الف عین
لائبریرین
آج ہی مڈحف اقبال توصیفی نے یہ نظم مجھے دی ہے جو میں نے ٹائپ کر دی ہے۔ اور ان کا ایک سوال ہے۔۔احباب اس کے بارے میں سوچیں۔ کیا اس نظم میں شریعت اور دین کے لحاظ سے قابلِ اعتراض کچھ ہے تو نہیں۔ اگرچہ یہ نظم اقبال بھائی نے زبیر رضوی کے جریدے ذہنِ جدید میں بھیج دی ہے، لیکن اعتراض ہونے پر واپس منگوا لیں گے۔ نظم کا پس منظر منتو کا افسانہ ’بابو گوپی ناتھ‘ ہے۔ اور میں نے ابھی یہ افسانہ دوبارہ پڑھا ہے تو احساس ہوا کہ اس کا یہ جملہ:
’کون نہیں جانتا کہ رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کراتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔۔۔‘
بہر حال نظم حاضر ہے۔۔۔
مصحف اقبال توصیفی
میرے مولا
میں منٹو کا کردار نہیں
کسی زینت کا عاشق، شیدا
میں بابو گوپی ناتھ نہیں
مرے پاس تو اتنا دھن بھی نہیں۔۔
بس کچھ سانسوں کے سکّے ہیں
کچھ سجدے ہیں
۔۔۔۔ کسی ناز و ادا کے نکّڑ پر۔۔۔۔کسی کوٹھے پر
۔۔۔۔۔ کسی پیر فقیر کے تکئے پر
اب ان کو لُٹا کر کیسے ننگا ہو جاؤں۔۔۔
***
میرے مولا
وہ لوگ جو اپنے تاریک بدن کو تَج کر
اپنی اجلی روحوں کی روشنیوں میں
تیرے در تک پہنچے ہیں
مجھے ان لوگوں میں شامل کر دے
وہ جو پاس یہاں اک مسجد ہے۔۔۔ میں اس مسجد کی سیڑھی پر بیٹھوں
اور دعا کو ہاتھ اٹھاؤں۔۔ مولا!
میرے مولا! اپنے قدموں میں مجھ کو جگہ دے
اور وہیں کہیں۔۔ منٹو۔۔۔ بابو گوپی ناتھ اگر ہوں
مجھے ان سے ملا دے۔۔۔!!
’کون نہیں جانتا کہ رنڈی کے کوٹھے پر ماں باپ اپنی اولاد سے پیشہ کراتے ہیں اور مقبروں اور تکیوں میں انسان اپنے خدا سے۔۔۔‘
بہر حال نظم حاضر ہے۔۔۔
میں بابو گوپی ناتھ نہیں
مصحف اقبال توصیفی
میرے مولا
میں منٹو کا کردار نہیں
کسی زینت کا عاشق، شیدا
میں بابو گوپی ناتھ نہیں
مرے پاس تو اتنا دھن بھی نہیں۔۔
بس کچھ سانسوں کے سکّے ہیں
کچھ سجدے ہیں
۔۔۔۔ کسی ناز و ادا کے نکّڑ پر۔۔۔۔کسی کوٹھے پر
۔۔۔۔۔ کسی پیر فقیر کے تکئے پر
اب ان کو لُٹا کر کیسے ننگا ہو جاؤں۔۔۔
***
میرے مولا
وہ لوگ جو اپنے تاریک بدن کو تَج کر
اپنی اجلی روحوں کی روشنیوں میں
تیرے در تک پہنچے ہیں
مجھے ان لوگوں میں شامل کر دے
وہ جو پاس یہاں اک مسجد ہے۔۔۔ میں اس مسجد کی سیڑھی پر بیٹھوں
اور دعا کو ہاتھ اٹھاؤں۔۔ مولا!
میرے مولا! اپنے قدموں میں مجھ کو جگہ دے
اور وہیں کہیں۔۔ منٹو۔۔۔ بابو گوپی ناتھ اگر ہوں
مجھے ان سے ملا دے۔۔۔!!