حکمرانوں کی کرپشن کا سب رونا روتے ہیں لیکن وہ حدیث بھول جاتے ہیں کہ عوام اپنے حکمرانوں کے قدم پر ہوتے ہیں۔ عوام ایسی ہے تبھی تو ایسے حکمراں نصیبوں میں لکھے گئے ہیں۔ بات صرف اتنی ہے جس کی چونچ ہے وہ اتنی کرپشن کرتا ہے جو اس کی چونچ اچک لے اور جس کا جبڑا ہے وہ اتنی ہی زیادہ۔ حکمرانوں کی کرپشن کیونکہ بڑی ہوتی ہے اوپر سے میڈیا بھی تاک میں ہوتا ہے تو سب کو نظر آجاتی ہے۔ ورنہ اپنے اردگرد دیکھیں تو کون آپ کو کرپشن سے پاک نظر آتا ہے۔ اپنی گلی میں ہی نظر دوڑا لیں۔ سبزی والے کو دیکھ لیں دودھ والے کو دیکھ لیں۔ رکشہ میں بیٹھ کردیکھیں کیسے وہ آپ کی کھال کھینچنے کی کوشش کرتا ہے۔ بس میں سفر کریں تو سی این جی پر چلاتے ہوئے کرایہ ڈیزل کا لیتے ہیں۔ کسی دفتر میں کوئی کام چپراسی کو خوش کئے بغیر کرواکر دیکھ لیں تو لگ پتہ جائے کہ عوام کسی سے کم نہیں۔ کہیں جاب کا انٹرویو ہو اور کسی کو موقع ملے سفارش کا اور وہ سفارش نہ کروائے۔ اپنے بچوں کے اچھی جگہوں پر داخلے کے لئے سفید ریش حضرات بھی ہر جائز و ناجائز ہتھکنڈے آزماتے نظر آتے ہیں۔ ہمیں وہ شریف نظر آتا ہے جسے کبھی موقع نہیں ملا۔ اس میں شک نہیں کہ خالص دیانت دار اور اچھے لوگ بھی یہاں موجود ہیں لیکن حکم اکثریت پر ہی لگتا ہے۔ ورنہ صحیح معنوں میں اکثریت عوام کی نیک دل اور مخلص ہوتی تو پھر اللہ میاں پر ہی سوال اٹھنا تھا کہ اتنی نیک دل عوام پر ایسے حکمران بٹھا کر کون سا عدل کررہا ہے۔
عوام .....حکمرانوں کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں
عام طو پر مشہور ہے کہ جیسی عوام ہوتی ہیں ویسے حکمران مسلط کر دیئے جاتے ہیں، عوام اگر اچھے، نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوں، تو حکمران بھی نیک، ایماندار اور صاحب کردار ہوتے ہیں، عوام اگر بد عنوان، نافرمان اور بدکردار ہوں، تو انہیں حکمران بھی ایسے ہی ملتے ہیں، گویا حکمران عوام کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں، عوام اچھے تو حکمران اچھے، عوام خراب تو حکمران بھی خراب، ممکن ہے یہ اصول و قاعدہ سو فیصد صحیح اور درست ہو، لیکن ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کیا طاقت، ظلم اور جبر کے دور حکومت میں بھی یہی اصول و قاعدہ صادق آتا ہے اور کیا ظلم و جبر کے بوجھ تلے دبے عوام جو کہ اپنے حکمرانوں سے شدید غصے، نفرت اور بیزاری کے جذبات رکھتے ہیں اور انہیں کسی طور بھی دل سے پسند نہیں کرتے ہوں، وہ بھی اس زمرے میں آتے ہیں، اب اس بات کا بہتر فیصلہ تو اہل علم و دانش ہی کریں گے اور وہی بتا سکتے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی عوام کی مرضی، خواہشات اور امنگوں کے خلاف حکمران ان پر کیوں مسلط ہوجاتے ہیں،
لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ”جیسے عوام ویسے حکمران “ کے بجائے ”جیسے حکمران ویسے عوام“ کا کلیہ بھی ہونا چاہیے اور ہمارا ماننا ہے کہ” عوام حکمرانوں کے افعال و اعمال کا عکس ہوتے ہیں۔“ آئیے آج ذرا معمول سے ہٹ کر اس پہلو پر غور کرنے کیلئے تاریخ کے اوراق پلٹتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا دور خلافت ہے، مسجد نبوی میں دربار خلافت لگا ہوا ہے جس میں خلیفة المسلیمین سیدنا عمر فاروق اورداماد رسول سید نا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم دیگر صحابہ کرام کے ساتھ وہاں موجود ہیں، اتنے میں مصر کے محاذ سے لشکر اسلام کے سپہ سالار کا قاصد مال غنیمت کے ساتھ ایک رقعہ امیر المومنین کی خدمت میں لے کر حاضر ہوتا ہے اور مال غنیمت کے ساتھ رقعہ امیر المومنین کی خدمت میں پیش کرتا ہے، سیدنا عمر فاروق قاصد سے خط لے کر پڑھنا شروع کرتے ہیں، جس میں اسلامی لشکر کے سپہ سالار نے اپنے سپاہیوں کو ہدیہ تہنیت پیش کرتے ہوئے لکھا تھا کہ ”امیر المومنین۔ ۔ ۔ ۔ الحمد للہ میرے سپاہی اتنے دیانتدار، ذمہ دار، فرض شناس اور خدا ترس ہیں کہ دوران جنگ اگر کسی مجاہد کو معمولی سی سوئی بھی ہاتھ لگی تو وہ بھی اس نے میرے پاس جمع کرائی ہے اور اگر کسی مجاہد کو اشرفیوں کی تھیلی یا سونے کی ڈلی بھی ملی تو وہ بھی اس نے اپنے پاس رکھنے کے بجائے مجھ تک پہنچائی ہے ۔“
سیدنا عمر فاروق جیسے جیسے خط پڑھتے جاتے آپ کی آنکھوں سے آنسو چھلکتے جاتے، یہاں تک کہ چہرہ مبارک آنسوؤں سے تر ہو جاتا ہے، سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم یہ صورتحال دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ محاذ جنگ سے شاید کوئی بری خبر آئی ہے جس نے امیرالمومنین کو پریشان اور دکھی کردیا ہے، آپ بے چینی اور اضطراب کے عالم میں امیر المومنین سیدنا عمر فاروق سے دریافت فرماتے ہیں ،یا امیر المومنین ۔ ۔ ۔ ۔ خیریت تو ہے آپ کیوں رو رہے ہیں، سیدنا عمر فاروق حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی فکر مندی دیکھ کر فرماتے ہیں،”اے میرے بھائی یہ خوشی کے آنسو ہیں“ یہ کہہ کر آپ وہ خط حضرت علی کو دے دیتے ہیں، حضرت علی کرم اللہ وجہہ ساری صورتحال جاننے کے بعد علم و حکمت پر مبنی وہ ایمان افروز تبصرہ ارشاد فرماتے ہیں جو رہتی دنیا تک ایک ایماندار اور صاحب کردار حکمران اور اس کی انتظامیہ کی پہچان اور شناخت قرار پاتا ہے۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں، امیر المومنین۔ ۔ ۔ ۔ ”یہ اسلامی فوج کے سپاہیوں کی دیانت اور امانت نہیں بلکہ آپ کے عدل و کردار کا کمال ہے، اگر آپ فرض شناس، امین، عادل اور خدا ترس نہ ہوتے تو آپ کے سپاہی کبھی بھی ان اوصاف کا مظاہرہ نہ کرتے اور سپاہیوں میں یہ وصف کبھی پیدا نہ ہوتا۔“ باب العلم سیدنا علی المرتضی کا علم و حکمت بھرا یہ تبصرہ کہ ” جب تک اعلیٰ سطحی حکومتی و سیاسی قیادت ان اوصاف کی حامل نہ ہو، رعایا اور دیگر ارکان ریاست کبھی بھی ذمہ دار اور فرض شناس نہیں ہوسکتے“ سربراہ مملکت اور ارکان ریاست کے حوالے سے جامع اور مکمل ہے، آج ہمیں اس اصول و قاعدے کی روشنی میں ہمیں اپنا کوئی حکمران اور اس کے معاونین کی انتظامی ٹیم پوری اترتی دکھائی نہیں دیتی ہے ۔
عربی کا مقولہ ہے کہ ”الناس علیٰ دین ملو کھم“ کہ لوگ اپنے حکمرانوں کے دین پر( پیرو کار) ہوتے ہیں، یعنی جیسا حکمران ہوتا ہے، ویسی ہی اس کی رعایا ہوتی ہے، مثال کے طور پر حجاج بن یوسف کا دور قتل و غارت گری اور فتنہ کا دور تھا، اس دور میں کتنے ہی لوگ جیلوں میں ٹھونسے گئے، لاتعداد قتل کئے گئے، تاریخ بتاتی ہے کہ اس دور میں لوگ صبح اٹھ کر اس قسم کی گفتگو کیا کرتے تھے”کل کس کو قتل کیا گیا، کون سولی پر چڑھایا گیا اور کس کو کوڑے مارے گئے۔“اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کو عمارتیں بنوانے اور کارخانے لگوانے کا شوق تھا، لوگ اس دور میں ایک دوسرے سے عمارتیں بنانے، کارخانے لگانے، نہریں کھودنے اور شجر کاری کے بارے میں باتیں کرتے تھے، اس کے بعد سلیمان بن عبدالملک کا دور آیا، وہ کھانے پینے کا شوقین تھا، گانے بجانے سے دل لبھاتا تھا، اس دور میں لوگ انواع و اقسام کے کھانوں کی بات کرتے، مغینات اور لونڈیوں کا ذکر ہوتا اور محفل و مجالیس میں شادی بیاہ کی تقریبات اور رقص و سرور کا تذکرہ رہتا تھا، جب حضرت عمر بن عبدالعزیز کا دور آیا تو لوگ اس دور میں ایک دوسرے سے پوچھتے تھے کہ تم نے کتنا قرآن پاک حفظ کیا ہے، رات میں کتنے نوافل پڑھے ہیں، اس ماہ میں کتنے روزے رکھے ہیں اور فلاں نے اتنا قرآن حفظ کرلیا ہے اور فلاں کا کب ختم ہونے والا ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ پہاڑوں پر پگھلنے والی برف کا پانی نیچے ڈھلوان پر ندی نالوں سے ہوتا ہوا میدانوں اور کھیتوں کو سیراب کرتا ہے، بالکل اسی طرح تاریخ کے مندرجہ بالا واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ عوام میں قناعت، دیانت، امانت، کفایت اور فرض شناسی کے احساسات حکمرانوں سے رعایا میں منتقل ہوتے ہیں، کیونکہ ہمیشہ اصلاح احوال اور تبدیلی کی ترتیب ہمیشہ اوپر سے نیچے کی طرف آتی ہے، مگر اس اصول و قاعدے کے برعکس ہمارے یہاں ہمیشہ حکمران عوام سے تبدیلی اور متذکرہ اوصاف کے متقاضی نظر آتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ عوام حکمرانوں کے پیرو کار ہوتے ہیں، حکمران جو رنگ اختیار کرتے ہیں، عوام خود کو اسی رنگ میں رنگتے چلے جاتے ہیں، حکمران جو ڈھنگ اپناتے ہیں عوام بھی اسے اپنا لیتے ہیں، حکمرانوں کا جو مزاج ہوتا ہے، عوام کا بھی وہی مزاج بن جاتا ہے، حکمران اگر نڈر، بہادر اور جرات مند ہوں تو عوام بھی بے خوف اور بے باک ہوتے ہیں، حکمران اگر بزدل، ڈرپوک اور کم ہمت ہوں تو عوام بھی مصلحت کیش اور عافیت کوش بن جاتے ہیں۔
نیپولین نے درست کہات ھا کہ ”اگر بکریوں کے ریوڑ کی قیادت شیر کو دی جائے تو بکریاں بھی شیر کی طرح لڑتی ہیں لیکن اگر شیروں کے لشکر کی قیادت بکریوں کے ہاتھ آجائے تو شیر بھی میمنے بن جاتے ہیں“ حکمران اگر اصول پسند اور قانون و ضابطے کے پابند ہوتے ہیں تو عوام بھی قانون و ضابطے کا احترام کرتے ہیں، حکمران اگر سادگی کو اپنا شعار بناتے ہیں تو عوام بھی اپنا طرز زندگی سادہ اور آسان کرلیتے ہیں، حکمران اگر شاہ خرچ ہوں تو عوام بھی اسراف پر آجاتے ہیں، حکمران اگر مسائل کے حل میں سنجیدہ ہوں تو عوام کے مزاج میں بھی سکون اور ٹھہراؤ آجاتا ہے اور اگر حکمران تصنع، بناوٹ اور نمائش پسند ی کے دلدادہ ہوں تو عوام ان سے پہلے عیش و آسائش پر فریفتہ دکھائی دیتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک کے حکمرانوں کا ہمیشہ سے یہ طرز عمل رہا کہ وہ شاہانہ کروفر کو قومی مفاد پر ترجیح دیتے ہوئے اس طرح اقتدار سے لطف اندوز ہوتے ہیں کہ ان میں بات بات پر پروٹوکول کا احساس نمایاں ہوتا ہے، کپڑوں سے لے کر رہائش اور سواری تک ہر انداز میں نزاکت، امارت، شان و شوکت اور جلالت کا رنگ جھلکتا ہے، مجموعی قومی پیداوار کس حال میں ہے، بیرونی قرضوں کا کیا عالم ہے، بجٹ کا خسارہ کتنا ہے، قومی ترقی کی رفتار کیسی ہے، یہ ساری بنیادی چیزیں ان کے اپنے دور حکمرانی میں بے معنی ہوتی ہیں، ان کے سر میں تو بس ایک ہی خبط سمایا رہتا ہے کہ وہ دنیا کو ایک صاحب جبروت اور شان و شوکت کے حامل حکمران نظر آئیں، اپنے اسی رنگ ڈھنگ اور انا پروری کو برقرار رکھنے کیلئے وہ عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ لادتے ہیں اور بیرونی مالیاتی اداروں سے قرض لے کر قوم و ملک کو سود اور غلامی کے دلدل میں دھکیل دیتے ہیں، ان کی ساری کوشش اور توجہ اس امر پر مرتکز رہتی ہے کہ ان کا دور اقتدار بغیر کسی مزاحمت اور چیلنج کے باآسانی مکمل ہوجائے، چنانچہ اس مقصد کیلئے وہ اپنے سارے ذہنی اور ریاستی وسائل جوڑ توڑ میں کھپاتے ہیں، سرکاری وسائل و خزانہ لٹاتے ہیں، مخالفین پر جھوٹے مقدمات بنواتے ہیں، تائید و حمایت کے حصول کیلئے ملازمتوں کا نیلام گھر سجاتے ہیں، پلاٹ اور پرمٹوں کی دکانیں کھلتی ہیں، کوٹوں کی منڈی لگتی ہے اور کمیشن کی رشوتیں چلتی ہیں تاکہ اقتدار کی مدت پوری ہوجائے۔
دراصل یہ سارے شاخسانے قیادت کے قحط اور قائدانہ بصیرت کے فقدان کے ہیں، ورنہ ایک حقیقی قیادت کبھی بھی نام و نمود اور دولت کی چمک دمک کی محتاج نہیں ہوتی، ہمیں ہر عہد کے اہل دانش اس امر پر متفق نظر آتے ہیں کہ اہل قیادت کیلئے قابلیت، اہلیت، حکمت اور بصیرت کا ہونا لازمی ہے، ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ تاریخ میں وہ حکمران کبھی بھی نیک نام نہیں رہے جنہوں نے فرعون کی فرعونیت، قارون کی دولت اور ہامان کی منافقت کی راہ کو اپنایا اور اسے اپنا ورثہ قرار دیا، جبکہ اس کے بر خلاف وہ لوگ تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں، جنہوں نے اصول، قاعدے اور قانون کے ساتھ حکمت، بصیرت اور اخلاص کے ساتھ حکومت کی اور عوام کے سکون و آرام اور بنیادی حقوق کا خیال رکھا۔
آج اگر پور قوم میں کرپشن اور لوٹ مار کے جراثیم سرایت کرچکے ہیں، کام چوری قوم کی عادت ثانیہ بن چکی ہے، ڈسپلن کو توڑنا ایک مشغلہ اور قانون شکنی ایک روایت کی شکل اختیار کرگئی ہے، اپنے دائرہ کار اور اختیارات سے تجاوز روز مرہ کا معمول اور عدم برداشت اور تشدد ایک فیشن کا روپ دھار چکا ہے، قوم میں ان ساری خرابیوں کی تخلیق اور پرورش کسی اور نے نہیں کی ہے بلکہ ہمارے خیال میں ان قومی بیماریوں اور خرابیوں کا اصل سبب ہماری قیادت کی نااہلی ہے اور اس کا ثبوت خود قیادت کا اپنا وہ طرز عمل ہے جس میں وہ اپنے قول و کردار اور عمل کو بہتر بنانے اور خود اخلاقی و سیاسی اصولوں پر کار بند رہنے اور دوبارہ برسر اقتدار آنے کیلئے وسائل جمع کرنے کے بجائے، سارا زور اس بات پر صرف کرتے ہیں کہ اپنے سیاسی مخالفین اور اختلاف رائے رکھنے والوں کو کیسے پیچھے دھکیلا جائے اور سیاسی داؤ پیچ کے ذریعے کیسے انہیں نیچا دکھایا جائے، وہ اس مقصد کیلئے نت نئے اسکینڈل گھڑتے ہیں، الزامات تراشے جاتے ہیں اور وہ وہ بہتان کھڑے کئے جاتے ہیں جس کے ذریعے مخالفین کا راستہ روکا جاتا ہے اور مشکلات پیدا کی جاتی ہیں۔
یہ ہمارا وہ سیاسی کلچر ہے جس کی فصل آج پوری قوم کاٹ رہی ہے، نہ دستور ہے، نہ منشور، نہ کوئی قومی و ملی نصب العین ہے، نہ مسائل اور قومی بحران سے نکلنے کا کوئی عملی منصوبہ اور لائحہ عمل ہے، حال یہ ہے کہ ہماری سیاسی قیادت اپنی تمام ذہانت، قابلیت، صلاحیت اور قومی دولت محض اس بات پر خرچ کرتی ہے کہ اس کی حکومت کو دوام ملے خواہ اس دوام کے عیوض اسے مارشل لاء سے مفاہمت ہی کیوں نہ کرنا پڑے، بیورو کریسی کا سہارا ہی کیوں نہ لینا پڑے، رات کی تاریکی میں اپنے مخالفین سے معاہدہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے اور بیرونی قوتوں کی مدد ہی کیوں نہ لینا پڑے، عوام سے کئے گئے وعدے اور عہد توٹتے ہیں تو ٹوٹ جائیں، لوگوں کی امنگیں، خواہشات اور امیدیں دم توڑتی ہیں تو توڑ جائیں، خود ان کا اپنا سیاسی کیرئیر اور سیاسی زندگی بے ثمر ہوتی ہے تو ہوجائے، جماعتی شناخت مٹتی ہے تو مٹ جائے اور محنت جد وجہد اور قربانیاں ضائع ہوتی ہیں تو ہوجائیں، کچھ بھی ہو انہیں تو بس اقتدار چاہیے ۔
قوم کا ایک ایک فرد آج اس بات کا گواہ ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد ہمارے ہر حکمران نے اپنے پیش نظر صرف ایک بات رکھی کہ عوام کو اصل حقائق سے دور رکھ کر ان کی آنکھوں میں دھول کیسے جھونکی جاسکتی ہے اورانہیں بے وقوف کیسے بنایا جاسکتا ہے، ظاہر اس طرز عمل اور طرز فکر کی روشنی میں قوم میں محنت دیانت، قناعت، ایمانداری اور فرض شناسی کے جذبات کیونکر پیدا ہوسکتے تھے، آج ہمارے موجودہ قومی بحران اخلاقی پستی، معاشی پسماندگی، سیاسی بد نظمی اور معاشرتی مسائل کا اصل سبب جرات مند، مخلص، صاحب فکر و نظر اور اعتماد کی دولت سے مزین قیادت کا فقدان ہے، کسی مفکر نے سچ کہا ہے کہ ”قوموں اور ملکوں کی موت کبھی بھی وسائل کی کمی کے سبب نہیں ہوتی ہے اور نہ ہی ان کی تباہی اور غرقابی طوفانوں اور سیلابوں سے ہوتی ہے بلکہ نااہل، خوشامد پسند بزدل، کم فہم، کوتاہ نظر اور مفاد عاجلہ کی رسیا قیادت قوموں کی لٹیا ڈبوتی ہے۔“
ماخذ