میں ا ب زخم اپنے دکھانے لگا ہوں

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بحر:
متقارب مثمن سالم​
اشعار:
میں اپنے زخم اب دکھانے لگا ہوں​
ہے جو حال دل کا سنانے لگا ہوں​
محبت پہ نفرت کی بنیاد رکھ کر​
میں خط اس کے سچ میں جلانے لگا ہوں​
کبھی میری تربت پہ آ جانا تم بھی​
ہجر میں ترے جاں سے جانے لگا ہوں​
مرے ہم نشینو! بجھا دو دئیے سب​
میں سورج کو سورج بنانے لگا ہوں​
عجب زخم دئیے محبت نے مجھ کو​
میں زخموں پہ مرہم لگانے لگا ہوں​
کنارا کشی کر لے مری ذات سے تُو​
میں خود سے اب خود کو چھپانے لگا ہوں​
فنا بھی ہوں جاؤں تو کس بات کا غم​
میں اک رسم ہی تو نبھانے لگا ہوں​
 

محمد وارث

لائبریرین
پہلے شعر میں زخم کا غلط تلفظ ہے یہ زخ،م ہے یعنی فاع یا درد کے وزن پر۔ تیسرے شعر میں ہجر کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہے یہ بھی فاع ہے۔ پانچویں شعر میں دیے، آپ نے یے کی تشدید کے ساتھ یعنی دی یے فعلن باندھا ہے، یہ دیے یعنی چمن کے وزن پر ہے۔ کنارا کشی کر لے مری ذات سے تُو، کر لے اور مری کی وجہ سے بے وزن ہے۔آخری شعر میں ہو کی جگہ غلطی سے ہوں لکھا گیا ہے۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اب دیکھیں وارث بھائی، پہلا تیسرا اور پانچواں شعر، کیا صحیح ہے؟

میں اب زخم اپنے دکھانے لگا ہوں
ہے جو حال دل کا سنانے لگا ہوں
کبھی میری تربت پہ آجانا تم بھی
ترے ہجر میں جاں سے جانے لگا ہوں
مرے یارو! گاؤ خوشی کے ترانے
میں سورج کو سورج بنانے لگا ہوں
 

متلاشی

محفلین
اب دیکھیں وارث بھائی، پہلا تیسرا اور پانچواں شعر، کیا صحیح ہے؟

میں اب زخم اپنے دکھانے لگا ہوں
ہے جو حال دل کا سنانے لگا ہوں
کبھی میری تربت پہ آجانا تم بھی
ترے ہجر میں جاں سے جانے لگا ہوں
مرے یارو! گاؤ خوشی کے ترانے
میں سورج کو سورج بنانے لگا ہوں

بلال بھائی اچھی غزل ہے ۔۔۔
استاذگرامی اعجاز عبید صاحب اور دیگر چند شعرا مصرع کے شروع میں ہے، ہوں، وغیرہ لگانا پسند نہیں کرتے ۔۔۔! امید ہے اس پر نظرِ ثانی فرمائیں گے ۔۔۔!
 

متلاشی

محفلین
اس کے علاوہ یہ مصرع بھی بے وزن ہو رہا ہے ۔۔۔
کنارا کشی کر لے مری ذات سے تُو
لے فالتو ہے ۔۔۔!
میں خود سے اب خود کو چھپانے لگا ہوں
اس کو اس طرح کردیں تو وزن میں ہوجائے گا۔
میں اب خود کو خود سے چھپانے لگا ہوں
یا
میں خود کو خودی سے چھپانے لگا ہوں ۔۔۔!
عجب زخم دئیے محبت نے مجھ کو
یہ مصرعہ بھی بے وزن ہورہا ہے۔۔۔اس کویوں کردیں تو وزن میں ہوجائے گا۔۔!
عجب پھر دئیے زخم الفت نے مجھ کو
باقی مزید اصلاح کے لئے استاذ گرامی جناب اعجاز عبید صاحب کا انتظار کریں ۔۔۔!
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اس کے علاوہ یہ مصرع بھی بے وزن ہو رہا ہے ۔۔۔
کنارا کشی کر لے مری ذات سے تُو
لے فالتو ہے ۔۔۔ !
میں خود سے اب خود کو چھپانے لگا ہوں
اس کو اس طرح کردیں تو وزن میں ہوجائے گا۔
میں اب خود کو خود سے چھپانے لگا ہوں
یا
میں خود کو خودی سے چھپانے لگا ہوں ۔۔۔ !
عجب زخم دئیے محبت نے مجھ کو
یہ مصرعہ بھی بے وزن ہورہا ہے۔۔۔ اس کویوں کردیں تو وزن میں ہوجائے گا۔۔!
عجب پھر دئیے زخم الفت نے مجھ کو
باقی مزید اصلاح کے لئے استاذ گرامی جناب اعجاز عبید صاحب کا انتظار کریں ۔۔۔ !


آپ کی تجا ویز پسند آئیں، دیکھتے ہیں اعجاز صاحب کیا کہتے ہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
اس کے علاوہ یہ مصرع بھی بے وزن ہو رہا ہے ۔۔۔
کنارا کشی کر لے مری ذات سے تُو
لے فالتو ہے ۔۔۔ !
درست
میں خود سے اب خود کو چھپانے لگا ہوں
اس کو اس طرح کردیں تو وزن میں ہوجائے گا۔
میں اب خود کو خود سے چھپانے لگا ہوں
یا
میں خود کو خودی سے چھپانے لگا ہوں ۔۔۔ !
یہاں در اصل ب کا اسقاط ہو رہا ہے، ذیشان کے مشورے میں پہلا مصرع رواں محسوس نہیں ہوتا۔ دوسرے میں ’خود کو خودی‘ کی خودی سے ’خود ہی ‘ والی بات کی وضاحت نہیں ہوتی۔ میرا مشورہ ہے
میں کود ہی سے خود کو چھپانے لگا ہوں
عجب زخم دئیے محبت نے مجھ کو
یہ مصرعہ بھی بے وزن ہورہا ہے۔۔۔ اس کویوں کردیں تو وزن میں ہوجائے گا۔۔!
عجب پھر دئیے زخم الفت نے مجھ کو
باقی مزید اصلاح کے لئے استاذ گرامی جناب اعجاز عبید صاحب کا انتظار کریں ۔۔۔ !
عجب پھر دئیے زخم الفت نے مجھ کو
بھی روانی طلب ہے۔ ’پھر‘ بھرتی کا ہے۔
عجب زخم الفت نے مجھ کو دئے ہیں
کہنے میں کیا حرج ہے؟
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
یعنی اب تک مجموعی طور پہ اس غزل کی شکل اس طرح بنی ہے۔
دوسرے مصرعے میں ہے جو کو جو ہے کر دیا ہے۔
میں اب زخم اپنے دکھانے لگا ہوں
جو ہے حال دل کا سنانے لگا ہوں​
محبت پہ نفرت کی بنیاد رکھ کر​
میں خط اس کے سچ میں جلانے لگا ہوں​
کبھی میری تربت پہ آ جانا تم بھی​
ترے ہجر میں جاں سے جانے لگا ہوں
مرے یارو! گاؤ خوشی کے ترانے
میں سورج کو سورج بنانے لگا ہوں​
عجب زخم الفت نے مجھ کو دیے ہیں
میں زخموں پہ مرہم لگانے لگا ہوں​
کنارا کشی کر مری ذات سے تُو
میں خود ہی سے خود کو چھپانے لگا ہوں
فنا بھی ہو جاؤں تو کس بات کا غم​
میں اک رسم ہی تو نبھانے لگا ہوں​
 

الف عین

لائبریرین
بس دو مصرعوں میں ابھی بھی مجھے اطمینان نہیں۔
میں خط اس کے سچ میں جلانے لگا ہوں
میں روانی کی کمی ہے۔ اور
فنا بھی ہو جاؤں تو کس بات کا غم
میں اک رسم ہی تو نبھانے لگا ہوں

میں ’ہُجاؤں‘ اور ’ہی توُ میں طویل تو کا کھنچنا اچھا نہیں لگ رہا۔ ان کی اصلاح کی بھی کوشش کرو
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بس دو مصرعوں میں ابھی بھی مجھے اطمینان نہیں۔
میں خط اس کے سچ میں جلانے لگا ہوں
میں روانی کی کمی ہے۔ اور
فنا بھی ہو جاؤں تو کس بات کا غم
میں اک رسم ہی تو نبھانے لگا ہوں

میں ’ہُجاؤں‘ اور ’ہی توُ میں طویل تو کا کھنچنا اچھا نہیں لگ رہا۔ ان کی اصلاح کی بھی کوشش کرو

جی استادِ محترم، کوشش کرتا ہوں۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اب دیکھیے ذرا۔ باقی آپ اصلاح کر دیجیے۔​

میں اب زخم اپنے دکھانے لگا ہوں
جو ہے حال دل کا سنانے لگا ہوں
محبت پہ نفرت کی بنیاد رکھ کر
میں مکتوبِ چاہت جلانے لگا ہوں
کبھی میری تربت پہ آ جانا تم بھی
ترے ہجر میں جاں سے جانے لگا ہوں
مرے یارو! گاؤ خوشی کے ترانے
میں سورج کو سورج بنانے لگا ہوں
عجب زخم الفت نے مجھ کو دیے ہیں
میں زخموں پہ مرہم لگانے لگا ہوں
کنارا کشی کر مری ذات سے تُو
میں خود ہی سے خود کو چھپانے لگا ہوں
مقدر ہے میرا فنا ہونا تجھ پر
میں اک رسمِ دنیا نبھانے لگا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
مکتوبِ چاہت غلط ترکیب ہے، کہ چاہت ہندی لفظ ہے۔ الفت کر دو تو درست ہو جاتا ہے۔ دوسرا مصرع درست ہے
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
مجموعی طور پہ غزل اس طرح ہو گئی ہے:
میں اب زخم اپنے دکھانے لگا ہوں
جو ہے حال دل کا سنانے لگا ہوں
محبت پہ نفرت کی بنیاد رکھ کر
میں مکتوبِ الفت جلانے لگا ہوں
کبھی میری تربت پہ آ جانا تم بھی
ترے ہجر میں جاں سے جانے لگا ہوں
مرے یارو! گاؤ خوشی کے ترانے
میں سورج کو سورج بنانے لگا ہوں
عجب زخم الفت نے مجھ کو دیے ہیں
میں زخموں پہ مرہم لگانے لگا ہوں
کنارا کشی کر مری ذات سے تُو
میں خود ہی سے خود کو چھپانے لگا ہوں
مقدر ہے میرا فنا ہونا تجھ پر
میں اک رسمِ دنیا نبھانے لگا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
فنی طور پر درست ہے، بس بہتری کی جانب کچھ مزید مشورے۔ مطلع میں
جو ہے حال دل کا سنانے لگا ہوں
میں ‘ہے حا‘ کی آوازیں ناگوار محسوس ہوتی ہیں۔ اس کو یوں کیا جا سکتا ہے
جو گزری ہے دل پر، سنانے لگا ہوں
اور یہ غلطی مجھ سے ہی ثھوٹ گئی تھی
کبھی میری تربت پہ آ جانا تم بھی
ترے ہجر میں جاں سے جانے لگا ہوں
دونوں صیغوں میں مطابقت ہونی چاہئے۔ اس کو یوں کیا جا سکتا ہے
کبھی تو بھی تربت پہ آ کر یہ دیکھے
 
Top