امین شارق
محفلین
الف عین ظہیراحمدظہیر یاسر شاہ محمّد احسن سمیع :راحل:
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
میں ایسا پُھول ہوں جس کو چمن سے خوف آتا ہے
مجھے رہنے دو تنہا انجمن سے خوف آتا ہے
اُمیدِ زندگانی مت دلانا اے مرے ہمدم
اندھیروں کا میں عادی ہوں کرن سے خوف آتا ہے
مسافر راہِ حق کے کب ہیں ڈرتے آزمائش سے؟
مجاہد وہ نہیں ہے جس کو رن سے خوف آتا ہے
فقیروں کے لباسوں سے وفا کی بُو مہکتی ہے
محلوں کے مکیں کے پیرہن سے خوف آتا ہے
کہیں وہ عشقِ شیریں میں یہ صحرا کھود نا ڈالے
مجھے فرہاد کے دیوانے پن سے خوف آتا ہے
جو دھوکے پائے میں نے زیست میں یاروں سے کھائے اب
مجھے اے دوست تیرے حُسنِ ظن سے خوف آتا ہے
ملامت بے ضمیری کرتی رہتی ہے مجھے ہر پل
مجھے تن کی نہیں من کی تھکن سے خوف آتا ہے
نہ جانے کیسے کیسے شعر کہہ دیتا ہوں میں شارؔق
نہ جانے کیوں مجھے اپنے سخن سے خوف آتا ہے
مجھے رہنے دو تنہا انجمن سے خوف آتا ہے
اُمیدِ زندگانی مت دلانا اے مرے ہمدم
اندھیروں کا میں عادی ہوں کرن سے خوف آتا ہے
مسافر راہِ حق کے کب ہیں ڈرتے آزمائش سے؟
مجاہد وہ نہیں ہے جس کو رن سے خوف آتا ہے
فقیروں کے لباسوں سے وفا کی بُو مہکتی ہے
محلوں کے مکیں کے پیرہن سے خوف آتا ہے
کہیں وہ عشقِ شیریں میں یہ صحرا کھود نا ڈالے
مجھے فرہاد کے دیوانے پن سے خوف آتا ہے
جو دھوکے پائے میں نے زیست میں یاروں سے کھائے اب
مجھے اے دوست تیرے حُسنِ ظن سے خوف آتا ہے
ملامت بے ضمیری کرتی رہتی ہے مجھے ہر پل
مجھے تن کی نہیں من کی تھکن سے خوف آتا ہے
نہ جانے کیسے کیسے شعر کہہ دیتا ہوں میں شارؔق
نہ جانے کیوں مجھے اپنے سخن سے خوف آتا ہے