میگا سکینڈلز


کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے‘ نیب نے بھی از خود یا کسی کی تھپکی پر جھرجھری لی اور سپریم کورٹ میں کرپشن کے 150میگا سکینڈلز کی فہرست پیش کر دی۔ یہ دیگ کے چند چاول ہیں۔ مشتے نمونہ از خروارے
یہ فہرست کیا ہے؟ ہمارے حکمرانوں اور ان کے چہیتے وزیروں مشیروں بیورو کریٹس اور سیٹھوں کے اخلاقی دیوالیہ پن اور مالی خیانت کی شرمناک داستان۔ اس فہرست پر اب تک اعتراض یہ ہوا ہے کہ مقدمات پرویز مشرف کے آمرانہ دور میں بنائے گئے۔
پرویز مشرف فوجی آمر تھا‘ ہر لحاظ سے گردن زدنی ‘ اس کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ اس نے آئین کو پامال کر کے اقتدار حاصل کیا قوم کو احتساب ‘ترقی اور خوشحالی کے خواب دکھائے مگر قابل مواخذہ سیاسی ٹھگوں‘ لٹیروں‘ نوسربازوں اور خائنوں کو شریک اقتدار کر لیا۔ جو جیل کے حق دار تھے وہ اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گئے اور احتساب کا نعرہ وفاداریاں تبدیل کرنے کا ہتھیار بن گیا۔ مگر کیا پرویز مشرف نے صرف یہی ایک کام کیا؟
پرویز مشرف نے سینٹ ‘ قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں میں بے محابا اضافہ کیا۔ خواتین کی مخصوص نشستیں بحال کیں اور این آر او کے ذریعے قاتلوں ‘ اغوا کاروں‘ لٹیروں‘ اور بھگوڑوں کی سزائیں معاف کر کے انہیں اہم ریاستی عہدوں کا اہل قرار دیا۔ کسی نے آج تک اعتراض نہیں کیا۔ 1973ء کا آئین اصل حالت میں بحال کرنے کے دعویداروں نے بھی اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے ان تمام آئینی ترامیم اور قوانین کو برقرار رکھا؛ البتہ ارکان اسمبلی کے لیے بی اے کی شرط ختم کر دی اور بلدیاتی نظام کو معطل کر دیا جو آج تک سندھ اور پنجاب میں معطل ہے۔ کڑوا کڑوا تھو‘ میٹھا میٹھا ہپ۔ تعلیم یافتہ ارکان اسمبلی اور بلدیاتی نظام ہمارے جمہوریت پرستوں کو ہرگز گوارا نہیں۔
سپریم کورٹ کے حکم پر نیب نے 150میگا سکینڈلز کی فہرست تو پیش کر دی ہے مگر یہ بتانا گوارا نہیں کیا کہ 2008ء سے اب تک ان سکینڈلز کی تحقیقات میں کیا امر مانع رہا‘ پرویز مشرف تو 2008ء کی تیسری سہ ماہی میں رخصت ہو گئے تھے اور سپریم کورٹ نے ان کے این آر او کو بھی ایک شرمناک قانون کے طور پر دیس نکالا دے دیا تھا۔ اس کے باوجود ان مقدمات کی سماعت کیوں نہ ہوئی اور قومی خزانے کو حلوائی کی دکان سمجھ کر ناناجی کی فاتحہ پڑھنے والوں سے بازپرس کیوں نہ کی گئی؟
جو اقتدار میں تھے نہ اس قدر بااختیار کہ نیب کی کارروائی میں رکاوٹ ڈال سکیں ان سے پوچھ گچھ کیوں نہ ہوئی‘ ان کی فائلوں کو دیمک کیوں چاٹتی رہی؟ محض اس لیے کہ یہ ماضی میں صاحب اختیار و اقتدار تھے اور مستقبل میں پھر ان کی باری آ سکتی ہے۔ گویا ہر وہ شخص جو کسی وقت بھی ایم پی اے‘ ایم این اے‘ ضلع ناظم‘ رکن اسمبلی اور وزیر‘ مشیر بننے کی اہلیت رکھتا ہے احتساب سے بالاتر ہے اور لوٹ مار‘ اختیارات سے تجاوز اور سرکاری وسائل کی بندر بانٹ کا پیدائشی حق دار۔
احتساب کا نعرہ1997ء میں میاں نواز شریف نے شدومد سے لگایا۔ عمران خان نے تحریک انصاف کی تشکیل میں جن لوگوں سے مشاورت کی ان میں سے بعض میاں صاحب کے مخبر تھے اور چند وظیفہ خوار‘ عمران خان احتساب کا نعرہ لگا کر سیاسی میدان میں اترنا چاہتے تھے مگر مخبری ہونے پر میاں صاحب نے یہ نعرہ لگا دیا۔ سرے محل کی خریداری‘ تھرمل پاور پراجیکٹس سے کک بیکس کی وصولی اور ملک کے بااثر صنعتکاروں و تاجروں پر دبائو ڈال کر بھاری رقوم بٹورنے کے الزامات لگا کر میاں صاحب نے پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف مہم چلائی اور فاروق لغاری سے مل کر حکومت اور اسمبلی کو برخاست کرا دیا۔
1997ء کے انتخابات میاں صاحب نے شفاف حکمرانی اور بے لاگ احتساب کے نعرے پر جیتے اور سیف الرحمان کی قیادت میں ایک احتساب بیورو بنایا جسے بعدازاں پرویز مشرف نے نیب میں تبدیل کیا۔سیف الرحمن کا احتسابی عمل یکطرفہ تھا پیپلز پارٹی کے لیے جلاد کا کوڑا اور مسلم لیگیوں کے علاوہ ان کے اتحادیوں کے لیے شیر مادر۔ یوں لگتا تھا کہ سارے لٹیرے اور ٹھگ پیپلز پارٹی میں جمع ہو گئے ہیں اور تمام فرشتے مسلم لیگ میں مسند نشیں ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ سوئس اکائونٹس اور سرے محل محض افسانہ تھے بعدازاں اپنے دور اقتدار میں آصف علی زرداری نے سیف الرحمن کے الزام پر مہر تصدیق ثبت کی۔
پرویز مشرف نے بھی اس قوم اور احتساب کے عمل کے ساتھ یہی ظلم کیا۔ نیب کو مطلوب جس سیاستدان نے پرویزی چوکھٹ پر جبینِ نیاز خم کی وہ دودھ کا دھلا ثابت ہوا اور جس کسی نے چوں چرا کی وہ گردن زدنی ٹھہرا۔150میگا سکینڈلز بھی پرویزی دور میں سرد خانے کی نذر ہوئے کچھ پرویزی قبیلہ میں شمولیت اور کچھ این آر او کی برکت کے سبب احتساب و مواخذے سے بچ گئے مگر کیا اس قوم کی کوئی سننے والا نہیں؟ کیا احتساب کا کوڑا کبھی برسے گا نہیں اور بلا امتیازو بلا تفریق مواخذہ کی ابتدا کبھی ہو گی نہیں؟ ؎
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
آثار یہی ہیں کہ منتخب حکمرانوں کی سہل پسندی‘ غفلت شعاری اور حد درجہ بے نیازی سے اکتا کر قدرت کو اس ملک کے مظلوم‘ بے بس مگر شریک جرم عوام کے حال پر رحم آ گیا ہے اور کسی غیبی اشارے پر سپریم کورٹ‘ نیب‘ ایف آئی اے اور دیگر ریاستی ادارے اچانک متحرک ہو گئے ہیں۔ یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ سیاست اور جرم ہی اس ملک میں ایک دوسرے سے بغل گیر نہیں بلکہ دہشت گردی‘ سنگین جرائم اور کرپشن میں بھی چولی دامن کا ساتھ ہے اور جب تک ہر طرح کی کرپشن کا قلع قمع نہیں ہوتا دہشت گردی‘ اغوا کاری‘ ٹارگٹ کلنگ‘ بھتہ خوری اور قبضہ گیری کا سدباب ممکن نہیں۔
اپنے حق میں سب سے بڑی دلیل پوّتر لٹیرے یہ لاتے ہیں کہ آج تک ان کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوا۔ چہ خوب۔ آج تک ان قومی لٹیروں سے کسی نے ڈھنگ کی تفتیش کب کی؟ فائیو سٹار سہولتوں سے آراستہ گھروں یا جیلوں کے مخصوص سیلوں میں ان سے پوچھ گچھ کون کرتا ہے؟ ایان علی جس دھج سے عدالت میں پیش ہوتی ہے کیا اٹک‘ راجن پور‘ چار سدہ اور خیر پور ناتھن شاہ میں چوری چکاری کے مجرم کو بھی اسی انداز میں عدالتوں کے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور حوالات و جیل میں انہیں بھی یہی سہولتیں حاصل ہوتی ہیں؟
میں دعوے سے کہتا ہوں کہ ان 150میگا سکینڈلز میں ملوث شخصیات کو تھانہ شاہوالی میں تعینات کسی ڈائریکٹ حوالدار کے سپرد کیا جائے اور اسے یہ یقین دہانی کرا دی جائے کہ دوران تفتیش کوئی مداخلت ہو گی نہ تفتیش کے بعد وہ کسی کے عتاب کا نشانہ بنے گا تو اسے سارا کھایا پیا اگلوانے میں چوبیس گھنٹے بھی نہیں لگیں گے۔ تفتیشی کو جب علم ہو کہ ملزم سے رعایت برتنے پر ترقی درجات لازم اور کسی نازیبا حرکت پر سزا واجب حتیٰ کہ کراچی کے 200پولیس اہلکاروں کی طرح موت کا اندیشہ بھی تو بھلا کون پاگل ان سے اعترافی بیان حاصل اور مال مسروقہ برآمد کر سکتا ہے۔ رینجرز نے مجرموں پر ہاتھ ڈالا تو سندھ حکومت آڑے آ گئی اور اب رینجرز کی واپسی کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے چھاپے نہ مارنے کی ہدایت جاری ہوئی ہے ۔مجرموں کے ہاتھ اتنے لمبے ہوں کہ وہ رینجرز کی میعاد میں توسیع نہ ہونے دیں تو پھر کیسی تفتیش اور کون سی سزا؟
پاکستان میں حکمران اشرافیہ نے ایک دوسرے کے تحفظ کی قسم کھا رکھی ہے۔ ضیاء الحق نے حکمرانوں کے کلب کی بات کی تو سب نے بُرا منایا مگر ہے یہ حقیقت۔ یہ عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے ایک دوسرے کو خوب برا بھلا کہتے‘ ایک دوسرے کے کپڑے بیچ بازار کے اتارتے اور جی بھر کر ملاحیاں سناتے ہیں مگر کبھی کسی کو قانون کے شکنجے میں کس کر عبرت ناک مثال نہیں بناتے کیونکہ اس حمام میں سب ننگے ہیں حکمرانی کے لیے باریاں لگا رکھی ہیں مگر احتساب کی باری نہیں آنے دیتے۔ میثاق جمہوریت دراصل میثاق خیانت ہے من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو
ترکی کی خاتون اول کا ہار یوسف رضا گیلانی سے برآمد ہوا‘ آصف علی زرداری سوئس اکائونٹس میں موجود چھ سو ملین ڈالر‘ قیمتی نیکلس اور سرے محل لے اڑے‘ ایل این جی کے جہاز پاکستانی بندرگاہوں پر اتر رہے ہیں کسی کو آج تک نرخ معلوم نہ اصل مالکوں کا اتہ پتہ۔ کیا یہ ثبوت کافی نہیں؟ نیب نے موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کے جن گھپلوں کی تفصیل‘ سپریم کورٹ میں پیش کی ان میں سے بعض پایۂ ثبوت کو پہنچ چکے مگر مجال ہے کہ کسی کو سزا ملی ہو یا ملنے کی امید ہو کیونکہ میثاق جمہوریت‘ این آر او اور مفاہمتی سیاست میں احتساب شجر ممنوعہ ہے۔ ایک سوال ان لٹیروں سے بھی:
Once you get beyond a million dollars, it's still the same hamburger.
یہ میرے نہیں بل گیٹس کے الفاظ ہیں۔
 
آخری تدوین:

نایاب

لائبریرین
محترم عمار چودھری نے اسی بارے کیا خوب لکھا ہے کالم
آخری سانسیں

رب نواز شاہدرہ لاہور کا رہائشی ہے۔ یہ تین مرلے کے گھر میں رہتا ہے جو پرانی اینٹوں سے بنا ہے۔بیس برس پرانے اس گھر میں پلستر کا نام و نشان تک نہیں۔ جب بھی بارش آتی ہے چھتیں ٹپکنے لگتی ہیں۔ اہل خانہ کو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ کھلے آسمان تلے بیٹھے ہوں۔ رب نواز کی بیوی گردوں کی مریضہ ہے۔ ان کے چار بچے ہیں۔ دو بچے پیدائشی معذور ہیں۔ رب نواز گلی کی نکڑ پر سبزی کا ٹھیلہ لگاتا ہے۔ اس سے اس کی اتنی بچت ہو جاتی ہے کہ وہ اور اس کے اہل خانہ دو وقت کا کھانا کھا سکیں۔ سارے گھر میں ایک پنکھا اور دو بلب ہیں۔ فریج‘ یو پی ایس اور دیگر برقی آلات نام کی کوئی عیاشی موجود نہیں۔ اس کے باوجود رب نواز کے ساتھ وہ ہوا جو اس نے سوچا نہ تھا۔ اس کا بجلی کا بل آ گیا۔ یہ کل ملا کر اٹھاون ہزار روپے تھے۔ وہ کبھی بل کو دیکھتا اور کبھی اپنے چھت پر لگے بوسیدہ پنکھے کو اور کبھی زیرو کے بلب کو۔ وہ بجلی کے محکمے کے چکر لگا لگا کر تھک گیا لیکن کوئی اس پر یقین کرنے کو تیار نہ تھا۔ سب نے یہی کہا کہ بجلی استعمال کی ہے تو بل بھی ادا کرنا پڑے گا۔ وہ افسروں کے پائوں بھی پڑا'خدا رسول کے واسطے بھی دئیے لیکن کس نے ایک نہ سنی۔بالآخر ایک روز محکمے والے آئے اور اس کا میٹر کاٹ کر لے گئے۔ جاتے جاتے ایک کاغذ تھما گئے جس پر لکھا تھا کہ فلاں تاریخ تک بل ادا کرو وگرنہ نادہندگی کے جرم میں جیل جانا پڑے گا۔ رب نواز نے دوست‘ رشتہ داروں سے پیسے اُدھار مانگے لیکن کوئی بھی مدد کو تیار نہ ہوا۔ رب نواز کے پاس اب کوئی چارہ نہ تھا کہ جیل جانے کو تیار ہو جائے۔
ایک روز محکمے والے آئے۔ ان کے ساتھ پولیس والے بھی تھے۔ انہوں نے رب نواز کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ رب نواز دروازہ کھولنے لگا تھا کہ اس کے پائوں سے اس کا معذور بیٹا چمٹ گیا۔ اسے شور سے پتہ چل گیا تھا کہ باہر پولیس ہے اور وہ اس کے باپ کو پکڑنے آئی ہے۔ باپ جیل چلا گیا تو اس کے معذور بچوں کو کون پالے گا۔ کون ان کی والدہ کا خیال رکھے گا۔ گھر کا چولہا کیسے جلے گا۔ یہ دیکھ کر دوسرے بہن بھائی بھی دروازے کے آگے کھڑے ہو گئے۔ اتنے میں پولیس نے دروازے کو ٹھڈے مارنے شروع کر دئیے۔ کسی پولیس والے نے کلہاڑی کا وار کیا تو نحیف سے دروازے کے درمیان بڑا سوراخ ہو گیا۔ پولیس نے ہاتھ ڈال کر کنڈی کھولی اور چند ''جوان‘‘ دندناتے ہوئے اندر داخل ہو گئے۔ انہوں نے بچوں کو انہی کی بیساکھیوں کے بٹ مارے‘ انہیں رب نواز سے علیحدہ کیا اور اسے مکے اور گھونسے رسید کرتے ہوئے گاڑی میں ڈال کر لے گئے۔ معذور بچے خود کو گھسیٹتے ہوئے گاڑی کے پیچھے آئے اور روتے چیختے رہ گئے۔ رب نواز کو حوالات میں ڈالا گیا۔ اگلے دن اس کا چالان عدالت میں پیش ہوا۔ دوسری تیسری پیشی میں عدالت نے اسے آٹھ برس قید کی سزا سنا دی۔
محمد کریم ساندہ کا رہائشی ہے۔ اس نے چند برس قبل درزی کا کام شروع کیا۔ بیوی نے مدد کی۔ اپنا زیور بیچ کر اسے دیا اور یوں اس نے چھوٹی سی دکان بنا لی۔ ایک روز اس کی دکان پر ایک چمکیلی گاڑی آ کر رکی۔ ڈرائیور نے پچھلا دروازہ کھولا۔ زرق برق کپڑوں میں ملبوس ایک خاتون اپنا پرس سنبھالتے ہوئے اتری اور دکان میں داخل ہوئی۔اس نے بتایا عید قریب آ رہی ہے اور کوئی اس کے کپڑے نہیں لے رہا۔ جس پر محمد کریم نے ہامی بھر لی۔ خاتون نے ایک مردانہ اور ایک زنانہ سوٹ کا کپڑا اور ماپ کا سوٹ درزی کو دیا اور چلی گئی۔ کوئی دو گھنٹے بعد وہ خاتون دوبارہ دکان پر آئی اور محمد کریم سے کہا کہ اس نے جو مردانہ سوٹ ماپ کے لئے دیا تھا اس میں سو سو ڈالر کے دس نوٹ تھے۔ محمد کریم‘ جس نے ابھی ان کپڑوں کو کھول کر بھی نہیں دیکھا تھا‘ جلدی سے تلاش کیا لیکن پیسے برآمد نہ ہوئے۔ خاتون نے شور مچا دیا کہ درزی نے ایک ہزار ڈالر چوری کر لیے ہیں۔ کریم نے ہزار قسمیں کھائیں‘ لیکن خاتون کو یقین نہ آیا۔ اس نے فوراً اپنے خاوند کو فون کیا جو آدھے گھنٹے میں پولیس لے کر آ گیا۔ پولیس نے محمد کریم کو اٹھا کر گاڑی میں پھینکا اور جاتے ہی پرچہ بھی کاٹ دیا۔ چند ہی روز میں اسے چھ برس قید کی سزا سنا دی گئی۔
چھیاسٹھ سالہ نور دین لاہور کے نواحی علاقے کا رہائشی ہے۔ پیٹ پالنے کے لئے چار کنال کے خالی پلاٹ کے سامنے پھلوں کی ریڑھی لگاتا تھا۔ ایک روز ایل ڈی اے والے آئے اور اس کی ریڑھی سڑک پر الٹا دی۔ پھلوں کے چھابے اور ریڑھی ٹرک میں رکھی اور نور دین کو پولیس کی گاڑی میں ڈال دیا۔ نور دین نے اپنا قصور پوچھا تو اسے کہا گیا کہ تم ناجائز قابض ہو اور پھل بیچنے کی آڑ میں چار کنال کے سرکاری پلاٹ پر قبضہ کرنا چاہتے تھے۔ اس نے لاکھ صفائیاں دیںکہ میں تو اپنی ریڑھی پر پھل بیچتا ہوں‘ اس پلاٹ سے میرا کیا تعلق۔ نور دین جتنی صفائیاں دیتا اتنے ہی اسے تھپڑ اور گھونسے پڑتے۔ اس کا چالان عدالت میں پہنچا تو جج صاحب نے یہاں بھی انصاف کے تقاضوں کو بروقت پورا کرتے ہوئے اسے سرکاری زمین اور کار سرکار میں مداخلت کے جرم میں چودہ سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔
گزشتہ روز نیب نے سپریم کورٹ میں ایک فہرست جمع کرائی۔ اس فہرست میں وزیر اعظم میاں نواز شریف سمیت چار سابق وزرائے اعظم ‘وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف،وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار، سابق صدر آصف علی زرداری ، حسین حقانی ،سابق وزیر خزانہ شوکت ترین ، سمیت دیگر افراد کے نام شامل ہیں۔ ان لوگوں کے خلاف اختیارات کے ناجائز استعمال،مالیاتی سکینڈل اور قیمتی اراضی کی خریدو فروخت میں گھپلوں سے متعلق کھربوں روپے مالیت کے 150 میگا کرپشن سکینڈلز میں ملوث ہونے کے حوالے سے تفتیش برسوں سے جا ری ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سارے وزیراعظم‘ یہ وزیر اور یہ سیاستدان بھی اُسی ملک میں رہتے ہیں جس میں رب نواز‘ محمد کریم اور نور دین رہتے ہیں ‘ یہ سب بھی انصاف کے جھنڈے اسی طرح اٹھائے ہوئے ہیں جس طرح ایک عام آدمی انصاف کا حصول چاہتا ہے۔ یہ سب بھی اسی قائد کو اپنا قائد مانتے ہیں جسے یہ غریب لوگ قائد اعظم کہتے ہیں تو پھر ایسا کیوں ہے کہ رب نواز بجلی چوری نہ بھی کرے تو اسے پکڑ کر جیل میں ڈال دیا جائے اور یہ کروڑوں اربوں کے ڈاکے مارنے کے بعد بھی پاک باز اور شریف کہلاتے رہیں۔ ایسا کیوں ہے کہ محمد کریم پیسے چوری نہ کرے تب بھی اسے چھ سال جیل میں سڑنا پڑے اور نور دین پھلوں کی ریڑھی سڑک پر سے گزارے تو اسے قبضہ مافیا کہہ کر چودہ سال کے لئے جیل میں ڈال دیا جائے۔ایسا کیوں ہے کہ ان تینوں کو سزا دینے کے لئے تو پولیس‘ نیب اور عدالتیں پھرتیاں دکھائیں‘ ان کا مقدمہ تو دنوں میں مکمل ہو جائے اور ملک کا خون چوسنے والے ان چند سو لوگوں کے مقدمات کی تفتیش کئی کئی عشرے گزرنے کے بعد بھی مکمل نہ ہو۔
سنا تھا کہ کفر کے ساتھ معاشرے زندہ رہ سکتے ہیں لیکن انصاف کے بغیر نہیں۔ شاید یہ معاشرہ بھی اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
محمد اظہار الحق کی لکھی عرضداشت

نیب نے کرپشن کے ایک سو پچاس مقدموں کی فہرست سپریم کور ٹ کو پیش کی ہے۔ اس میں مندرجہ ذیل مشاہیر کے اسمائے گرامی آتے ہیں: میاں نوازشریف، شہباز شریف، اسحاق ڈار، آصف علی زرداری، چودھری شجاعت حسین، پرویز الٰہی، راجہ پرویز اشرف، یوسف رضا گیلانی، ہارون اختر خان، آفتاب شیرپاؤ، جہانگیر صدیقی، نواب اسلم رئیسانی، میاں محمد منشا، ایاز خان نیازی، فردوس عاشق اعوان، عبداللہ یوسف، سلمان صدیق، علی ارشد حکیم، آصف ہاشمی، سحر کامران، حسین حقانی، شوکت ترین، ملک نوید، توقیر صادق، محمد صدیق میمن، یونس حبیب، علی احمد لونڈ، ذکی اللہ، نصیر حیات، عبدالغفور لہڑی، صدیق میمن، انجم عقیل خان، جنرل سعید الظفر‘ شاہد رفیع، اسماعیل قریشی، شاہنواز مری، میر شاہ جہان کھیتران۔ ہو سکتا ہے کچھ نام یہاں نقل کرنے میں رہ گئے ہوں۔ عوام کی طرف سے درج ذیل عرضداشت انہی مشاہیر کے نام ہے۔
معزز حضرات! آپ سب کا مؤقف... کیا مشترکہ اور کیا فرداً فرداً‘ایک ہی ہے کہ آپ بے قصور ہیں اور یہ الزامات‘ جرائم کی یہ فہرست، سازش کے علاوہ کچھ نہیں!

آپ درست فرما رہے ہیں۔ ہم عوام نہتے ہیں، اس ضمن میں ہمارے ہاتھ میں کوئی ثبوت نہیں؛ تاہم ہمیں تعجب اس بات پر ہے کہ سالہاسال گزر گئے، عشروں پر عشرے بیتے جا رہے ہیں مگر یہ مقدمات آر ہوتے ہیں نہ پار۔ کبھی نیب سے عدالتوں میں جاتے ہیں اور سو جاتے ہیں، کبھی عدالتوں سے واپس نیب میں آتے ہیں اور مدتوں دکھائی نہیں دیتے۔ اتفاق فاؤنڈری ہو، سرے محل، رائے ونڈ کی سڑک ہو یا اصغر خان کیس، مدتیں بیت جاتی ہیں، کچھ بھی پایۂ تکمیل کو نہیں پہنچتا۔ آپ حضرات کی معصومیت اور بے گناہی کی اس سے بڑی دلیل کیا ہو گی کہ ظاہری سیاسی مخالفتوں کے باوجود، آپ حق کے راستے پر بانہوں میں بانہیں اور ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں۔ ایک دوسرے کو نیب، عدالتوں اور ایف آئی اے سے بچاتے ہیں۔ سعدی نے یہ شعر آپ حضرات کی باہمی دوستی دیکھ کر ہی تو کہا تھا ؎
دوست آں باشد کہ گیرد دستِ دوست
در پریشاں حالی و درماندگی!
دوست ہوتا ہی وہ ہے جو مشکل وقت میں دوست کی دستگیری کرے۔ ایک برس پہلے جولائی 2014ء ہی کی تو بات ہے‘ جناب یوسف رضا گیلانی اور سندھ کی روحانی شخصیت جناب مخدوم امین فہیم کے خلاف ایک درجن انکوائریاں چل رہی تھیں۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے معاملات تھے، غیر متعلقہ کمپنیوں کو اربوں روپوں کی سبسڈی دے دی گئی تھی۔ خردبرد شدہ رقم کی بیرون ملک ناجائز منتقلی کا مقدمہ الگ تھا۔ جناب یوسف رضا گیلانی نے ضمانت کرا لی۔ اس پر ایف آئی اے کے تفتیشی افسر نے عدالت میں درخواست دائر کر دی کہ اس ضمانت کا کوئی جواز نہیں! اس نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی اے کے پاس اس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ جناب گیلانی نے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ جناب نوازشریف کی حکومت کس طرح برداشت کر سکتی تھی کہ اُن کے یعنی بالائی طبقے کا ایک رکنِ رکین ابتلا میں ہو اور وہ اس کی مدد کو نہ پہنچیں۔ مرکزی حکومت کے ڈپٹی اٹارنی جنرل عدالت بروقت پہنچتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ایف آئی اے یہ مقدمہ واپس لینا
چاہتی ہے۔ مقدمہ عدالت نے خارج کر دیا۔ جناب گیلانی یوں محفوظ رہے جیسے بتیس دانتوں میں زبان! چار کروڑ روپے جناب امین فہیم کے بینک اکاؤنٹ میں گئے، پھر واپس ہوئے۔ قانون کو اس میں کوئی مضائقہ نظر آیا نہ حکومت کو!
ایک معروف سیاسی شخصیت کے جنوبی پنجاب میں واقع کارخانے میں کروڑوں روپے کے بجلی کے واجبات تھے‘ مگر انہیں ایسا کوئی خوفناک اشتہار نما نوٹس نہ دیا گیا جو اب عام پاکستانیوں کو دہشت زدہ کرنے کے لئے دیے جا رہے ہیں‘ غریب آدمی کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دکھایا جا رہا ہے۔ یکم اکتوبر کو ڈیفالٹرز کی فہرست نیب کے حوالے کر دی جائے گی۔ اس فہرست میں آپ مشاہیر حضرات میں سے کوئی نہیں ہو گا۔ آپ حضرات کے خلاف اگر کوئی رقم واجب الادا ہو تو وہ جمہوریت کے خلاف سازش ہوتی ہے۔
ہم عوام کالانعام، آپ کی بے گناہی کو چیلنج نہیں کرتے، ہم ہیں بھی کون جو چیلنج کر سکیں! ہم غریب ٹیکس دہندگان ‘ہم گیس بجلی پانی اور ٹیلی فون کے بل وقت پر ادا کرنے والے ڈرپوک عوام! ہم ایمان لاتے ہیں آپ کی معصومیت پر! مگر ہم ایک گزارش کرتے ہیں!
اے مشاہیر کے گروہِ بلند مقام! اے عالی مرتبت شخصیات! اے ہماری جمہوریت اور بیوروکریٹک نظام کے ستونو! ہم ہاتھ باندھ کر، خدا کا اور رسولؐ کا اور خلفائے راشدین کا اور بارہ معصوم اماموں کا واسطہ دے کر منت اور زاری کرتے ہیں کہ آپ سب حضرات اِس ملک کو چھوڑ کر کہیں باہر تشریف لے جائیے! آپ ہمیں ہمارے حال پر چھوڑ دیجئے۔ ہم جمہوریت میں مریں یا آمریت میں ایڑیاں رگڑیں، آپ فکرمند نہ ہوں۔ آپ اپنی جمع شدہ پونجی! اپنے خزانے، اپنے سونے چاندی کے انبار، کارخانے، فیکٹریاں، جاگیریں، جائیدادیں... سب اٹھائیں اور لِلّہ! یہاں سے تشریف لے جائیں! آپ کا وطن تو پوری دنیا میں کہیں بھی ہو سکتا ہے۔ جدہ ہو یا نیویارک، لندن ہو یا پیرس، آپ کے لیے کون سی جگہ نئی ہے۔ آخر آپ کے گروہ کے معزز رکن، آپ میں سے اکثر کے یارِ خوش زبان جناب شوکت عزیز بھی تو بیرون ملک ہی ہیں۔ آپ جیسے ایک اور سیاسی سردار، اپنے قبیلے کے سرخیل، جناب الطاف حسین بھی تو آخر ملک چھوڑ گئے ہیں۔ ان کے معیار زندگی میں، لائف سٹائل میں، سیاسی، خاندانی اور شخصی معمولات میں کیا فرق پڑا؟
ہم اس ملک کے عوام آپ کویقین دلاتے ہیں کہ آپ کو یاد کرتے رہیں گے، ہم سارے ویرانوں، قبرستانوں، خرابوں، کھنڈروں، دھول اڑاتے کچے راستوں اور اندھیرے میں ڈوبے محلوں‘ بستیوں پر آپ کے مقدس ناموں کے بورڈ آویزاں کر دیں گے۔ ہم اپنے بچوں کو پڑھائی جانے والی تاریخ کی کتابوں میں آپ کے روشن کارناموں پر پورے پورے باب شامل کریں گے۔ خدا کے لئے اس ملک کو چھوڑ کر چلے جائیے تاکہ یہ کبھی نہ ختم ہونے والے بکھیڑے ہی ختم ہو جائیں! کیونکہ جب تک آپ سلامت ہیں (خدائے بزرگ و برتر آپ سب حضرات کو ہم عوام کی عمریں بھی عطا کر دے) کسی مقدمے میں کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکتا۔ بس اتنی گزارش اور ہے کہ جاتے ہوئے جناب جنرل پرویز مشرف اور حضرت مولانا کو بھی ساتھ لے جائیے۔
اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر ہم پر اتنا رحم کیجئے کہ ہم بیس کروڑ عوام کو اس ملک سے چلتا کر دیجئے۔ آپ کے اس گروہ باصفا کے معزز رکن جناب یوسف رضا گیلانی نے اپنی وزارت عظمیٰ کے دوران فرمایا بھی تھا کہ جو ملک چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں انہیں کس نے روکا ہے، تو ہمیں کوئی ٹھکانا بتائیے، ہم یہاں سے چلے جاتے ہیں، اس ملک کے وسائل تو پہلے ہی آپ حضرات کی مٹھیوں میں ہیں، ہمارے پاس تو گرتی اینٹوں اور کچی مٹی کے گھروندے ہی ہیں، ہم وہ بھی آپ کو نذر کرنے کے لئے تیار ہیں، ہمیں افریقہ کے کسی جنگل میں، صحرائے گوبی کے کسی کونے میں، ہمالیہ کی کسی چوٹی پر، کہیں بھی بھجوا دیجئے۔ ہو سکتا ہے ہماری نسلوں میں سے کوئی یہاں اپنی جڑوں کا معائنہ کرنے آ نکلے تو اس وقت تک نیب اور عدالتوں کے درمیان لڑھکتے ہوئے ان مقدمات کا فیصلہ ہو چکا ہو!
اور اگر یہ بھی ممکن نہیں تو ہمیں، ہم بیس کروڑ عوام کو جنوب کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر میں پھینک دیجئے، ہمیں یقین ہے کہ شارک مچھلیوں کے جبڑے، آپ حضرات کے دانتوں اور پنجوں سے کہیں زیادہ نرم ہوں گے۔

محترم @فاروق احمد بھٹی بھائی
 

تہذیب

محفلین
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں کچھ بھی نہ کیا جائے ، صرف اس کو لوٹ مار سے بچایا جائے تو بھی یہ خوشحال ہو سکتا ہے
 
مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے ہاں کبھی انصاف کا بول بالا ہو سکے گا۔
احمد بھائی نا امیدی تو اچھی چیز نہیں ہے ۔۔۔۔کبھی تو ہو گا ہی
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
اور ویسے بھی جمود تو قائم نہیں رہ سکتا نا۔۔۔۔۔۔۔
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی نا امیدی تو اچھی چیز نہیں ہے ۔۔۔۔کبھی تو ہو گا ہی
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
اور ویسے بھی جمود تو قائم نہیں رہ سکتا نا۔۔۔۔۔۔۔
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

ٹھیک کہتے ہیں آپ اُمید ہرگز نہیں چھوڑنی چاہیے۔

لیکن فی الحال کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔

مجھے تو یوسف رضا گیلانی پر حیرت ہوئی۔ کس طرح اس بے غیرت آدمی نے خیرات کے طور پر موصول ہونے والا قیمتی ہار ہڑپ کرلیا۔ کیا کمی تھی اِس کے پاس کہ سیلاب زدہ لوگوں کی مدد کے لئے ملنے والا ہار بھی اس کی ہوس کی بھینٹ چڑھ گیا۔

اور پھر حیرت ہوتی ہے ہمارے معیارِ عدلیہ پر۔ کہ طلب کرنے پر اس نے ہار واپس کردیا اور اُس کے خلاف کوئی مقدمہ تک نہیں بنا۔

کسی سیاسی جماعت نے؟ کسی ادارے نے اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ افسوس۔

کیا کل کو کسی مصیبت میں لوگ پاکستانیوں کا ہاتھ تھامیں گے؟

خدا غارت کرے ان لوگوں کو۔
 
مجھے ٹیگ نہیں ملا !! :(
دوسرا کالم جو نایاب نے شئیر کیا ہے اس دھاگے میں وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے
آپ کے خیال میں سیاستدانوں کی کرپشن سے نجات کا طریقہ کیا ہے؟
ان سب کو سمندر برد کر دیا جائے کیونکہ حلف اٹھانے کے بعد ایسے اقدام کرنا میرے نزدیک کم از کم ملک و قوم سے غداری کے زمرے میں آتا ہے
 
ٹھیک کہتے ہیں آپ اُمید ہرگز نہیں چھوڑنی چاہیے۔

لیکن فی الحال کوئی سبیل نظر نہیں آتی۔

مجھے تو یوسف رضا گیلانی پر حیرت ہوئی۔ کس طرح اس بے غیرت آدمی نے خیرات کے طور پر موصول ہونے والا قیمتی ہار ہڑپ کرلیا۔ کیا کمی تھی اِس کے پاس کہ سیلاب زدہ لوگوں کی مدد کے لئے ملنے والا ہار بھی اس کی ہوس کی بھینٹ چڑھ گیا۔

اور پھر حیرت ہوتی ہے ہمارے معیارِ عدلیہ پر۔ کہ طلب کرنے پر اس نے ہار واپس کردیا اور اُس کے خلاف کوئی مقدمہ تک نہیں بنا۔

کسی سیاسی جماعت نے؟ کسی ادارے نے اس کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں کہا۔ افسوس۔

کیا کل کو کسی مصیبت میں لوگ پاکستانیوں کا ہاتھ تھامیں گے؟

خدا غارت کرے ان لوگوں کو۔
جی آپ نے بالکل درست کہا کہ اس وقت ان سے نجات کی کوئی سبیل نظر نہیں آتی ۔۔۔۔

عدلیہ کے سامنے کسی غریب کو پیش کر دیا جائے تو جھٹ سے سزا مل جاتی ہے اس دھاگے میں نایاب کا شئیر کردہ دوسرا کالم دل کو خون کے آنسو رلانے کے لیے کافی ہے۔۔۔۔

سیاسی جماعتیں آپ کو ہر اس معاملے میں مل کر آواز اٹھاتی نظر آئیں گی جو ان کے فائدے میں ہو۔۔۔مشرف کی مثال لے لیجیے حکومت کو چھیننے کے معاملے میں سب اس کے خلاف ہیں اور غداری کا مقدمہ تک چلانے کی بات کرتے ہیں لیکن این آر او کے معاملے میں کوئی سیاسی بولتا نظر نہیں آتا ۔۔۔۔میٹھا میٹھا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو۔۔
آمین۔۔۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آپ کے خیال میں سیاستدانوں کی کرپشن سے نجات کا طریقہ کیا ہے؟
ان سب کو سمندر برد کر دیا جائے کیونکہ حلف اٹھانے کے بعد ایسے اقدام کرنا میرے نزدیک کم از کم ملک و قوم سے غداری کے زمرے میں آتا ہے

اچھا خیال ہے۔
 
احمد بھائی آپ 2014 کے اوائل کی چند تحقیقات اٹھا کر دیکھ لیں۔۔ کہ تعلیم کے حوالے سے سرکاری سکولوں کی کیا حالت تھی اور قوم کے گاڑھے خون پسینے کی کمائی سے بنائی گئی سکولز کی عمارات کی کیا حالت تھی۔۔۔
پاکستان کے ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے دور
بلوچستان:’34 فیصد بچے سکول نہیں جاتے‘
ملک میں 6ہزار گھوسٹ سکول سندھ کی صورتحا ل سب سے خراب

اور اس پہ ان کی پراگرس دیکھ لیں کہ کن انقلابی بنیادوں پہ اس معاملے میں کام کیا گیا ہے۔۔

ان کی ترجیحات ہی کچھ اور ہی ملک و قوم کی فلاح و بہبود ان کے خیالات کا حصہ ہی نہیں۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ملک میں 6ہزار گھوسٹ سکول سندھ کی صورتحا ل سب سے خراب

سندھ حکومت سندھیوں اور پاکستانیوں کی سب سے بڑی دشمن ہے۔

قائم علی شاہ اور پیپلز پارٹی بمعہ وڈیرہ شاہی اور افسر شاہی سندھ کے لوگوں کے لئے ناختم ہونے والا عذاب ہے۔

پیپلز پارٹی کے ہوتے سندھ کے حالات کبھی بھی بہتر نہیں ہو سکتے۔

پی پی والے لیاری کو اپنا گڑھ کہتے ہیں۔ جب کہ لیاری میں تعلیم نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ بنیادی شہری سہولیات کیا ہوتی ہیں لیاری کے لوگ یہ بات تک نہیں جانتے۔ لیاری کی آبادی کا زیادہ تر حصہ (کیا مرد اور کیا عورتیں) نشے کے عادی ہیں۔ لیاری جرائم پیشہ افراد کی جنت ہے اور یہاں سے سارے کراچی میں جرائم کنٹرول کیے جاتے ہیں۔

جانے کس منہ سے یہ لوگ لیاری کو پی پی کا گڑھ کہتے ہیں۔ شرم نام کی کوئی شے نہیں ہے ان کے پاس۔
 

جنید اختر

محفلین
احمد بھائی آپ 2014 کے اوائل کی چند تحقیقات اٹھا کر دیکھ لیں۔۔ کہ تعلیم کے حوالے سے سرکاری سکولوں کی کیا حالت تھی اور قوم کے گاڑھے خون پسینے کی کمائی سے بنائی گئی سکولز کی عمارات کی کیا حالت تھی۔۔۔
پاکستان کے ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے دور
بلوچستان:’34 فیصد بچے سکول نہیں جاتے‘
ملک میں 6ہزار گھوسٹ سکول سندھ کی صورتحا ل سب سے خراب

اور اس پہ ان کی پراگرس دیکھ لیں کہ کن انقلابی بنیادوں پہ اس معاملے میں کام کیا گیا ہے۔۔

ان کی ترجیحات ہی کچھ اور ہی ملک و قوم کی فلاح و بہبود ان کے خیالات کا حصہ ہی نہیں۔۔

سرکاری سکولز کی حالت ٹھیک نہیں ہے تو کیا ہوا۔۔ میٹرو بسیں ہے نا ۔۔بچے ان میٹرو بسوں میں تعلیم حاصل کرلیں گے :)
 
سوال یہ ہے کہ نیب کی کرپشن کو کون پکڑے گا؟ ہزاروں ملزمان انہوں نے پکڑے اور مک مکا کر کے چھوڑ دئیے۔
سر جب ادارے کو آذادانہ طور پر کام کرنے دیا جائے گا اور کوئی سیاسی پریشر اور سیاسی تقرری نہیں ہو گی تو خود احتسابی کے ذریعے ادارے کے اندر کرپشن کرنے والے بھی خود گرفت میں آ جائیں گے۔۔

ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ احتساب کا اصل طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ملزم کو بلا کر کہا جائے کے جناب آپ کے اثاثہ جات کچھ عرصہ پہلے تک یہ تھے اور اب بڑھ کر اتنے ہو گئے ہیں ان کو درست ثابت کریں۔

یا پھر آپ کے اثاثہ جات تو نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن آپ کا لائف سٹائل اس سے میل نہیں کھاتا اس کی وضاحت پیش کریں۔۔

لیکن یہاں نظام الٹا ہے احتساب کرنے والے سارے ثبوت لا کرکرپشن کرنے والے کی کرپشن ثابت کریں جو کہ ظاہری سی بات ہے ایک مشکل امر ہے
 
ان سب کو سمندر برد کر دیا جائے کیونکہ حلف اٹھانے کے بعد ایسے اقدام کرنا میرے نزدیک کم از کم ملک و قوم سے غداری کے زمرے میں آتا ہے
سمندر برد کرنے کی ذمہ داری کس پر ڈالی جائے؟ اور سمندر برد کئے جانے والوں میں کون کون شامل ہو؟
 
Top