سعیدالرحمن سعید
معطل
میں اپنی آگ میں کندن بنا تو ڈرنے لگا
زیاں کا زہر مری روح میں اترنے لگا
چڑھا وہ درد کا دریا کہ خار و خس کی طرح
مرا وجود مرے روبرو بکھرنے لگا
جھلس رہا ہوں زمانے کی دوپہر میں مگر
ان آنسؤؤں سے گل ِ زندگی نکھرنے لگا
چراغِ زخم سے کرنوں کی نہریں پھوٹی ہیں
افق میں ڈوب کے سورج مرا ابھرنے لگا
پلٹ گیا وہ نقاب ِ رخ ِ حیات سعید
جو دل سے درد کا جھونکا کوئی گزرنے لگا
سعید الرحمن سعید
زیاں کا زہر مری روح میں اترنے لگا
چڑھا وہ درد کا دریا کہ خار و خس کی طرح
مرا وجود مرے روبرو بکھرنے لگا
جھلس رہا ہوں زمانے کی دوپہر میں مگر
ان آنسؤؤں سے گل ِ زندگی نکھرنے لگا
چراغِ زخم سے کرنوں کی نہریں پھوٹی ہیں
افق میں ڈوب کے سورج مرا ابھرنے لگا
پلٹ گیا وہ نقاب ِ رخ ِ حیات سعید
جو دل سے درد کا جھونکا کوئی گزرنے لگا
سعید الرحمن سعید