مہدی نقوی حجاز
محفلین
میں شاعری اور جوشؔ
مشکل سے ۱۴ برس کا تھا۔ پاکستان لوٹے ایک سال ہو چکا تھا۔ خیالات کچھ دھندلے ہیں لیکن گمان غالب ہے کہ اسکول کی چھٹیاں تھیں۔ کتابوں میں موجود ایک پرانی کتاب ہاتھ آئی۔ ضخیم تھی۔ لیکن دل میں ٹھان لی کہ اب اسے ان چھٹیوں میں پورا پڑھ کر ہی رہوں گا۔
یہ (نصاب سے خارج) اردو کی پہلی کتاب تھی جسے میں پڑھنے کی زحمت کرنے جا رہا تھا۔ آپ کو جان کر تعجب ہو گا کہ راقم الحروف نے ایران میں ۱۳ سال فارسی بولنے، پڑھنے اور سمجھنے کے بعد اردو کی جو پہلی کتاب پڑھی وہ اردو کی مشکل ترین کتاب، "یادوں کی بارات"، حضرتِ شبیر حسن خان جوشؔ ملیح آبادی کی سوانح نو عمری تھی۔
مقدمہ پڑھا۔ صاحبو! یقین کریں صرف مقدمہ میں نے دن رات ایک کر کے تین دن میں پڑھا اور سمجھا، جس میں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ لغت ہمیشہ میرے سامنے رہی۔ تھک گیا۔ لیکن پھر ایک غیبی طاقت نے سہارا دیا۔ امید بندھی۔
دوبارہ کمر باندھی اور پڑھنا شروع کیا۔ آپ کو اندازہ تو ہو ہی گیا ہوگا کہ راقم السطور کس مخمصے میں پھنس گیا تھا۔ ایک تو کمسنی کا عالم، پھر اردو اتنی گئی گزری کہ بولنا تو در کنار، ٹھیک سے املا دیکھ کر پڑھ بھی نہیں پاتا تھا۔ خاکہ کچھ یوں تھا کہ ایک ہاتھ میں "یادوں کی بارات" اور دوسرے میں اتنی ہی ضخیم لغت اٹھاتا تو ٹانگوں تک جسم غائب ہو جاتا۔ کھنا پینا تو ویسے ہی چھوٹ گیا تھا۔ ایران سے آیا تھا تو چاق و چوبند تھا، اب حالت یہ تھی کہ دونوں کتابوں سمیت وزن کوئی بکری جتنا ہوگا۔ انہیں ایام میں آنکھیں کمزور ہو گئیں۔ کمسنی ہی میں 'بائیفوکل' لگ گئے۔ لیکن خدا خدا کر کے دو سال تین مہینوں میں اس کتاب کو تکمیل کے سنگِ میل تک پہنچا دیا۔
یہ زمانہ وہ تھا جب اردو میرے لیے نئی زبان تھی۔ اور اسی لیے آج میں سینہ چوڑا کر کے یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ میری اردو حضرتِ جوشؔ ملیح آبادی کے سائے اور ان کی صحبت میں پھولی پھلی ہے۔ اور یقین کیجے جس لمحے میں نے اس کتاب کا آخری لفظ مکمل کیا تو میں ایک شاعر کی زندگی سے اتنا متاثر ہو گیا تھا کہ میں نے اپنا تخلص چنا اور وہیں کتاب کے آخری صفحے کے پیچھے فی البدیہ (بغیر عروض و علم قافیہ سیکھے) اپنا پہلا شعر رقم کر دیا جو آج بھی وہاں موجود ہے:
(یاد رہے کہ اس وقت میری عمر کوئی ۱۶ برس ہوگی)شعر ملاحظہ ہو!
انہیں جگہ بھی میسر تھی میرے دل میں حجازؔ
برائے نام بھی لیکن قریبِ دل نہ ہوئے
(یہ شعر بغیر کسی تبدیلی کے نقل کی گیا ہے۔)
یعنی ان دو برس میں جوشؔ نے مجھ پر اتنا اثر ڈالا اور میری طبیعت اتنی موزوں کر دی کہ اس وقت میں نے یہ دو موزوں مصرعے لکھے اور آج تک عروض سیکھے بغیر غزلیں اور نظمیں لکھ رہا ہوں۔
اسکے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ میرے اندر ایک شاعر سانس لے رہا ہے۔ پھر میں نے مختلف شعری علوم سیکھے (بجز عروض)۔ مختلف شعرا کا تحقیقی مطالعہ کیا اور اس طرح یہ داستان اب تک جاری ہے۔
جاری ہے اسی طور سے یہ قصہ وفا کا
جانباز وہی ہیں، رسن و دار وہی ہیں
ہاں تو بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ تو میں کہنا یہ چاہتا تھا کہ میں اپنی اردو، شاعری، ادب خلاصہ اپنی زندگی اور اس سے بڑھ کر اپنی ذات کے لیے حضرتِ جوشؔ ملیح آبادی کا مدیون و مقروض ہوں۔ یہ بات بھی ان کہی نہیں رہنی چاہیے کہ یوسفی نے بھی میرے اردو کافی حد تک سنواری اور مجھے اس قابل بنایا کہ میں آج اردو میں یہ مضمون لکھ سکوں۔ میرا نہیں خیال کہ اردو میرے لیے یوسفی کو پڑھے بغیر اتنی آسان ثابت ہوتی۔ قابلِ ذکر ہے کہ میں نے یادوں کی بارات کے بعد مشتاق احمد یوسفی کی "زرگزشت" کا مطالعہ شروع کیا تھا جس میں مجھے لغت کے علاوہ اردو اور انگریزی تاریخی کتب بھی ساتھ لے کر بیٹھنا پڑی تھیں۔ وعلیٰ ھٰذالقیاس!