ماہی احمد
لائبریرین
انسان بہت کمزور ہوتا ہے، بہت زیادہ کمزور۔ گہرائیوں، اندھیروں، طوفانوں اور تاریکیوں سے ہار جانے والا، خار دار جھاڑیاں دیکھ کر راستہ بدل لینے والا، رک جانے والا اور کبھی تیز بھاگنے کے لالچ میں منہ کے بل گر جانے والا، انسان! بہت کمزور ہوتا ہے۔
جب ہم کسی سے امید باندھتے ہیں، کسی سے توقعات وابستہ کرتے ہیں تو گویا اپنے اور اس کے بیچ ایک گڑھا کھود دیتے ہیں، اب وہ ہاتھ بڑھائے اور ہمیں یہ گہرا تاریک گڑھا پار کروائے۔پر یہ تو بہت مشکل ہوتا ہے، بشریت کے تقاضوں سے بہت آگے، اتنا گہرا گڑھا، جس کے منہ کہ ارد گرد خار دار جھاڑیاں اگی ہوئی ہوں اسے صرف ایک ہاتھ پکڑ کے پار کروا دینا!۔ اور جب کوئی ایسا نہیں کر پاتا اپنے طرف کے حالات کی بنا پر، اپنی کمزوریوں کی بنا پر تو ہم اس گڑھے میں گر جاتے ہیں، ان تاریکیوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں بدگمانی کی بہت سی خود رو جھاڑیاں ہوتی ہیں، اور ان کی تیز باس ہمارے حواس چھین لیتی ہے، ہم سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہتے، ہم اس بات کا خیال ہی نہیں کرتے کہ وہ انسان ہے، ایسا انسان جو فانی ہے، جسے تمام زوال ہیں، وہ بھلا کیسے ہماری توقعات پر پورا اتر سکتا تھا یا یہ کہ ہو سکتا ہے وہ کسی خاص وجہ کی بنا پر ہماری مدد نہ کر پایا ہو، ہو سکتا ہے وہ خود کسی گڑھے میں ہو اور ہمارا ہاتھ نہ تھام پایا ہو۔
لیکن اگر یہی امید اللہ سے وابستہ کی جائے تو بہت آسانی ہو جاتی ہے، وہ تو رب ہے، مالک ہے تمام گہرائیوں کا، جس کے سامنے کوئی گہرائی، گہرائی ہی نہیں ہوتی، جس کے سامنے کوئی تاریکی، تاریکی ہی نہیں ہوتی،جو نور ہے،ایسا نور جو لافانی ہے، ایسا نور جسے زوال نہیں، جو سب کچھ جانتا ہے، گڑھے کو بھی، گڑھا کھودنے والے کو بھی، وہ تو پالنہار ہوتا ہے، وہ ہاتھ تھام لیتا ہے، پار لگوا دیتا ہے، گرنے نہیں دیتا، بدگمان نہیں ہونے دیتا، چاہے گہرائی کتنی ہی کیوں نہ ہو، چاہے چوڑائی کتنی ہی کیوں نہ ہو۔ اور پھر جس کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں آ جائے وہ کوئی نیا گڑھا کھودنے کے قابل ہی نہیں رہتا، اُسے اِس قابل رہنے ہی نہیں دیا جاتا،مجال ہے نگاہ کہیں اور اُٹھ بھی جائے، کسی اور کو دیکھ بھی لے۔ وہ تو پار لگ جاتا ہے۔۔۔ وہی۔۔۔وہ جو۔۔۔ بہت زیادہ کمزور ہوتا ہے
جب ہم کسی سے امید باندھتے ہیں، کسی سے توقعات وابستہ کرتے ہیں تو گویا اپنے اور اس کے بیچ ایک گڑھا کھود دیتے ہیں، اب وہ ہاتھ بڑھائے اور ہمیں یہ گہرا تاریک گڑھا پار کروائے۔پر یہ تو بہت مشکل ہوتا ہے، بشریت کے تقاضوں سے بہت آگے، اتنا گہرا گڑھا، جس کے منہ کہ ارد گرد خار دار جھاڑیاں اگی ہوئی ہوں اسے صرف ایک ہاتھ پکڑ کے پار کروا دینا!۔ اور جب کوئی ایسا نہیں کر پاتا اپنے طرف کے حالات کی بنا پر، اپنی کمزوریوں کی بنا پر تو ہم اس گڑھے میں گر جاتے ہیں، ان تاریکیوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں بدگمانی کی بہت سی خود رو جھاڑیاں ہوتی ہیں، اور ان کی تیز باس ہمارے حواس چھین لیتی ہے، ہم سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں رہتے، ہم اس بات کا خیال ہی نہیں کرتے کہ وہ انسان ہے، ایسا انسان جو فانی ہے، جسے تمام زوال ہیں، وہ بھلا کیسے ہماری توقعات پر پورا اتر سکتا تھا یا یہ کہ ہو سکتا ہے وہ کسی خاص وجہ کی بنا پر ہماری مدد نہ کر پایا ہو، ہو سکتا ہے وہ خود کسی گڑھے میں ہو اور ہمارا ہاتھ نہ تھام پایا ہو۔
لیکن اگر یہی امید اللہ سے وابستہ کی جائے تو بہت آسانی ہو جاتی ہے، وہ تو رب ہے، مالک ہے تمام گہرائیوں کا، جس کے سامنے کوئی گہرائی، گہرائی ہی نہیں ہوتی، جس کے سامنے کوئی تاریکی، تاریکی ہی نہیں ہوتی،جو نور ہے،ایسا نور جو لافانی ہے، ایسا نور جسے زوال نہیں، جو سب کچھ جانتا ہے، گڑھے کو بھی، گڑھا کھودنے والے کو بھی، وہ تو پالنہار ہوتا ہے، وہ ہاتھ تھام لیتا ہے، پار لگوا دیتا ہے، گرنے نہیں دیتا، بدگمان نہیں ہونے دیتا، چاہے گہرائی کتنی ہی کیوں نہ ہو، چاہے چوڑائی کتنی ہی کیوں نہ ہو۔ اور پھر جس کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں آ جائے وہ کوئی نیا گڑھا کھودنے کے قابل ہی نہیں رہتا، اُسے اِس قابل رہنے ہی نہیں دیا جاتا،مجال ہے نگاہ کہیں اور اُٹھ بھی جائے، کسی اور کو دیکھ بھی لے۔ وہ تو پار لگ جاتا ہے۔۔۔ وہی۔۔۔وہ جو۔۔۔ بہت زیادہ کمزور ہوتا ہے
ماہی احمد