محمد وارث
لائبریرین
یہ تحریر اپنے بلاگ کیلیئے لکھی ہے، سوچا یہاں بھی دوستوں کے ساتھ شیئر کردوں۔
--------------
وہ بھی ایک عجیب دن تھا۔ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے گھر واپس آتے ہوئے نہ جانے جی میں کیا آئی کہ میں نے اپنی سائیکل کا رُخ اردو بازار کی طرف موڑ لیا۔
ان دنوں میں گیارھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور اپنے کالج کی لائبریری جب پہلی بار دیکھی تو دیکھتا ہی رہ گیا کہ دنیا میں ایک ہی جگہ اتنی کتابیں بھی ہوتی ہیں، ناول اور کہانیاں تو خیر میں بچپن سے ہی پڑھا کرتا تھا لیکن اردو ادب سے صحیح شناسائی کالج میں پہنچ کر ہوئی اور وہ بھی اتفاقاً۔ ہوا کچھ یوں کہ میرے ایک اسکول کے دوست، جو کالج میں بھی ساتھ ہی تھا، کی بڑی بہن کو کرنل محمد خان کی کتاب "بجنگ آمد" درکار تھی جو کہ انکے کالج کی لائبریری میں نہیں تھی، انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اپنے کالج میں پتا کرو، اور بھائی صاحب نے مجھے پکڑا کہ چلو لائبریری، خیر وہ کتاب مل گئی لیکن واپس کرنے سے پہلے میں نے بھی پڑھ ڈالی۔
اس کتاب کا پڑھنا تھا کہ بس گویا دبستان کھل گیا، اسکے بعد میں نے پہلے کرنل محمد خان کی اور بعد میں شفیق الرحمن کی تمام کتب لائبریری سے نکلوا کر پڑھ ڈالیں۔
خیر اردو بازار میں داخل ہوا تو ایک بُک اسٹور پر رک گیا اور کتابیں دیکھنے لگا، ایک کتاب نظر آئی "شناخت پریڈ"، یہ ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ہے اور شاید ان کی پہلی کتاب ہے، اسکی ورق گردانی کی تو اچھی لگی۔ میرے دل میں آیا کہ کتاب خریدنی چاہیئے لیکن ایک بڑا مسئلہ اسی وقت کھڑا ہو گیا، کتاب کی قیمت پچاس روپے تھی، سوچا پچاس لکھی ہوئی ہے شاید کم کر دیں، مالک سے بات کی، اس نے ایک دفع میرے چہرے کی طرف دیکھا اور دوسرے ہی لمحے کہا کہ اسکی قیمت کم نہیں ہو سکتی۔ مالک کی اس بے رحمانہ بات پر کیا کہہ سکتا تھا سوائے چپ رہنے کے۔ (خیر اب وہ مالک صاحب میرے اچھے خاصے شناسا ہیں اور تقریباً پچیس سے پنتیس فیصد رعایت بھی کر دیتے ہیں)۔
وہاں سے میں چلا تو آیا لیکن دل کتاب میں ہی اٹکا ہوا تھا، کافی دن اسی سوچ بچار میں گزارے کہ پچاس روپے کہاں سے لاؤں۔ ان دنوں میرا جیب خرچ پانچ روپے روزانہ تھا اور اگر دس دن پیسے جمع کرتا تو پچاس روپے جمع ہو جاتے اور کوشش بھی کی لیکن پیسے تھے کہ جمع ہو کر نہیں دیتے تھے (ویسے وہ اب بھی نہیں ہوتے)۔ بہت تیر مارا تو کچھ دنوں کے بعد میرے پاس پچیس روپے جمع ہو گئے لیکن اب بھی آدھی رقم کم تھی اور تمنا بیتاب۔
سوچ سوچ کر پاگل ہوتا رہا لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کتاب کیسے خریدوں کہ اللہ کی غیبی مدد پہنچ ہی گئی۔ ایک دن والد صاحب کی میز پر بیٹھا ہوا تھا کسی کام کیلیئے دراز کھولا تو اس میں ڈاک کے ٹکٹ نظر آئے اور ساتھ ہی ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ، میں نے سوچا اگر میں کچھ ڈاک ٹکٹ چرا لوں اور انہیں بیچ ڈالوں تو رقم مل جائے گی۔
پہلے تو ضمیر نے ملامت کیا کہ چوری بری چیز ہے لیکن پھر حضرتِ شیطان فوراً مدد کو آئے کہ کونسے برے کام کیلیئے چوری کرنی ہے، آخر کتاب ہی تو خریدنی ہے۔ میں نے پچیس روپے کے ڈاک ٹکٹ نکال لیے لیکن پھر خیال آیا کہ اپنے جمع کیئے ہوئے پیسے ضرور خرچ کرنے ہیں، اگر چوری کرنی ہی ہے تو پورے پیسوں کی کروں۔
سو نہایت ایمانداری سے گن کر پورے پچاس روپوں کے ڈاک ٹکٹ اٹھا لیئے، اب انہیں بیچنے کا مسئلہ درپیش تھا، اس وقت تو درکنار مجھے ابھی تک بھی کسی بھی چیز کو بیچنے کا تجربہ نہیں ہے لیکن شوق کے ہاتھوں مجبور تھا سو اسی وقت تیز تیز سائیکل چلاتا ہوا ڈاکخانے پہنچا، مجھے امید تھی کہ مجھے فوراً ہی رقم مل جائے گی لیکن ڈاکخانے میں بیٹھے کلرک نے مجھے سختی سے ڈانٹ دیا کہ یہاں یہ کام نہیں ہوتا۔ وہاں سے نامراد لوٹا تو اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اب کہاں جاؤں، کیا کروں۔
اسی سوچ بچار میں سائیکل چلا رہا تھا اور سڑک کے دونوں طرف دیکھتا بھی جا رہا تھا کہ کوئی ڈاکخانہ نظر آئے، بالآخر کچہری روڈ پر ایک چھوٹا سے ڈاکخانہ نظر آیا، وہاں گیا تو ایک جہاں دیدہ بلکہ گرم و سرد چشیدہ، گرگِ باراں دیدہ قسم کے بزرگ وہاں بیٹھے تھے، مدعا بیان کیا تو اپنی موٹے موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے سے مجھے گھورا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے لے لوں گا لیکن بیس روپے دونگا، میں نے التجا کی کہ جناب پچاس روپے کے ٹکٹ ہیں کچھ تو زیادہ عنایت فرمائیں، خیر وہ انکے پچیس روپے دینے پر راضی ہو گئے۔
ٹکٹیں چوری کرتے وقت میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ پچاس روپے پورے مل جائیں گے لیکن اس دن صحیح اندازہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں مجبوریاں کیسے خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ اب کل ملا کر میرے پاس پچاس روپے پورے تھے سو فوراً اردو بازار گیا اور چین اس وقت ملا جب "شناخت پریڈ" پڑھ ڈالی۔
یہ ایک معمولی واقعہ ہی سہی، لیکن آج بیس برس بعد بھی جب اس واقعے کے متعلق سوچتا ہوں تو افسوس بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی، افسوس تو ظاہر ہے کہ چوری کا ہوتا ہے اور خوشی اس بات کی اس دن جب سائیکل کا رخ اردو بازار کی طرف موڑا تھا تو بس میری زندگی کا اپنا رخ بھی ایک ایسی جانب مڑ گیا کہ اس کے آگے ایک بحرِ بیکراں تھا، اسکے بعد کتابیں خریدنے اور پڑھنے کی ایسی عادت پڑی کہ یہ مشغلہ شاید اب موت ہی مجھ سے چھڑا سکے۔
--------------
وہ بھی ایک عجیب دن تھا۔ اسلامیہ کالج سیالکوٹ سے گھر واپس آتے ہوئے نہ جانے جی میں کیا آئی کہ میں نے اپنی سائیکل کا رُخ اردو بازار کی طرف موڑ لیا۔
ان دنوں میں گیارھویں جماعت میں پڑھتا تھا اور اپنے کالج کی لائبریری جب پہلی بار دیکھی تو دیکھتا ہی رہ گیا کہ دنیا میں ایک ہی جگہ اتنی کتابیں بھی ہوتی ہیں، ناول اور کہانیاں تو خیر میں بچپن سے ہی پڑھا کرتا تھا لیکن اردو ادب سے صحیح شناسائی کالج میں پہنچ کر ہوئی اور وہ بھی اتفاقاً۔ ہوا کچھ یوں کہ میرے ایک اسکول کے دوست، جو کالج میں بھی ساتھ ہی تھا، کی بڑی بہن کو کرنل محمد خان کی کتاب "بجنگ آمد" درکار تھی جو کہ انکے کالج کی لائبریری میں نہیں تھی، انہوں نے اپنے بھائی سے کہا کہ اپنے کالج میں پتا کرو، اور بھائی صاحب نے مجھے پکڑا کہ چلو لائبریری، خیر وہ کتاب مل گئی لیکن واپس کرنے سے پہلے میں نے بھی پڑھ ڈالی۔
اس کتاب کا پڑھنا تھا کہ بس گویا دبستان کھل گیا، اسکے بعد میں نے پہلے کرنل محمد خان کی اور بعد میں شفیق الرحمن کی تمام کتب لائبریری سے نکلوا کر پڑھ ڈالیں۔
خیر اردو بازار میں داخل ہوا تو ایک بُک اسٹور پر رک گیا اور کتابیں دیکھنے لگا، ایک کتاب نظر آئی "شناخت پریڈ"، یہ ڈاکٹر یونس بٹ کی کتاب ہے اور شاید ان کی پہلی کتاب ہے، اسکی ورق گردانی کی تو اچھی لگی۔ میرے دل میں آیا کہ کتاب خریدنی چاہیئے لیکن ایک بڑا مسئلہ اسی وقت کھڑا ہو گیا، کتاب کی قیمت پچاس روپے تھی، سوچا پچاس لکھی ہوئی ہے شاید کم کر دیں، مالک سے بات کی، اس نے ایک دفع میرے چہرے کی طرف دیکھا اور دوسرے ہی لمحے کہا کہ اسکی قیمت کم نہیں ہو سکتی۔ مالک کی اس بے رحمانہ بات پر کیا کہہ سکتا تھا سوائے چپ رہنے کے۔ (خیر اب وہ مالک صاحب میرے اچھے خاصے شناسا ہیں اور تقریباً پچیس سے پنتیس فیصد رعایت بھی کر دیتے ہیں)۔
وہاں سے میں چلا تو آیا لیکن دل کتاب میں ہی اٹکا ہوا تھا، کافی دن اسی سوچ بچار میں گزارے کہ پچاس روپے کہاں سے لاؤں۔ ان دنوں میرا جیب خرچ پانچ روپے روزانہ تھا اور اگر دس دن پیسے جمع کرتا تو پچاس روپے جمع ہو جاتے اور کوشش بھی کی لیکن پیسے تھے کہ جمع ہو کر نہیں دیتے تھے (ویسے وہ اب بھی نہیں ہوتے)۔ بہت تیر مارا تو کچھ دنوں کے بعد میرے پاس پچیس روپے جمع ہو گئے لیکن اب بھی آدھی رقم کم تھی اور تمنا بیتاب۔
سوچ سوچ کر پاگل ہوتا رہا لیکن کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کتاب کیسے خریدوں کہ اللہ کی غیبی مدد پہنچ ہی گئی۔ ایک دن والد صاحب کی میز پر بیٹھا ہوا تھا کسی کام کیلیئے دراز کھولا تو اس میں ڈاک کے ٹکٹ نظر آئے اور ساتھ ہی ذہن میں ایک شیطانی منصوبہ، میں نے سوچا اگر میں کچھ ڈاک ٹکٹ چرا لوں اور انہیں بیچ ڈالوں تو رقم مل جائے گی۔
پہلے تو ضمیر نے ملامت کیا کہ چوری بری چیز ہے لیکن پھر حضرتِ شیطان فوراً مدد کو آئے کہ کونسے برے کام کیلیئے چوری کرنی ہے، آخر کتاب ہی تو خریدنی ہے۔ میں نے پچیس روپے کے ڈاک ٹکٹ نکال لیے لیکن پھر خیال آیا کہ اپنے جمع کیئے ہوئے پیسے ضرور خرچ کرنے ہیں، اگر چوری کرنی ہی ہے تو پورے پیسوں کی کروں۔
سو نہایت ایمانداری سے گن کر پورے پچاس روپوں کے ڈاک ٹکٹ اٹھا لیئے، اب انہیں بیچنے کا مسئلہ درپیش تھا، اس وقت تو درکنار مجھے ابھی تک بھی کسی بھی چیز کو بیچنے کا تجربہ نہیں ہے لیکن شوق کے ہاتھوں مجبور تھا سو اسی وقت تیز تیز سائیکل چلاتا ہوا ڈاکخانے پہنچا، مجھے امید تھی کہ مجھے فوراً ہی رقم مل جائے گی لیکن ڈاکخانے میں بیٹھے کلرک نے مجھے سختی سے ڈانٹ دیا کہ یہاں یہ کام نہیں ہوتا۔ وہاں سے نامراد لوٹا تو اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اب کہاں جاؤں، کیا کروں۔
اسی سوچ بچار میں سائیکل چلا رہا تھا اور سڑک کے دونوں طرف دیکھتا بھی جا رہا تھا کہ کوئی ڈاکخانہ نظر آئے، بالآخر کچہری روڈ پر ایک چھوٹا سے ڈاکخانہ نظر آیا، وہاں گیا تو ایک جہاں دیدہ بلکہ گرم و سرد چشیدہ، گرگِ باراں دیدہ قسم کے بزرگ وہاں بیٹھے تھے، مدعا بیان کیا تو اپنی موٹے موٹے شیشوں والی عینک کے پیچھے سے مجھے گھورا اور ساتھ ہی ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے لے لوں گا لیکن بیس روپے دونگا، میں نے التجا کی کہ جناب پچاس روپے کے ٹکٹ ہیں کچھ تو زیادہ عنایت فرمائیں، خیر وہ انکے پچیس روپے دینے پر راضی ہو گئے۔
ٹکٹیں چوری کرتے وقت میں تو یہی سمجھ رہا تھا کہ پچاس روپے پورے مل جائیں گے لیکن اس دن صحیح اندازہ ہوا کہ ہمارے معاشرے میں مجبوریاں کیسے خریدی اور بیچی جاتی ہیں۔ اب کل ملا کر میرے پاس پچاس روپے پورے تھے سو فوراً اردو بازار گیا اور چین اس وقت ملا جب "شناخت پریڈ" پڑھ ڈالی۔
یہ ایک معمولی واقعہ ہی سہی، لیکن آج بیس برس بعد بھی جب اس واقعے کے متعلق سوچتا ہوں تو افسوس بھی ہوتا ہے اور خوشی بھی، افسوس تو ظاہر ہے کہ چوری کا ہوتا ہے اور خوشی اس بات کی اس دن جب سائیکل کا رخ اردو بازار کی طرف موڑا تھا تو بس میری زندگی کا اپنا رخ بھی ایک ایسی جانب مڑ گیا کہ اس کے آگے ایک بحرِ بیکراں تھا، اسکے بعد کتابیں خریدنے اور پڑھنے کی ایسی عادت پڑی کہ یہ مشغلہ شاید اب موت ہی مجھ سے چھڑا سکے۔