اشرف علی بستوی
محفلین
وچکی تھی۔اس دن کے تمام ٹی وی چینلوں کے براہِ راست نشرےے نے، اینکروں، صحافیوں اور مباحثوں میں حصہ لینے والوں کے مزاج کو بھی نشر کیا، دراصل ہمارا میڈیا شہ زوروں کے آگے گھٹنے ٹیک دیتا ہے، ےہاں شہ زوروں کے غم میں ڈرکر بحث کی جاتی ہے، دنیا سے رخصت ہوجانے کے بعد اس کی ’پوجا‘ ہوتی ہے، ےہ میڈیا اپنی پسندیدہ پارٹیوں اور گروپوں کی پریشانیوں کو محسوس کرکے موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اپنا روےہ تبدیل کرلیتا ہے، کل تک جمہوری اقدار میں یقین رکھنے والا صحافی دکھ کی گھڑی میں سخت گیر کو اعتدال پسند بنانے کی جی توڑ کوشش کرنے لگتا ہے اور اس کوشش میں وہ کسی بھی ناپسندیدہ شخصیت کے اندر اچھے اوصاف تلاش لیتا ہے۔ وہ مراٹھی عوام کے دکھ کو دیکھ کر اس قدر غم زدہ ہوجاتا ہے کہ وہ تاریخ بھول جاتا ہے، ایک ایسا شخص جس نے اپنی پوری زندگی اس روئے زمین پر انسانوں کے درمیان مذہب علاقہ اور نسل کی بنیاد پر نفرت پھیلانے میں لگا دی، میڈیا اس کی شخصیت میں نیک صفات تلاش کرنے کی جی توڑ کوشش کرتا نظر آیا۔ چونکہ اس طرح کی نشریات میں بالآخر چینلوں کے تجارتی مقاصد پورے ہوتے ہیں اس لئے اسے اس طرح پیش کیا جاتا ہے تاکہ ناظرین چینل کو بھی اپنے غم میں شریک سمجھیں۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ ٹی وی چینل اس طرح کی نشریات کے وقت یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اس طرح کی نشریات کو صرف وہ لوگ ہی نہیں دیکھتے جو اس واقعے سے غم زدہ ہیں بلکہ بڑی تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہوتی ہے جو اس غم میں اس طرح سے شریک نہیں ہوپاتے جس طرح مرنے والے کے چاہنے والے شریک ہوتے ہیں ایسے لوگ اس طرح کی طویل نشریات کو زیادتی تصور کرتے ہیں۔
بال ٹھاکرے کی شخصیت میڈیا کے حلقوں کے لئے جانی پہچانی تھی اس لئے اپنی نشریات میں کئی اینکروں نے اپنی ملاقات کے دوران خصوصی انٹرویو کی ویڈیو کلپ دکھائی تو کچھ ایسے بھی تھے جو ان کی متنازعہ شخصیت کی دبی زبان میں تذکرہ کرتے نظر آئے۔ لیکن زیادہ وقت ان کی تعریف میں ہی گزرا۔ جب ٹی وی چینل بال ٹھاکرے کی خوبیوں کا ذکر کررہے تھے تو یہ سوال پیدا ہورہا تھا کہ ”اب تک ان اینکروں نے ان کی جو تصویر پیش کی تھی کیا وہ جھوٹی تھی، اور آج جو پیش کررہے ہیں کیا ےہ سچ ہے؟“ کئی اینکر ڈرامائی انداز میں غمگین نظر آئے۔ پولیس انتظامات کی جم کر تعریف ہوتی رہی۔ لیکن اگلے ہی دن دو معصوم لڑکیوں کو صرف اسی وجہ سے گرفتار کرلیا گیا کہ انہوں نے فیس بک پر ممبئی بند کو غیر ضروری قرار دیا تھا۔ ممبئی پولیس نے اسے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا مانا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اسی پولیس نے بال ٹھاکرے کی شرانگیزیوں پر تادیبی کارروائی کے نام پرکبھی کچھ نہیں کیا۔ ملک بھر میں سیکڑوں معاملات مرنے والے کے خلاف آئے دن درج ہوتے رہتے تھے لیکن پولیس کو ان میں کوئی شرانگیزی کبھی نظر نہیں آئی۔
لیکن اس درمیان ایک ایسی آواز بھی اٹھی جس نے ایک ہلچل پیدا کردی تھی ,وہ تھی پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو کی آواز ،جنہوں نے ببانگ دہل اس درمیان علانےہ کہا کہ ”میں بال ٹھاکرے کو خراج عقیدت پیش نہیں کرسکتا“ اپنے اس موقف کے حق میں انہوں نے جو دلائل پیش کئے ہیں مدلل اور قابل توجہ ہیں، انہوں نے کہا کہ میں ہرگز اس شخص کو خراج عقیدت پیش نہیں کرسکتا جس نے ہمیشہ اپنے عمل سے ہندوستان کے آئین کا مذاق اڑایا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ ملک کا سیاسی منظر نامہ اس وقت جس رُخ پر گامزن ہے جسٹس کاٹجو جیسی اکیلی آواز سے ملک کی جمہوری اساس کو کمزور کرنے والوں سے کب تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے؟ جسٹس کاٹجو کی آواز کے ساتھ آواز بلند کرنے والوں کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے۔ یہ چند سوالات ہیں جن پرسنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔
بال ٹھاکرے کی شخصیت میڈیا کے حلقوں کے لئے جانی پہچانی تھی اس لئے اپنی نشریات میں کئی اینکروں نے اپنی ملاقات کے دوران خصوصی انٹرویو کی ویڈیو کلپ دکھائی تو کچھ ایسے بھی تھے جو ان کی متنازعہ شخصیت کی دبی زبان میں تذکرہ کرتے نظر آئے۔ لیکن زیادہ وقت ان کی تعریف میں ہی گزرا۔ جب ٹی وی چینل بال ٹھاکرے کی خوبیوں کا ذکر کررہے تھے تو یہ سوال پیدا ہورہا تھا کہ ”اب تک ان اینکروں نے ان کی جو تصویر پیش کی تھی کیا وہ جھوٹی تھی، اور آج جو پیش کررہے ہیں کیا ےہ سچ ہے؟“ کئی اینکر ڈرامائی انداز میں غمگین نظر آئے۔ پولیس انتظامات کی جم کر تعریف ہوتی رہی۔ لیکن اگلے ہی دن دو معصوم لڑکیوں کو صرف اسی وجہ سے گرفتار کرلیا گیا کہ انہوں نے فیس بک پر ممبئی بند کو غیر ضروری قرار دیا تھا۔ ممبئی پولیس نے اسے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والا مانا۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ اسی پولیس نے بال ٹھاکرے کی شرانگیزیوں پر تادیبی کارروائی کے نام پرکبھی کچھ نہیں کیا۔ ملک بھر میں سیکڑوں معاملات مرنے والے کے خلاف آئے دن درج ہوتے رہتے تھے لیکن پولیس کو ان میں کوئی شرانگیزی کبھی نظر نہیں آئی۔
بہرحال ٹی وی چینلوں کے براہ راست نشر یہ نے اس دن یہ ثابت کردیا کہ یہ چینل طاقت ور کے دوست ہیں کمزور کے نہیں، میڈیا کے اس نشرےے میں میڈیا کا ڈر بھی نشر کیاگیا۔اور ےہی ڈر سترہ نومبر کی شام ملک کے بیشتر سیاسی رہنماوں کے تعزیتی پیغامات میں صاف طور پر نظر آیا۔ چنانچہ وزیر اعظم نے اپنے تعزیتی پیغام میں انہیں مہاراشٹر کے مراٹھی باشندوں میں سوابھیمان جگانے والا قرار دیا۔ بعض نے اپنے پیغام میں کہا کہ ان کے قول وعمل میں کوئی تضاد نہیں تھا، گویا اس طرح ان کے اڑیل روے کو مثبت انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی۔ معاملہ یہیں ختم نہیںہوا بلکہ22نومبر کو پارلیمنٹ کے سرمائی اجلاس کی شروعات ان کو شردھانجلی پیش کرنے سے ہوئی، جس میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے ایوان نے انہیں بھارت کا سپوت قرار دیتے ہوئے ان کی سیاسی خدمات کا اعتراف کیا۔ایوان کے ممبران نے اپنی نشستوں پر کھڑے ہوکر اظہار تعزیت کیا۔ ایوان کی ےہ تعزیت ایک ایسے شخص کے لئے تھی جس نے ہندوستان کے وفاقی نظام کو ہمیشہ چیلنج کیا، عدالتوں کا مذاق اڑایا۔ ہندوستان کے اندر ایک الگ ہندواسٹیٹ بنانے کی بات کی، ملک کی گنگاجمنی تہذیب کے اصولوں کو ہمیشہ اپنے قول وعمل سے تارتار کیا، بھلا بتائیں کہ ایسا شخص بھارت کا ’سپوت ‘ کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ خوف کی سیاست تھی جس نے سبھوں کو اس طرح جھکنے پر مجبور کیا۔لیکن اس درمیان ایک ایسی آواز بھی اٹھی جس نے ایک ہلچل پیدا کردی تھی ,وہ تھی پریس کونسل آف انڈیا کے چیئرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو کی آواز ،جنہوں نے ببانگ دہل اس درمیان علانےہ کہا کہ ”میں بال ٹھاکرے کو خراج عقیدت پیش نہیں کرسکتا“ اپنے اس موقف کے حق میں انہوں نے جو دلائل پیش کئے ہیں مدلل اور قابل توجہ ہیں، انہوں نے کہا کہ میں ہرگز اس شخص کو خراج عقیدت پیش نہیں کرسکتا جس نے ہمیشہ اپنے عمل سے ہندوستان کے آئین کا مذاق اڑایا ہے۔قابل غور بات یہ ہے کہ ملک کا سیاسی منظر نامہ اس وقت جس رُخ پر گامزن ہے جسٹس کاٹجو جیسی اکیلی آواز سے ملک کی جمہوری اساس کو کمزور کرنے والوں سے کب تک محفوظ رکھا جاسکتا ہے؟ جسٹس کاٹجو کی آواز کے ساتھ آواز بلند کرنے والوں کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے۔ یہ چند سوالات ہیں جن پرسنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔