میں آئینہ ہوں وہ میرا خیال رکھتی تھی ۔۔۔ شاہد زکی

غزل قاضی

محفلین
میں آئینہ ہوں وہ میرا خیال رکھتی تھی
میں ٹوٹتا تھا تو چُن کر سنبھال رکھتی تھی

ہر ایک مسئلے کا حل نکال رکھتی تھی
ذہین تھی مجھے حیرت میں ڈال رکھتی تھی

میں جب بھی ترکِ تعلق کی بات کرتا تھا
وہ روکتی تھی مجھے کل پہ ٹال رکھتی تھی

وہ میرے درد کو چُنتی تھی اپنی پوروں سے
وہ میرے واسطے خُود کا نِڈھال رکھتی تھی

وہ ڈوبنے نہیں دیتی تھی دُکھ کے دریا میں
میرے وجود کی ناؤ اُچھال رکھتی تھی

دُعائیں اُس کی بَلاؤں کو روک لیتی تھیں
وہ میرے چار سُو ہاتھوں کی ڈھال رکھتی تھی

اِک ایسی دُھن کہ نہیں پھر کبھی سُنی میں نے
وہ مُنفرد سا ہنسی میں کمال رکھتی تھی

اُسے ندامتیں میری کہاں ٌگوارہ تھیں
وہ میرے واسطے آساں سوال رکھتی تھی

بچھڑ کے اُس سے میں دُنیا کی ٹھوکروں میں ہوں
وہ پاس تھی تو مجھے لازاوال رکھتی تھی

وہ مُنتظر مِری رہتی تھی دھوپ میں شاہد
میں لوٹتا تھا تو چھاؤں نکال رکھتی تھی

شاہد زکی از کتاب ۔ خوابوں سے خالی آنکھیں

نوٹ : یہ شاہد ےکی صاحب کا کلام ہے ۔ جو کہ انٹر نیٹ پر ۔ محسن نقوی کے کلام ۔ سے منسوب کیا جاتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Shahid Zaki: ghazal ji mamnoon hn k ap ne meri itni purani ghazal yad rakhi.ye meri he ghazal hai or meri kitab KHOABON SE KHALI ANKHAIN mn moujood hai.
 

طارق شاہ

محفلین
غزل جی!
شاہد زکی صاحب سے اگر اب بھی بات ہو، یا یہ ممکن ہو سکے تو اُن سے میرا سلام کہنے کے بعد
مطلع کی طرف کچھ یوں توجہ دلانا کہ یہ contradictory سا ہے
میں آئینہ ہُوں وہ میرا خیال رکھتی تھی
میں ٹوٹتا تھا تو چُن کر سنبھال رکھتی تھی

یہ ابہام لئے ہے کہ میں اب بھی ہوں ، وہ نہیں ہے ، تھی.
یا پھر یہ کہ اب بھی ہے لیکن خیال نہیں رکھتی، بھی ذہن میں آتا ہے
میں ٹوٹتا تھا تو ...... یوں کہنے سے ایک بار سے زائد ٹوٹنا ظاہر ہوتا ہے
چُن کر سنبھال رکھتی تھی سے ، کوئی علاج یا جوڑنے کا عمل ظاہر نہیں ہوتا،
اور چُننا ٹوٹ کر بکھرنا ( being shattered) ظاہر کرتا ہے
یہ صورت ، یعنی آئینہ کا بکھرنا( shatter ہونا) ایک بار ہی ہوسکتا ہے
once you shattered you done, you kapoot.

میں آئینہ ہُوں، وہ میرا خیال رکھتی تھی ..
سے کسی کو قائل کرنے والا مفہوم بھی مِلتا ہے کہ: خیال تمہارا نہیں میرا رکھتی تھی ، کیونکہ میں آئینہ ہوں تم آئینہ نہیں ہو

مجھ آئینہ کا وہ ہر پل خیال رکھتی تھی
رگڑ سے، ٹوٹ سے، مجھ کو سنبھال رکھتی تھی
.......
اِس آئینہ کا وہ ہر پل خیال رکھتی تھی
رگڑ سے، ٹوٹ سے، اِس کو سنبھال رکھتی تھی

یہ متبادل نہیں، مثال کے طور پر لکھا ہے
کچھ بھی اس قسم کا ہو سکتا تھا :)
..............
کچھ اور اشعار پر بھی خیال جُداگانہ اور اختلافانہ رکھتا ہوں:

دُعائیں اُس کی بَلاؤں کو روک لیتی تھیں
وہ میرے چار سُو ہاتھوں کی ڈھال رکھتی تھی

جب دعائیں روکتی تھیں تو پھر چار سو ہاتھوں کے ڈھال؟
...........
وہ مُنفرد سا ہنسی میں کمال رکھتی تھی
سے مفہوم یوں نکلتا ہےکہ اپنی ہر بار کی ہنسی میں منفرد آواز کی حامل تھیں، جبکہ میرا خیال ہے زکی صاحب کہنا چاہتےتھے کہ:
وہ انفرادی ہنسی کا کمال رکھتی تھی
...........
خیر جو باتیں پڑھنے سے ذہن میں آئیں اجتماعی مفاد کے تناظر میں لکھ دیا
ایک بار پھر سے غزل شیئر کرنے پر تشکّر کہ ندرت بیان سبحان الله
بہت خوش رہیں صاحبہ :)
 

غزل قاضی

محفلین
معذرت کے تاخیر سے یہ میسج دیکھا ہے ۔۔ ان شاء اللہ آپ کا پیغام ان تک ضرور پہنچا دوں گی ۔ سلامت رہیے ۔ :)
 
Top