگر یہ اتنی اتنی عظیم کتابیں لکھنے والے، یہ کالم نگار، یہ ایجادات کرنے والے، یہ بڑے بڑے عظیم قول کہنے والے، یہ سب کے سب بڑے بڑے اور عاجز لوگ کیا شہرت نہیں چاہتے تھے؟ اگر نہیں چاہتے تھے تو پھر اپنے کام کے ساتھ اپنا نام کیوں لکھ چھوڑا؟ کتابوں کے سرورق پر اپنی تصویر کیوں چھاپی؟ فلیمنگ نے پنسلین کے ساتھ اپنا نام کیوں جوڑا، اپنی دریافت کے ساتھ کسی ”پیٹر“ کا نام لکھ دیتا۔ یہ قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ کیوں لکھا، کوئی ”دتہ نامہ“ لکھ کر خود گم نام ہو جاتا۔ میں اردو کے رضاکاروں کو اور ان کے کام کو بڑے لوگوں کے اور ان کے کام کے ہرگز ہرگز برابر نہیں لا رہا بس یہ بتا رہا ہوں کہ بڑے بڑے عظیم لوگ بھی اپنے کام کے ساتھ اپنا نام ہی لکھتے لکھواتے آئے ہیں، تو اگر یہ اردو کے رضاکار اپنے کام کے ساتھ اپنا نام لکھوا لیں گے تو کونسا کوئی جرم کریں گے۔ اگر یہ میڈیا ان رضاکاروں کو کسی طرح کا بھی ”کریڈٹ“ نہیں دیتا تو آپ خود فیصلہ کیجئے، کون کس کا حق کھا رہا ہے اور کون اخلاقی جرم کر رہا ہے؟
نیکی کر دریا میں ڈال۔ میرے خیال میں ایکسپریس والی مہم میں ہم نے کوئی غلطی نہیں کی کیونکہ او خدا کے بندو ہم انسان ہیں، کیوں ہمیں فرشتے بنانے پر تلے ہو۔ آخر کب تک بغیر حوصلہ افزائی کے کام کرتے رہیں گے؟ آخر کب تک نیکی کر کے دریا میں ڈالتے رہیں گے؟ اللہ والو! ہم عام انسان ہیں، کوئی پیغمبر نہیں۔ ایک طرف یار لوگ ہیں تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ہم پر ہنستے ہیں کہ دیکھو کیسے سرپھرے پاگل ہیں جو اردو کے لئے اتنی محنت کر رہے ہیں بھلا اس کی بجائے کوئی دوسرا کام کرتے تو اب تک نوٹ چھاپ رہے ہوتے۔
واہ سبحان اللہ۔ یار لوگ فرشتہ بنانا چاہتے ہیں تو دوسروں نے پاگل قرار دے دیا۔ ہم جائیں تو کدھر جائیں؟ ان حالات میں پیسے کے علاوہ کریڈٹ مانگ رہے ہیں تو اس پر بھی طعنے۔۔۔ یہ جو ہمیں پاگل قرار دیتے ہیں، انہیں تو میں خود پاگل سمجھتا ہوں۔ باقی کئی دفعہ یار لوگوں کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ ان کا دل کر رہا ہے کہ یہ کام بھی کریں اور ساتھ ساتھ دیوار سے بھی لگے رہیں۔
او خدا کے بندو! جب سب کچھ آپ کے لئے بنایا ہے اور مفت میں رکھ دیا ہے، تو پھر جی بھر کر اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ مگر جس نے محنت کی ہے کم از کم اس کے کام کے ساتھ اس کے نام کو تو برداشت کر لو۔ ادھر رضاکار تھیم بناتے یا اردو ترجمہ کرتے ہیں، اُدھر اس کا نام تھیم سے ختم کر دیا جاتا ہے۔ واہ رہے معاشرے، تیری انوکھی اخلاقیات۔
یہ سب اس لئے لکھا تاکہ یار لوگوں کو احساس ہو کہ رضاکار بھی انسان ہیں، ان میں بھی خواہشات موجود ہیں۔ تعریف اور واہ واہ سے پیٹ نہیں بھرتا، اس کے باوجود بھی یہ پیٹ بھرنے کے متعلق کچھ نہیں مانگ رہے۔ اگر مانگ رہے ہیں تو بس اپنے کام کے ساتھ اپنا نام اور یہ کوئی جرم نہیں۔
جیسا کہ پہلے لکھا، شہرت نہیں چاہے اور یہ نام اور شہرت والی بات تو فرض کی تھی کہ اگر کوئی کام کرتا ہے اور شہرت چاہتا ہے تو بھی یہ کوئی جرم نہیں۔ باقی کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ پتہ نہیں اس ”اردو“ میں ایسی کونسی طاقت ہے کہ ان رضاکاروں میں سے کبھی کسی کو سوائے دعاؤں کے کسی اور چیز کے پیچھے بھاگتے نہیں دیکھا۔ نہ یہ پیسے کا تقاضا کرتے ہیں اور نہ ہی شہرت کا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پچھلے تقریباً آٹھ سالوں سے یہ لوگ محنت کر رہے ہیں۔ حکومت، میڈیا یا کسی بھی ادارے کی طرف سے کبھی کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی مگر پھر بھی کام کر رہے ہیں۔ کبھی کوئی شکوہ زبان پر نہیں لائے۔ یہ تو بس اس م بلال م کا دماغ پھر گیا ہے جس وجہ سے یہ سب لکھ گیا ہے اور پتہ نہیں اس پر بھی اساتذہ سے نہ جانے کتنی ڈانٹ سنے گا۔
یار لوگو! اگر شہرت ہی چاہئے ہوتی تو یہ جو آٹھ سالوں سے کام کر رہے ہیں کیا یہ غلط طریقہ اپناتے ہوئے چند پیسے لگا کر اپنی خبر نہیں لگوا سکتے تھے؟ کیا یہ کسی چینل پر نہیں آ سکتے تھے؟ سب ہو سکتا تھا، مگر کسی نے غلط راستہ نہیں اپنایا۔ اگر شہرت ہی چاہئے ہوتی تو ایکسپریس کی واٹ لگانے کی بجائے ان کی خوشامد کی جاتی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں کا مقصد اچھائی ہوتا ہے وہ برائی کا سہارا نہیں لیتے۔ بس اپنی منزل کی طرف اچھے طریقے سے چلتے رہتے ہیں۔
نبیل بھائی کا اردو ویب ایڈیٹر نہ جانے کہاں کہاں استعمال ہو رہا ہے، اردو محفل کی وجہ سے کتنے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں، سعود ابن سعید نے اردو ویب فانٹ سرور بنایا، امجد حسین علوی نے علوی نستعلیق بنایا، جمیل نوری نستعلیق کی ٹیم نے فانٹ بنایا، شاکر القادری نے نت نئے اردو فانٹ بنائے، ابرار حسین نے انپیج ٹو یونیکوڈ کنورٹر اور اردو ٹائیپنگ ٹیوٹر بنایا، شاکر عزیر نے اردو ڈکشنری بنائی، اعجاز عبید نے اردو کمپیوٹنگ یاہو گروپ اور پھر کئی اہم مسائل کے لئے تحقیق کی، اسی طرح اور کئی لوگوں نے کئی ایک کام کیے، اگر نام اور کام لکھنے لگوں تو فہرست بہت لمبی ہو جائے گی۔ بس آپ یہ بتائیے کہ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ان رضاکاروں کو ایسا سب کرنے سے کیا ملا؟ کیا آپ نے کبھی سنا کہ ان میں سے کسی بندے نے پیسے یا شہرت کا تقاضا کیا ہو؟ یوں تو فورم کی ہوسٹنگ کے اخراجات اور اس کارواں کے سفری سامان کے لئے، جب بوجھ حد سے بڑھتا ہے تو کبھی کبھی ڈونیشن کی اپیل کی جاتی ہے، جیسا کہ ایک انقلابی اردو فانٹ ”تاج نستعلیق“ کے لئے کی جا رہی ہے۔ مگر میں ان ڈویلپرز اور تحقیق کاروں کی ذات کی حد تک پیسے یا شہرت کے تقاضے کی بات کر رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب آپ کو دیکھنے میں آسان لگ رہا ہو، باقی سب چھوڑیے کبھی ٹیوٹوریل اور تحقیقی تحریر لکھنے بیٹھیے گا تو پتہ چلے گا کہ دیکھنے میں چھوٹی سی تحریر کتنا وقت اور دماغ کھاتی ہے۔ ان لوگوں نے تو اتنے کام کر دیئے اور سب کے لئے مفت میں رکھ دیئے۔ جو لوگ تکنیکی پچیدگیاں جانتے ہیں وہ میری باتیں سمجھ رہے ہیں مگر جو نہیں جانتے ان کو بتاتا چلوں۔ یہ جو آج یونیکوڈ اردو ویب سائیٹیں نظر آ رہی ہیں اور لوگ چند کلک سے اردو ویب سائیٹ اور بلاگ بنا رہے ہیں، اس کے پیچھے اردو کے رضاکاروں کی بہت محنت شامل ہے۔
میں نے جب پاک اردو انسٹالر بنایا تو تھوڑے ہی عرصے میں لوگوں نے میرے بلاگ/ویب سائیٹ کی پالیسی کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔ پاک اردو انسٹالر کو ادھر ادھر اپلوڈ کر دیا سونے پر سہاگہ کہ میری پاک اردو انسٹالر والی تحریر کاپی کی اور اپنے نام سے شائع کر کے داد وصول کرتے رہے۔ میرے لکھے ہوئے ٹیوٹوریلز کاپی کیے اور اپنے نام سے شائع کر دیئے۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ ایک فورم والوں نے میری ایک تحریر میں جہاں جہاں اردو محفل کا ذکر تھا وہاں اپنے فورم کا نام لکھ کر شائع کر رکھی تھی۔ اردو کمپیوٹنگ اور بلاگنگ پر لکھی ہوئی کتاب تک لوگوں نے اپنے نام سے شائع کر رکھی ہیں۔ ایک جگہ پاک اردو انسٹالر پر ایک بندہ واہ واہ وصول کر رہا تھا، کسی نے پوچھا کہ کیبورڈ لے آؤٹ کا خاکہ چاہئے تو اتفاق سے ابھی اس بندے نے جواب نہیں دیا تھا کہ میں نے وہاں پر خاکہ پوسٹ کر دیا۔ میری پوسٹ ختم کر دی گئی کہ اس خاکہ میں کسی دوسری ویب سائیٹ کا واٹر مارک لگا ہوا ہے جبکہ جس پاک اردو انسٹالر پر وہ بندہ واہ واہ وصول کر رہا تھا وہ اسی واٹر مارک والی ویب سائیٹ کا بنایا ہوا ہے۔ مگر میں چپ چاپ پتلی گلی سے نکل گیا کہ چلو کسی بہانے سہی اردو کی ترویج تو ہو رہی ہے۔ گوگل کی مہربانی سے میں ایسی کئی جگہوں تک پہنچا جہاں لوگ میرے کام کو استعمال کرتے ہوئے داد وصول کر رہے تھے بلکہ ایک جگہ پر تو میں خود اس بندے کو داد دے آیا کہ واہ واہ کیا خوب کام کیا ہے۔
کبھی فرصت ملے تو خود گوگل کی خدمات لیجئے گا تو آپ کو پتہ چلے گا کہ لوگ کہاں کہاں اور کیا کیا کر رہے ہیں۔ اور تو اور لوگ دوسری ویب سائیٹوں پر پاک اردو انسٹالر اپلوڈ کر کے ان کا لنک دے دیتے ہیں مگر میری ویب سائیٹ کا لنک نہیں دیتے۔ یہ عوام حلوہ تو بڑے شوق سے کھاتی ہے مگر حلوائی کے نام سے ان کے پیٹ میں ”مروڑ“ پتہ نہیں کیوں پڑنے لگ جاتے ہیں۔ یہ سب بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اتنا سب کچھ ہونے کے باوجود کیا آپ نے آج سے پہلے میرے منہ سے کوئی شکوہ، شکایت یا شہرت کے بارے میں سنا؟ یار لوگ بتائیں جب بھی یہ اردو یا پاک اردو انسٹالر کی ترویج کے لئے بات کر رہے ہوتے ہیں تو میں نے کبھی کوئی ضد کی ہو؟ جب بھی بولا اس انداز میں بولا کہ یہ ہم سب کا ہے جو کہ واقعی ہم سب کا ہے۔ کبھی میری طرف سے اردو کے متعلق میرے کیے گئے کام پر کوئی سخت لفظ سنا؟ وہ جو میرے کام سے داد وصول کرتے پھر رہے ہیں، وہ بتائیں کیا میں نے ان کے خلاف کبھی کوئی بات کی؟
اب آپ ہی بتاؤ اس سے زیادہ اور کس حد تک ”نیکی کر دریا میں ڈال“ پر چلیں؟؟؟
دوستو! اس کے علاوہ اور بہت کچھ ہے۔ لوگ اپنا بچپنا دکھاتے ہوئے، یہاں تک ای میل کر دیتے ہیں کہ یہ جو تم سب کچھ اپنے نام سے شائع کر رہے ہو یہ کسی اور بلال کا تیار کردہ ہے۔
مجھے ہنسی آتی ہے کہ واہ جی واہ،،، وہ بلال کوئی پاگل ہے جو اپنے کام میں میری ویب سائیٹ کا لنک دے گیا۔
اتنی باتیں کر دی ہیں اور تحریر بہت لمبی ہو چکی ہے۔ اب صرف ایک آخری بات۔ دوستو! میں نے آپ میں سے کسی پر یا اردو پر کسی قسم کا کوئی احسان نہیں کیا۔ میرے خیال میں یہ میرے ملک اور اردو کے لئے بہتر تھا تو میں نے جو معمولی سا کام کیا وہ اپنی خوشی سے کیا اور اپنی طاقت کے مطابق کرتا رہوں گا۔ اس لئے خدارا میری باتوں سے یہ نہ سوچیئے گا کہ میں احسان جتا رہا ہوں۔ یہ ساری باتیں میڈیا اور ایسے لوگوں کے لئے لکھی ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ اردو کے رضاکار ”سستی شہرت“ چاہتے ہیں۔ میں اپنی ذات کے لئے کسی سے، کسی قسم کا کوئی تقاضا نہیں کر رہا کیونکہ مجھے جو چاہئے وہ میرا اللہ مجھے دے رہا ہے اور اس کے بعد آپ لوگوں نے ضرورت سے زیادہ حوصلہ افزائی اور عزت دے دی ہے، جو اتنی زیادہ ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہی، اس لئے مزید کچھ نہیں چاہئے سوائے تنقید برائے تعمیر اور اگر ہو سکے تو دعائیں۔
باقی اردو کے متعلق جو کام ہے وہ آپ کے لئے ہی تو ہے۔ جی بھر کر اس سے فائدہ اٹھائیں۔ پاک اردو انسٹالر کے بینر اپنی ویب سائیٹ/بلاگ پر لگائیں۔ ادھر ادھر خوب بانٹیں۔ ہر مال مفت ہے۔
وہ جو ڈاؤن لوڈ لنک اپنی ویب سائیٹ کا دینے کا کہتا ہوں اس کی سیدھی سی وجہ یہ ہے کہ میں نیا ورژن شائع کر چکا ہوتا ہوں مگر لوگ ادھر ادھر سے پرانا ورژن ہی ڈاؤن لوڈ کر رہے ہوتے ہیں، بلکہ کئی جگہوں پر تو وہ شروع کا ورژن جس میں ایکس پی اور سیون کے لئے علیحدہ علیحدہ انسٹالر تھا وہ ڈاؤن لوڈ کروایا جا رہا ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آپ کے مطابق تو یہ ہر ونڈوز پر کام کرتا ہے مگر یہ میرے پاس تو نہیں کر رہا۔ یار لوگ تو ادھر ادھر اپلوڈ کر کے پتلی گلی سے نکل گئے ہوتے ہیں مگر پھر مجھے صارفین کو تفصیل سمجھانی پڑتی ہے اور ابھی تک سب سے زیادہ اسی بارے میں ای میلز ہوتی ہیں اور ان کے جوابات دیتے دیتے پانچ چھ گھنٹے نکل جاتے ہیں۔
ایک دفعہ پھر کہتا ہوں کہ مزید کچھ نہیں چاہئے بس تنقید برائے تعمیر اور اگر ہو سکے تو دعائیں۔
دعا ہے کہ اردو کا یہ کارواں اپنی منزل کی طرف دھوم دھام سے چلتا رہے۔۔۔ آمین
اس تحریر پر ہونے والے تبصرے اور رائے پڑھنے کے لئے یہاں دیکھیں۔
میڈیا اور اردو کے رضاکار – چند تلخ حقائق
ہاں تو یہ باتیں ہیں میرے، میڈیا، اردو کے رضاکاروں اور اردو کے متعلق۔ آپ کے پاس وقت ہے تو پڑھیے اور سوچیئے کہ اردو کے ان رضاکاروں کیا ملا؟ جب سے پاک اردو انسٹالر بنایا ہے تب سے کسی اپنے جیسے پر کھل کر بات بھی نہیں کر پاتا۔ کئی تحاریر لکھ رکھی ہیں مگر شائع نہیں کیں کیونکہ لگتا ہے کہ لوگ کہیں گے کہ یہ شہرت کا بھوکا ہے یا ”انگور کٹھے ہیں“ کا طعنہ بھی مل سکتا ہے۔ مگر یارو! اب بات برداشت سے باہر ہو رہی ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی بات دل پر لے کر اردو اور بلاگنگ سے کنارہ کشی کر جاؤں، مجھے کچھ پرانی اور کچھ نئی باتیں کہہ لینے دیں، تاکہ میں جذبات میں کوئی الٹا سیدھا فیصلہ نہ کروں۔ ہو سکتا ہے کہ میں اس تحریر میں اپنے جیسوں کے لئے کئی الٹے سیدھے الفاظ استعمال کروں مگر مجھے پوری امید ہے کہ میرے جیسے ”پاگل“ ان الفاظ کو دل پر نہیں لیں گے۔
میں کمپیوٹر پر اردو تو بہت پہلے سے لکھ رہا ہوں مگر اردو کی ترویج کے لئے تھوڑا بہت انفرادی طور پرآج سے تقریبا چھ سال پہلے یعنی 2006ء میں کام شروع کیا اور پھر ”سر پھروں“ کے کارواں میں 2007ء میں شامل ہوا۔ ابھی میں نے نئی نئی اردو محفل میں شمولیت اختیار کی تھی کہ عمار ابن ضیاء نے ”اردو محفل کی تشہیر“ کے نام سے موضوع شروع کر دیا۔ دراصل ان دنوں اردو کو رضاکاروں کی ضرورت تھی جو کہ آج بھی ہے۔ خیر اردو محفل پر اس بارے میں کئی مشورے سامنے آئے، جن میں ایک صحافیوں اور کالم نگاروں سے رابطہ تھا تاکہ وہ اردو محفل کے متعلق لکھیں، لوگوں تک اردو کی آواز پہنچے اور مزید لوگ اس کارواں میں شامل ہوں۔ یوں تو میں اس کارواں میں لکھاری بننے کے لئے شامل ہوا تھا لیکن جب دیکھا کہ ابھی تو قلم (اردو کمپیوٹنگ) ہی ٹھیک طرح تیار نہیں، تو پھر لکھنے کے شوق کو ایک طرف رکھ کر اردو کمپیوٹنگ کے لئے اپنی طرف سے کوشش کرنے لگا۔
جب اردو محفل سے صحافیوں اور کالم نگاروں سے رابطہ کرنے والا آئیڈیا ملا تو میں نے میڈیا کے بڑے بڑے لوگوں سے رابطے کی کوشش شروع کر دی۔ تب اردو کمپیوٹنگ میں میرا کوئی حصہ شامل نہیں تھا تو میں کھلے دل سے میڈیا والوں سے رابطہ کرتا کیونکہ تب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ اپنی شہرت کے لئے ایسا کر رہا ہے۔ کالم نگاروں اور خاص طور پر اخبارات کو بھیجی گئی ای میلز اور فیکس میں میرا مقصد ان کی توجہ اردو محفل اور اردو کی ترویج کی طرف دلانا ہوتی۔ میرے علاوہ کئی اور لوگوں نے بھی رابطے کیے مگر کچھ خاص نہ ہو سکا۔ آسان الفاظ میں کہ میڈیا والوں نے ہمیں منہ ہی نہ لگایا۔ جب ایسا ہوتا دیکھا تو سوچا کہ ابھی ہم جتنے ہیں انہیں ہی کچھ کرنا ہو گا۔ میں نے اردو کمپیوٹنگ کے لئے ٹیوٹوریل لکھنے شروع کر دیئے۔ ساتھ ساتھ وقتاً فوقتاً اخبارات سے رابطہ کی کوشش بھی کرتا رہا۔ خاص طور پر جب 2008ء میں امجد حسین علوی نے علوی نستعلیق بنایا تو میں نے کئی اخبارات کو اس بارے میں اس انداز سے آگاہ کیا کہ یہ ایک اہم سنگِ میل تھا بلکہ یہ اردو کمپیوٹنگ میں ایک انقلاب کی حیثیت رکھتا ہے۔ میری یہ رابطے کی کوشش صرف ای میل تک محدود نہیں تھیں بلکہ فیکس بھی کرتا تھا۔ میں ان اخبارات کو یونیکوڈ اردو کے فوائد لکھتا، ان کو بتاتا کہ اپنی ویب سائیٹ یونیکوڈ اردو میں بھی بناؤ، اس سے اخبار کو بہت فائدہ ہو گا۔ آپ میرے پاگل پن کی انتہا دیکھو کہ ان دنوں فرصت تھی تو میں انہیں مفت یونیکوڈ اردو ویب سائیٹ بنا کر دینے کی آفر تک کرتا۔ مگر کچھ نہ ہو سکا۔ کسی نے ہماری ایک نہ سنی، ای میل یا فیکس کا جواب تک دینا گوارہ نہ کیا، اجی وہی کہ ہمیں منہ تک نہ لگایا۔ آخر کب تک، یوں میں نے آخری کافی لمبی چوڑی فیکس روزنامہ ایکسپریس کے فیکس نمبر 0425878708 پر 24 مارچ 2009ء کو بھیجی۔ وہ کہتے ہیں نا کہ اس مادیت پرست دور میں ضرورت سے زیادہ خلوص بھی آپ کی اور آپ کی بات کی قدر کم کر دیتا ہے، شاید میرے ساتھ بھی وہی ہوا۔
انہیں دنوں میں اپنے صحافت کے شوق کی وجہ سے ایک لوکل اخبار میں شوقیہ کام کرتا تھا۔ اس اخبار میں صاحبِ اختیار تھا تو میں نے اردو کے متعلق جی بھر کر خبریں لگائیں۔ خیر اخبار میں کام کرنے کی وجہ سے دن بدن ان صحافیوں اور میڈیا کی اصلیت میرے سامنے آنے لگی تو مجھے پتہ چلا کہ یہاں تو سب مایا ہے۔ جس طرح میں سوچ رہا ہوں ایسا کچھ نہیں۔ قومی اخبارات میں خبر وہی لگے گی، فیچر وہی شائع ہو گا، چینل پر پٹی وہی چلے گی جس سے ادارے کا یا ان کے نمائندوں کا مفاد وابستہ ہو۔ ادارے کے کسی بڑے کو لالچ/رشوت دو یا ایک نمائندے کو سیگرٹ کی ڈبی سے خریدو یا تعلقات قائم کرو، تبھی کچھ ہو سکتا ہے۔ اگر تم سوچو کہ مفت میں یعنی قابلیت کی قدر کرتے ہوئے یا ملک و قوم کی بہتری کے لئے کچھ ہو تو ایسا کچھ نہیں اور اگر ایسا سوچو تو یہ سوائے گمراہی کے اور کچھ نہیں۔ غلط طریقہ میں اپنانا نہیں چاہتا تھا تو چپ کر گیا۔ ہو سکتا ہے ان میں اچھے لوگ بھی موجود ہوں مگر کم از کم میں ایسے کسی کو نہیں جانتا یا میرا اس سے رابطہ کرنا ممکن نہیں ہو سکا۔
خیر وقت گذررہا تھا۔ کچھ سر پھرے لوگوں نے منظم ہو کر اپنی مدد آپ کے تحت رضاکارانہ طور پر کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو کی ترویج کا بیڑا اٹھایا ہوا تھا۔ نہ کوئی حکومتی سرپرستی، نہ کوئی فنڈ اور نہ کسی کی طرف سے حوصلہ افزائی۔ مگر وہ سرپھرے اپنا جیب خرچ تک اردو کی خدمت میں لگا کر، اپنی بھری جوانی میں مغز ماری کرتے۔ مگر مجال ہے کسی اخبار یا چینل کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔ اردو محفل ترقی کرتی رہی۔ پاک نیٹ اور القلم جیسے فورم وجود میں آئے۔ رضاکار دن رات محنت کرتے رہے۔ اردو کمپیوٹنگ اور بلاگنگ کے متعلق ایک کے بعد ایک تحقیق شائع ہوتی۔ آئے دن نئے سے نئے اردو فانٹ بنتے۔ کئی قسم کے نستعلیق فانٹ بن گئے، جن میں علوی نستعلیق اور جمیل نوری نستعلیق خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ قرآن پاک کے اردو ترجمہ والے چند سافٹ ویئر بنے اور نہایت محنت کے ساتھ قرآن پاک کے لئے برصغیری نسخ فانٹ بنانے کے ساتھ ساتھ قرآن کے متن کی سافٹ کاپی بھی تیار ہوئی۔ نبیل بھائی کا اردو ویب ایڈیٹر جہاں بے شمار اردو ویب سائیٹوں پر استعمال ہوا وہیں پر الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائیٹ تک نے استعمال کیا۔ انپیج سے یونیکوڈ کنورٹر بنے۔ اردو ٹائیپنگ ٹیوٹر بنا۔ مجھے وہ وقت بھی یاد ہے جب ایک طرف سافٹ ویئر انجینیئر اردو سافٹ ویئر پر تحقیق کرتا تو دوسری طرف ٹائیپسٹ بن کر کاپی رائیٹ سے آزاد اردو کتابیں بھی ٹائیپ کرتا تاکہ انٹرنیٹ پر اردو مواد زیادہ سے زیادہ ہو۔ اردو والوں کی محنتیں رنگ لانے لگیں۔ آہستہ آہستہ اہم سے اہم سنگِ میل عبور کرتے ہوئے اس کارواں نے جس کے سب سے آخر پر میں ہوں یعنی میرا نام پانی پلانے والوں میں آتا، خیر اس کارواں نے 2011ء میں اردو کو اس مقام پر لا کھڑا کیا، جہاں پر عام صارف کے لئے تمام دروازے کھول دیئے۔ جس سے کمپیوٹر اور انٹرنیٹ پر اردو بہتر انداز میں پڑھنے، ہر جگہ لکھنے اور اردو بلاگنگ جیسے کام اتنے آسان کر دیئے کہ آج ہر کوئی آسانی سے اردو لکھ سکتا ہے۔ اس کارواں نے اردو کے لئے بے شمار فانٹ اور سافٹ ویئر بنائے، اردو کمپیوٹنگ پر کتابیں لکھیں اور اردو کو جدید ٹیکنالوجی سے ہم آہنگ کیا۔ اوپر سے سب کچھ مفت میں رکھا تاکہ ہر کوئی اس سے استفادہ کر سکے۔ آج اکثر چینل جو خبروں کی ”اپڈیٹس“ چلا رہے ہیں ان میں اور ان کی ویب سائیٹوں پر جو اردو فانٹ استعمال ہو رہے ہیں یہ انہیں رضاکاروں کی محنتوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے دن رات ایک کر کے پاگلوں کی طرح اردو کے لئے کام کیا اور آج بھی کر رہے ہیں۔
ایک طرف میڈیا گونگا بہرہ بنا رہا تو دوسری طرف میں نے اپنے اردو محفل کے اساتذہ کی تحقیق، تجربات اور کام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا تھوڑا سا حصہ بھی اردو کی خدمت میں شامل کر دیا۔ یاد رہے میرے ان اساتذہ کی فہرست کافی لمبی ہے کیونکہ میں نے جو بھی اردو کے متعلق کام کیا ہے اس میں سب سے زیادہ ہاتھ اردو محفل کا ہی ہے اور اردو محفل پر جس سے جو کچھ بھی سیکھا ہے اسے میں استاد مانتا ہوں۔ مجھے ان لوگوں کے نظریات سے اختلاف ہو سکتا ہے، کئی ایک سے کئی معاملات میں ہے بھی اور سخت قسم کا ہے، مگر اردو کے حوالے سے حقیقت یہی ہے کہ اردو محفل میری استاد ہے۔
اپنے اساتذہ کی مہربانی سے جہاں میں نے اردو تھیم بنائے، اردو اور کمپیوٹر کتابچہ لکھا اور اردو کمپیوٹنگ کے متعلق دیگر کئی ٹیوٹوریل اور تحقیقی مضامین لکھے وہیں پر 2011ء کے شروع میں اردو اور بلاگ کتاب لکھ دی۔ یوں میری طرف سے اردو کے اس کام میں تھوڑا سا حصہ شامل ہو گیا۔ آپ لوگوں نےاتنی حوصلہ افزائی کی کہ اب تو میں اخبارات والوں سے ہرگز رابطہ نہیں کر سکتا تھا کیونکہ اگر رابطہ کرتا تو ”مجھے“ ایسا لگتا جیسا میں ان سے حوصلہ افزائی یا شہرت چاہتا ہوں جبکہ جس (اللہ) سے جو چاہتا ہوں وہ مجھے ان سب سے بڑھ کر دے رہا ہے۔ جون 2011ء میں پاک اردو انسٹالر بن گیا۔ آپ لوگوں نے اتنی حوصلہ افزائی کی اور تعریفوں کے ایسے انبار لگائے کہ میں ان میں دبتا ہی چلا گیا۔ کسی دوسرے پر تنقید برائے تعمیر حتی کہ خرابی بیان کرنے کے متعلق تو جیسے میرے ہاتھ ہی کٹ گئے۔ ایک ایک لفظ کئی کئی دفعہ سوچ کر لکھنا پڑتا کہ کہیں کوئی تھوڑی سی بھی بات ہو گئی تو لوگ کہیں گے کہ اس نے اردو کے متعلق کام کیا ہے تو احسان جتا رہا ہے یا خود کو بڑا تیس مار خاں سمجھتا ہے۔اردو سے متعلقہ میڈیا اور اخبارات کے بارے میں کسی بات پر تو جیسے سانپ سونگھ گیا کیونکہ لگتا کہ اگر ذرا سی بھی بات کی تو یار لوگ سوچیں گے کہ یہ اپنی شہرت چاہتا ہے یا دوسرے کا حسد کر رہا ہے۔
میڈیا پر آئے روز ایجادیوں کی برات دکھاتے تو میں اس پر تحریر لکھتا، کمپیوٹر میں محفوظ کرتا، میڈیا کی جہالت پر ہنستا اور چپ چاپ اپنے کام سے کام رکھتا۔ زاہد حسین اور پھر واٹر کٹ پر میرا صبر جواب دے گیا اور پھر پچھلی لکھی ہوئی تحاریر کو ملا کر ایک تحریر ”میڈیا لایا ایجادیوں کی برات“ شائع کر ہی دی۔ پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ کئی القابات ملے، گالیاں سنیں اور لوگوں نے ذاتی پیغامات میں یہاں تک کہا کہ ”انگور کٹھے ہیں“۔ اس سب کے باوجود دل میں کوئی بات نہیں آئی کیونکہ ایسے کاموں میں ایسا تو ہوتا ہی ہے۔ ویسے بھی آپ لوگوں نے حوصلہ افزائی کی تو سب باتیں بھول گیا۔
روزنامہ جنگ سے لے کر ایک عام اخبار تک، زیادہ تر اپنی ویب سائیٹوں پر اسی اردو محفل اور دیگر رضاکاروں کی محنت کا پھل کھا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں روزنامہ ایکسپریس نے آخر کار اپنی یونیکوڈ ویب سائیٹ بنا ہی دی مگر انہوں نے بھی وہی اردو والوں کی محنتوں کا پھل کھانا شروع کر دیا۔ باقی میڈیا دیگر رضاکاروں کی محنتوں کا پھل کھا رہا تھا اس لئے میں اس کے خلاف نہیں بول سکتا تھا کیونکہ ہو سکتا ہے جس کا وہ کام ہے اس نے کوئی معاہدہ کر رکھا ہو مگر ایکسپریس والوں نے میرے بلاگ/ویب سائیٹ کی پالیسی کے خلاف میرے بنائے ہوئے اردو فانٹ انسٹالر کا نام بدل کر اسے اپنی ویب سائیٹ پر اپنے نام سے اپلوڈ کر دیا۔ یہ حرکت مجھے اچھی نہ لگی اور کیوں نہ لگی یہ بعد میں بتاتا ہوں۔ خیر میں نے اور آپ جیسے مہربانوں نے فیس بک پر خوب جم کر احتجاج کیا اور ایکسپریس والوں نے انسٹالر اپنی ویب سائیٹ سے ہٹا دیا۔ ہمیں معلوم تھا کہ اگر ہمارے احتجاج نے اثر کیا تو وہ انسٹالر ہٹا دیں گے۔ خیر انسٹالر ہٹانے سے کیا ہوا؟
کیا یونیکوڈ اردو کی تشہیر رک گئی؟ کیا ہم نے اردو انسٹالر کی تشہیر کا موقع گنوا دیا؟ اس احتجاج کا کیا کوئی فائدہ ہوا؟
پہلی بات کہ کیا اردو کی تشہیر رک گئی، تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔ اردو اپنا لوہا منوا رہی ہے اور ان اداروں کی مجبوری ہے۔ انہیں یونیکوڈ اردو استعمال کرنی ہی ہو گی اور یہ اس کا کوئی نہ کوئی ”جگاڑ“ ضرور لگائیں گے۔ لہذا ایسی کوئی بات نہیں کہ یونیکوڈ اردو کی تشہیر رک گئی۔
کیا ہم نے اردو انسٹالر کی تشہیر کا موقع گنوا دیا؟ سب سے پہلے تو یہ ذہن میں رکھیں کہ ایکسپریس والے صرف فانٹ انسٹالر اپنے نام سے ڈاؤن لوڈ کروا رہے تھے، جس سے صرف اردو بہتر انداز میں پڑھی جا سکتی ہے۔ اردو کے قارئین تو پہلے ہی بہت ہیں مسئلہ صرف اتنا ہے کہ لوگ اردو لکھ نہیں پاتے اور سرچ انجن میں اردو میں تلاش نہیں کرتے اور اصل اردو ویب سائیٹ تک نہیں پہنچ پاتے۔ ہمیں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اردو لکھنے کی طرف متوجہ کرنا ہے۔ اس کے لئے اگر ایکسپریس والے پورے کا پورا پاک اردو انسٹالر اور بے شک اپنے نام سے ہی شائع کرتے تو پھر بھی شاید ہم چپ ہی رہتے کہ چلو کسی بہانے سہی مگر اردو کی ترویج تو ہو رہی ہے۔
اس احتجاج کا کیا کوئی فائدہ ہوا؟ جی اس کا سب سے پہلا فائدہ یہ ہوا ہے کہ ایکسپریس اور دیگر میڈیا والوں کو یہ احساس ہوا ہے کہ جن رضاکاروں کو ہم فراموش کرتے رہے یعنی جن کے کام کو اہمیت ہی نہیں دی آج ہمیں انہیں کے کام کی ضرورت پڑ رہی ہے۔ آج ہم انہیں کے فانٹس کے محتاج ہیں۔ فائدہ یہ ہوا کہ دنیا کو احساس ہوا کہ یہ سرپھرے اردو کے رضاکار جو سالوں پہلے سے چیختے چلاتے آ رہے ہیں یہ واقعی درست ہیں، اصل اردو یونیکوڈ ہی ہے جبھی تو آج بڑے بڑے ادارے یونیکوڈ اردو کی طرف آ رہے ہیں۔ دنیا کو پتہ چلا کہ ان پاگل رضاکاروں نے جو کیا وہ واقعی اہمیت رکھتا ہے جبھی تو آج بڑے بڑے ادارے ان کی محنتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ دنیا کو بھی تو پتہ چلے کہ یہ رضاکار کوئی اہمیت رکھتے ہیں۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ یہ احساس تو ان سے پیار محبت سے بات کر کے بھی تو دلایا جا سکتا تھا۔ تو غور کیجئے بڑا عرصہ ان کے ترلے منتیں کرتے رہے کہ اردو محفل اور القلم ہیں، اردو کے رضاکار ہیں، خدا کے لئے ان کی تھوڑی سی حوصلہ افزائی کے لئے دو بول ہی بول دو، کچھ ان کی حوصلہ افزائی ہو جائے گی تو کچھ لوگوں کو پتہ چلے گا اور مزید رضاکار اس کارواں میں شامل ہو جائیں گے اور یوں اردو کی ترویج آسان ہو جائے گی۔ مگر کسی اخبار کو توفیق ہی نہیں ہوئی۔ اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ ہو سکتا ہے م بلال م جھوٹ بول رہا ہو۔ انہوں نے رابطے نہ کیے ہوں اور میڈیا کورضاکاروں کے کاموں کا پتہ ہی نہ ہو۔ پہلی بات تو یہ کہ اوپر ایک فیکس کا مکمل حوالہ لکھا ہے آپ ایکسپریس والوں سے تصدیق کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ فرض کریں میں جھوٹ ہی بول رہا ہوں تو غور کریں جناب! یہ میڈیا والے اردو ویب فانٹ سرور، القلم، اردو محفل اور اردو کے رضاکاروں کی ویب سائیٹوں سے فانٹ اور انسٹالر ڈاؤن لوڈ کر کے استعمال کر سکتے ہیں تو کیا انہیں یہ سب کچھ کرنے والے سر پھرے لوگ نظر نہیں آتے؟ نبیل کا اردو ویب ایڈیٹر تو استعمال کر سکتے ہیں مگر نبیل کیا کوئی جن ہے جو انہیں نظر نہیں آتا؟ بڑے بڑے کالم نگار اردو بلاگوں کی تحاریر کی نقل مار سکتے ہیں مگر انہیں صاحب بلاگ کیوں نظر نہیں آتا۔ واٹر کٹ فراڈ پر ڈاکٹر عطاء الرحمان کے بعد سب سے پہلے آواز بلند کرنے والوں میں اردو بلاگستان تھا، اس میڈیا کو پوری دنیا نظر آ گئی مگر اردو بلاگستان کیوں نظر نہیں آیا؟ یہ چوروں کے بچے، کرک نامہ کی تحاریر تو چوری کر سکتے ہیں مگر انہیں فہد نظر کیوں نہیں آتا؟ حضور! مجھے بتائیے کہ سارا میڈیا دھڑا دھڑ ان رضاکاروں کی محنت کا پھل کھا رہا ہے مگر اسے اردو کے رضاکار کیوں نظر نہیں آتے؟؟؟
مجھے ایکسپریس والوں کی حرکت اسی لئے بری لگی کہ جب رضاکار تم سے رابطہ کرتے تھے تو تب تم فراڈیوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔ پچھلے آٹھ سال سے یہ اردو کے مجنوں (رضاکار) خون دیتے رہے ہیں اور تم چُوری (محنت) کو اپنے نام سے شائع کرو۔ مسئلہ تو یہ ہے کہ ایک طرف میڈیا فراموش کر رہا ہے اور دوسری طرف الٹا رضاکاروں کی محنت پر ڈاکہ ڈال رہا ہے۔ آپ خود سوچو کیا یہ حالات قابل برداشت ہیں؟ مسئلہ م بلال م کا نام نہ آنے کا نہیں مسئلہ ان رضاکاروں کی محنتوں کو فراموش کرنے کا ہے جنہوں نے اردو فانٹ بنائے ہیں۔
ایسی باتیں کریں تو یار لوگ کہتے ہیں کہ تم لوگ شہرت چاہتے ہو۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شہرت نہیں چاہتے۔ اس کی وضاحت بعد میں کرتا ہوں۔ فی الحال یہ فرض کریں کہ شہرت چاہتے ہیں۔ تو بھائیو! اس میں کونسا جرم ہے۔ اپنا حق مانگ رہے ہیں، کوئی خیرات نہیں مانگ رہے۔ ہم تو بہت معمولی ہیں ہم شہرت کی چاہت کر لیں تو کوئی طوفان نہیں آنے والا۔ مگر یہ اتنی اتنی عظیم کتابیں لکھنے والے، یہ کالم نگار، یہ ایجادات کرنے والے، یہ بڑے بڑے عظیم قول کہنے والے، یہ سب کے سب بڑے بڑے اور عاجز لوگ کیا شہرت نہیں چاہتے تھے؟ اگر نہیں چاہتے تھے تو پھر اپنے کام کے ساتھ اپنا نام کیوں لکھ چھوڑا؟ کتابوں کے سرورق پر اپنی تصویر کیوں چھاپی؟ فلیمنگ نے پنسلین کے ساتھ اپنا نام کیوں جوڑا، اپنی دریافت کے ساتھ کسی ”پیٹر“ کا نام لکھ دیتا۔ یہ قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ کیوں لکھا، کوئی ”دتہ نامہ“ لکھ کر خود گم نام ہو جاتا۔ میں اردو کے رضاکاروں کو اور ان کے کام کو بڑے لوگوں کے اور ان کے کام کے ہرگز ہرگز برابر نہیں لا رہا بس یہ بتا رہا ہوں کہ بڑے بڑے عظیم لوگ بھی اپنے کام کے ساتھ اپنا نام ہی لکھتے لکھواتے آئے ہیں، تو اگر یہ اردو کے رضاکار اپنے کام کے ساتھ اپنا نام لکھوا لیں گے تو کونسا کوئی جرم کریں گے۔ اگر یہ میڈیا ان رضاکاروں کو کسی طرح کا بھی ”کریڈٹ“ نہیں دیتا تو آپ خود فیصلہ کیجئے، کون کس کا حق کھا رہا ہے اور کون اخلاقی جرم کر رہا ہے؟
نیکی کر دریا میں ڈال۔ میرے خیال میں ایکسپریس والی مہم میں ہم نے کوئی غلطی نہیں کی کیونکہ او خدا کے بندو ہم انسان ہیں، کیوں ہمیں فرشتے بنانے پر تلے ہو۔ آخر کب تک بغیر حوصلہ افزائی کے کام کرتے رہیں گے؟ آخر کب تک نیکی کر کے دریا میں ڈالتے رہیں گے؟ اللہ والو! ہم عام انسان ہیں، کوئی پیغمبر نہیں۔ ایک طرف یار لوگ ہیں تو دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو ہم پر ہنستے ہیں کہ دیکھو کیسے سرپھرے پاگل ہیں جو اردو کے لئے اتنی محنت کر رہے ہیں بھلا اس کی بجائے کوئی دوسرا کام کرتے تو اب تک نوٹ چھاپ رہے ہوتے۔
واہ سبحان اللہ۔ یار لوگ فرشتہ بنانا چاہتے ہیں تو دوسروں نے پاگل قرار دے دیا۔ ہم جائیں تو کدھر جائیں؟ ان حالات میں پیسے کے علاوہ کریڈٹ مانگ رہے ہیں تو اس پر بھی طعنے۔۔۔ یہ جو ہمیں پاگل قرار دیتے ہیں، انہیں تو میں خود پاگل سمجھتا ہوں۔ باقی کئی دفعہ یار لوگوں کی باتیں سن کر لگتا ہے کہ ان کا دل کر رہا ہے کہ یہ کام بھی کریں اور ساتھ ساتھ دیوار سے بھی لگے رہیں۔
او خدا کے بندو! جب سب کچھ آپ کے لئے بنایا ہے اور مفت میں رکھ دیا ہے، تو پھر جی بھر کر اس سے فائدہ اٹھاؤ۔ مگر جس نے محنت کی ہے کم از کم اس کے کام کے ساتھ اس کے نام کو تو برداشت کر لو۔ ادھر رضاکار تھیم بناتے یا اردو ترجمہ کرتے ہیں، اُدھر اس کا نام تھیم سے ختم کر دیا جاتا ہے۔ واہ رہے معاشرے، تیری انوکھی اخلاقیات۔
یہ سب اس لئے لکھا تاکہ یار لوگوں کو احساس ہو کہ رضاکار بھی انسان ہیں، ان میں بھی خواہشات موجود ہیں۔ تعریف اور واہ واہ سے پیٹ نہیں بھرتا، اس کے باوجود بھی یہ پیٹ بھرنے کے متعلق کچھ نہیں مانگ رہے۔ اگر مانگ رہے ہیں تو بس اپنے کام کے ساتھ اپنا نام اور یہ کوئی جرم نہیں۔
جیسا کہ پہلے لکھا، شہرت نہیں چاہے اور یہ نام اور شہرت والی بات تو فرض کی تھی کہ اگر کوئی کام کرتا ہے اور شہرت چاہتا ہے تو بھی یہ کوئی جرم نہیں۔ باقی کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ پتہ نہیں اس ”اردو“ میں ایسی کونسی طاقت ہے کہ ان رضاکاروں میں سے کبھی کسی کو سوائے دعاؤں کے کسی اور چیز کے پیچھے بھاگتے نہیں دیکھا۔ نہ یہ پیسے کا تقاضا کرتے ہیں اور نہ ہی شہرت کا۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پچھلے تقریباً آٹھ سالوں سے یہ لوگ محنت کر رہے ہیں۔ حکومت، میڈیا یا کسی بھی ادارے کی طرف سے کبھی کوئی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی مگر پھر بھی کام کر رہے ہیں۔ کبھی کوئی شکوہ زبان پر نہیں لائے۔ یہ تو بس اس م بلال م کا دماغ پھر گیا ہے جس وجہ سے یہ سب لکھ گیا ہے اور پتہ نہیں اس پر بھی اساتذہ سے نہ جانے کتنی ڈانٹ سنے گا۔
یار لوگو! اگر شہرت ہی چاہئے ہوتی تو یہ جو آٹھ سالوں سے کام کر رہے ہیں کیا یہ غلط طریقہ اپناتے ہوئے چند پیسے لگا کر اپنی خبر نہیں لگوا سکتے تھے؟ کیا یہ کسی چینل پر نہیں آ سکتے تھے؟ سب ہو سکتا تھا، مگر کسی نے غلط راستہ نہیں اپنایا۔ اگر شہرت ہی چاہئے ہوتی تو ایکسپریس کی واٹ لگانے کی بجائے ان کی خوشامد کی جاتی۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ جن لوگوں کا مقصد اچھائی ہوتا ہے وہ برائی کا سہارا نہیں لیتے۔ بس اپنی منزل کی طرف اچھے طریقے سے چلتے رہتے ہیں۔
نبیل بھائی کا اردو ویب ایڈیٹر نہ جانے کہاں کہاں استعمال ہو رہا ہے، اردو محفل کی وجہ سے کتنے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں، سعود ابن سعید نے اردو ویب فانٹ سرور بنایا، امجد حسین علوی نے علوی نستعلیق بنایا، جمیل نوری نستعلیق کی ٹیم نے فانٹ بنایا، شاکر القادری نے نت نئے اردو فانٹ بنائے، ابرار حسین نے انپیج ٹو یونیکوڈ کنورٹر اور اردو ٹائیپنگ ٹیوٹر بنایا، شاکر عزیر نے اردو ڈکشنری بنائی، اعجاز عبید نے اردو کمپیوٹنگ یاہو گروپ اور پھر کئی اہم مسائل کے لئے تحقیق کی، اسی طرح اور کئی لوگوں نے کئی ایک کام کیے، اگر نام اور کام لکھنے لگوں تو فہرست بہت لمبی ہو جائے گی۔ بس آپ یہ بتائیے کہ کیا آپ نے کبھی سوچا کہ ان رضاکاروں کو ایسا سب کرنے سے کیا ملا؟ کیا آپ نے کبھی سنا کہ ان میں سے کسی بندے نے پیسے یا شہرت کا تقاضا کیا ہو؟ یوں تو فورم کی ہوسٹنگ کے اخراجات اور اس کارواں کے سفری سامان کے لئے، جب بوجھ حد سے بڑھتا ہے تو کبھی کبھی ڈونیشن کی اپیل کی جاتی ہے، جیسا کہ ایک انقلابی اردو فانٹ ”تاج نستعلیق“ کے لئے کی جا رہی ہے۔ مگر میں ان ڈویلپرز اور تحقیق کاروں کی ذات کی حد تک پیسے یا شہرت کے تقاضے کی بات کر رہا ہوں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب آپ کو دیکھنے میں آسان لگ رہا ہو، باقی سب چھوڑیے کبھی ٹیوٹوریل اور تحقیقی تحریر لکھنے بیٹھیے گا تو پتہ چلے گا کہ دیکھنے میں چھوٹی سی تحریر کتنا وقت اور دماغ کھاتی ہے۔ ان لوگوں نے تو اتنے کام کر دیئے اور سب کے لئے مفت میں رکھ دیئے۔ جو لوگ تکنیکی پچیدگیاں جانتے ہیں وہ میری باتیں سمجھ رہے ہیں مگر جو نہیں جانتے ان کو بتاتا چلوں۔ یہ جو آج یونیکوڈ اردو ویب سائیٹیں نظر آ رہی ہیں اور لوگ چند کلک سے اردو ویب سائیٹ اور بلاگ بنا رہے ہیں، اس کے پیچھے اردو کے رضاکاروں کی بہت محنت شامل ہے۔
میں نے جب پاک اردو انسٹالر بنایا تو تھوڑے ہی عرصے میں لوگوں نے میرے بلاگ/ویب سائیٹ کی پالیسی کی دھجیاں اڑا کر رکھ دیں۔ پاک اردو انسٹالر کو ادھر ادھر اپلوڈ کر دیا سونے پر سہاگہ کہ میری پاک اردو انسٹالر والی تحریر کاپی کی اور اپنے نام سے شائع کر کے داد وصول کرتے رہے۔ میرے لکھے ہوئے ٹیوٹوریلز کاپی کیے اور اپنے نام سے شائع کر دیئے۔ یہاں تک کہ ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ ایک فورم والوں نے میری ایک تحریر میں جہاں جہاں اردو محفل کا ذکر تھا وہاں اپنے فورم کا نام لکھ کر شائع کر رکھی تھی۔ اردو کمپیوٹنگ اور بلاگنگ پر لکھی ہوئی کتاب تک لوگوں نے اپنے نام سے شائع کر رکھی ہیں۔ ایک جگہ پاک اردو انسٹالر پر ایک بندہ واہ واہ وصول کر رہا تھا، کسی نے پوچھا کہ کیبورڈ لے آؤٹ کا خاکہ چاہئے تو اتفاق سے ابھی اس بندے نے جواب نہیں دیا تھا کہ میں نے وہاں پر خاکہ پوسٹ کر دیا۔ میری پوسٹ ختم کر دی گئی کہ اس خاکہ میں کسی دوسری ویب سائیٹ کا واٹر مارک لگا ہوا ہے جبکہ جس پاک اردو انسٹالر پر وہ بندہ واہ واہ وصول کر رہا تھا وہ اسی واٹر مارک والی ویب سائیٹ کا بنایا ہوا ہے۔ مگر میں چپ چاپ پتلی گلی سے نکل گیا کہ چلو کسی بہانے سہی اردو کی ترویج تو ہو رہی ہے۔ گوگل کی مہربانی سے میں ایسی کئی جگہوں تک پہنچا جہاں لوگ میرے کام کو استعمال کرتے ہوئے داد وصول کر رہے تھے بلکہ ایک جگہ پر تو میں خود اس بندے کو داد دے آیا کہ واہ واہ کیا خوب کام کیا ہے۔
اب آپ ہی بتاؤ اس سے زیادہ اور کس حد تک ”نیکی کر دریا میں ڈال“ پر چلیں؟؟؟
دوستو! اس کے علاوہ اور بہت کچھ ہے۔ لوگ اپنا بچپنا دکھاتے ہوئے، یہاں تک ای میل کر دیتے ہیں کہ یہ جو تم سب کچھ اپنے نام سے شائع کر رہے ہو یہ کسی اور بلال کا تیار کردہ ہے۔
اتنی باتیں کر دی ہیں اور تحریر بہت لمبی ہو چکی ہے۔ اب صرف ایک آخری بات۔ دوستو! میں نے آپ میں سے کسی پر یا اردو پر کسی قسم کا کوئی احسان نہیں کیا۔ میرے خیال میں یہ میرے ملک اور اردو کے لئے بہتر تھا تو میں نے جو معمولی سا کام کیا وہ اپنی خوشی سے کیا اور اپنی طاقت کے مطابق کرتا رہوں گا۔ اس لئے خدارا میری باتوں سے یہ نہ سوچیئے گا کہ میں احسان جتا رہا ہوں۔ یہ ساری باتیں میڈیا اور ایسے لوگوں کے لئے لکھی ہیں جو یہ سوچتے ہیں کہ اردو کے رضاکار ”سستی شہرت“ چاہتے ہیں۔ میں اپنی ذات کے لئے کسی سے، کسی قسم کا کوئی تقاضا نہیں کر رہا کیونکہ مجھے جو چاہئے وہ میرا اللہ مجھے دے رہا ہے اور اس کے بعد آپ لوگوں نے ضرورت سے زیادہ حوصلہ افزائی اور عزت دے دی ہے، جو اتنی زیادہ ہے کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہی، اس لئے مزید کچھ نہیں چاہئے سوائے تنقید برائے تعمیر اور اگر ہو سکے تو دعائیں۔
باقی اردو کے متعلق جو کام ہے وہ آپ کے لئے ہی تو ہے۔ جی بھر کر اس سے فائدہ اٹھائیں۔ پاک اردو انسٹالر کے بینر اپنی ویب سائیٹ/بلاگ پر لگائیں۔ ادھر ادھر خوب بانٹیں۔ ہر مال مفت ہے۔
ایک دفعہ پھر کہتا ہوں کہ مزید کچھ نہیں چاہئے بس تنقید برائے تعمیر اور اگر ہو سکے تو دعائیں۔
دعا ہے کہ اردو کا یہ کارواں اپنی منزل کی طرف دھوم دھام سے چلتا رہے۔۔۔ آمین
اس تحریر پر ہونے والے تبصرے اور رائے پڑھنے کے لئے یہاں دیکھیں۔