میں ایک شب ہوں اماوس کی تم ضیا دے دو

طالش طور

محفلین
سر الف عین
اور دیگر احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

دل و نگاہ کی مجھکو کبھی عطا دے دو
کرم کرو ذرا بیمار کو شفا دے دو

یہ سرد آہیں جلاتی ہیں میری نس نس کو
قریب آؤ کہ سانسوں کی تم صبا دے دو

کبھی تو زلف کے بادل گھنے سے پھیلاؤ
تو ان کی چھاؤں میں پل بھر مجھے جگہ دے دو

مرے لئےکبھی ہونٹوں کے جام چھلکاؤ
مئے دہن سے مرے درد کو دوا دے دو

چلے بھی آؤ مکمل جھلک لئے اپنی
میں ایک شب ہوں اماوس کی تم ضیا دے دو

تری نگاہ کی مستی نشہ سا کر ڈالے
نہ گر پڑوں مجھے بانہوں کا آسرا دے دو

نجانے کب سے کہاں جا رہا ہے یہ طالش
کہ موڑ اس کے سفر کو تم اب نیا دے دو
 

الف عین

لائبریرین
دل و نگاہ کی مجھکو کبھی عطا دے دو
کرم کرو ذرا بیمار کو شفا دے دو
... ٹھیک ہے

یہ سرد آہیں جلاتی ہیں میری نس نس کو
قریب آؤ کہ سانسوں کی تم صبا دے دو
... دوسرے مصرعے میں 'کہ' کی معنویت واضح نہیں، اگر محض بیان ہی ہو تو
قریب آ کے تم انفاس کی صبا دے دو
بہتر ہو گا

کبھی تو زلف کے بادل گھنے سے پھیلاؤ
تو ان کی چھاؤں میں پل بھر مجھے جگہ دے دو
... پہلے مصرع کا محاورہ بول چال کا تو ہے لیکن شعری اظہار میں مستعمل نہیں
دوسرے مصرعے میں 'تو' سے مخصوص مطلب نہ ہو تو اسے 'اور' سے بدل دیں

مرے لئےکبھی ہونٹوں کے جام چھلکاؤ
مئے دہن سے مرے درد کو دوا دے دو
... ٹھیک، درد کی دوا کیسا رہے گا؟

چلے بھی آؤ مکمل جھلک لئے اپنی
میں ایک شب ہوں اماوس کی تم ضیا دے دو
... اماوس کی ضیا؟ یہ تو سمجھ میں نہیں آ سکا

تری نگاہ کی مستی نشہ سا کر ڈالے
نہ گر پڑوں مجھے بانہوں کا آسرا دے دو
... پہلے مصرع میں تمنائی صیغہ بھی لگتا ہے، اسے سادہ ہی رکھو
نشہ کا درست تلفظ ش پر شد کے ساتھ ہے

نجانے کب سے کہاں جا رہا ہے یہ طالش
کہ موڑ اس کے سفر کو تم اب نیا دے دو
.. درست
 

سید عاطف علی

لائبریرین
عطا کے معنی در اصل دینے کے ہیں ۔ اس لیے عطا کرنا استعمال ہو تا ہے ۔ عطا دینا کچھ کمزور ترکیب ہے۔ نشہ والے شعر میں شتر گر بگی بھی ہے۔
 

طالش طور

محفلین
دل و نگاہ کی مجھکو کبھی عطا دے دو
کرم کرو ذرا بیمار کو شفا دے دو
... ٹھیک ہے

یہ سرد آہیں جلاتی ہیں میری نس نس کو
قریب آؤ کہ سانسوں کی تم صبا دے دو
... دوسرے مصرعے میں 'کہ' کی معنویت واضح نہیں، اگر محض بیان ہی ہو تو
قریب آ کے تم انفاس کی صبا دے دو
بہتر ہو گا

کبھی تو زلف کے بادل گھنے سے پھیلاؤ
تو ان کی چھاؤں میں پل بھر مجھے جگہ دے دو
... پہلے مصرع کا محاورہ بول چال کا تو ہے لیکن شعری اظہار میں مستعمل نہیں
دوسرے مصرعے میں 'تو' سے مخصوص مطلب نہ ہو تو اسے 'اور' سے بدل دیں

مرے لئےکبھی ہونٹوں کے جام چھلکاؤ
مئے دہن سے مرے درد کو دوا دے دو
... ٹھیک، درد کی دوا کیسا رہے گا؟

چلے بھی آؤ مکمل جھلک لئے اپنی
میں ایک شب ہوں اماوس کی تم ضیا دے دو
... اماوس کی ضیا؟ یہ تو سمجھ میں نہیں آ سکا

تری نگاہ کی مستی نشہ سا کر ڈالے
نہ گر پڑوں مجھے بانہوں کا آسرا دے دو
... پہلے مصرع میں تمنائی صیغہ بھی لگتا ہے، اسے سادہ ہی رکھو
نشہ کا درست تلفظ ش پر شد کے ساتھ ہے

نجانے کب سے کہاں جا رہا ہے یہ طالش
کہ موڑ اس کے سفر کو تم اب نیا دے دو
.. درست


یہ سرد آہیں جلاتی ہیں میری نس نس کو
قریب آ کے تم انفاس کی صبا دے دو

کبھی تو زلف کو شانوں پہ اپنے بکھراؤ
اور ان کی چھاؤں میں پل بھر مجھے جگہ دے دو

مرے لیے کبھی ہونٹوں کے جام چھلکاؤ
مئے دہن سے کبھی درد کی دوا دے دو

چلے بھی آؤ مکمل جھلک لیے اپنی
میں ایک شب ہوں اماوس کی , تم ضیأ دے دو

تمھاری آنکھ کی مستی میں کوئی نشہ ہے
نہ گر پڑوں مجھے بانہوں کا آسرا دے دو
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ سرد آہیں جلاتی ہیں میری نس نس کو
قریب آ کے تم انفاس کی صبا دے دو

کبھی تو زلف کو شانوں پہ اپنے بکھراؤ
اور ان کی چھاؤں میں پل بھر مجھے جگہ دے دو

مرے لیے کبھی ہونٹوں کے جام چھلکاؤ
مئے دہن سے کبھی درد کی دوا دے دو

چلے بھی آؤ مکمل جھلک لیے اپنی
میں ایک شب ہوں اماوس کی , تم ضیأ دے دو

تمھاری آنکھ کی مستی میں کوئی نشہ ہے
نہ گر پڑوں مجھے بانہوں کا آسرا دے دو
درست ہے اب
 
Top