کاشفی
محفلین
غزل
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
میں الفت کے، وہ حسن کے جوش میں
نہ میں ہوش میں ہوں ، نہ وہ ہوش میں
لٹک کر وہ زلف آئی ہے تاکمر
کہ لیلٰی ہے مجنوں کے آغوش میں
نہ اُٹھو ابھی بزم سے مے کشو
ہمیں بھی تو آلینے دو ہوش میں
نکل آنکھ سے اشک ٹھہرا ہے کیا
گہر ہو کبھی اس بنا گوش میں
کہیں لعل ہم کیا لب یار کو
کہ ہے فرق گو یاد خاموش میں
قدم پر جو گرنے لگا غش میں مَیں
کہا ہٹ کے آؤ ذرا ہوش میں
بہت دختر رز سے گرمی نہ کر
کہیں آئے واعظ نہ وہ جو ش میں
نہ کر ساقیا اب تو قحط شراب
نہیں جان رند قدح نوش میں
پلا وصل میں مے نہ ان کو امیر
مزہ کیا رہے جب نہ وہ ہوش میں
(امیر مینائی رحمتہ اللہ علیہ)
میں الفت کے، وہ حسن کے جوش میں
نہ میں ہوش میں ہوں ، نہ وہ ہوش میں
لٹک کر وہ زلف آئی ہے تاکمر
کہ لیلٰی ہے مجنوں کے آغوش میں
نہ اُٹھو ابھی بزم سے مے کشو
ہمیں بھی تو آلینے دو ہوش میں
نکل آنکھ سے اشک ٹھہرا ہے کیا
گہر ہو کبھی اس بنا گوش میں
کہیں لعل ہم کیا لب یار کو
کہ ہے فرق گو یاد خاموش میں
قدم پر جو گرنے لگا غش میں مَیں
کہا ہٹ کے آؤ ذرا ہوش میں
بہت دختر رز سے گرمی نہ کر
کہیں آئے واعظ نہ وہ جو ش میں
نہ کر ساقیا اب تو قحط شراب
نہیں جان رند قدح نوش میں
پلا وصل میں مے نہ ان کو امیر
مزہ کیا رہے جب نہ وہ ہوش میں