محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
میں تم سے آگے ہوں مگر
چنگچی کی پیچھے والی سیٹ پر میں بیٹھ کر
جا رہا تھا ہلتے جلتے ، دھیرے دھیرے اپنے گھر
دیکھ کر ہر اک کو یہ آتا تھا میرے ہونٹ پر
’’سامنے ہو تم مرے ، میں تم سے آگے ہوں مگر‘‘
ایک رکشا آگیا یکدم نگاہوں کے حضور
دل میں اس سے یوں کہا مت کر تو اب اتنا غرور
تیرے بارہ بج گئے اور بچ گیا میرا بھی زر
’’سامنے ہو تم مرے ، میں تم سے آگے ہوں مگر‘‘
ایک دم سے آگئی پھر سامنے اک ٹیکسی
اس میں تھا اک شخص جس کے چہرے پر تھی بے حسی
اس کو ہنستا دیکھ کر میں نے کہا یہ مختصر
’’سامنے ہو تم مرے ، میں تم سے آگے ہوں مگر‘‘
آگئی جھنجھوڑنے کو دھاڑتی اک بس مجھے
ہولناکی پارہی اس کی بس بے بس مجھے
زیرِ لب فقرہ یہی تھا ، دل مگر تھا حلق پر
’’سامنے ہو تم مرے ، میں تم سے آگے ہوں مگر‘‘
کپڑے بھی پاکیزہ تھے اور دل بھی میرا خوب نیک
دفعۃً گزری ہے مجھ کو کرکے حیراں کار ایک
کہہ گئی گویا ، مجھے کیچڑ سے کرکے تربتر
’’سامنے ہو تم مرے ، میں تم سے آگے ہوں مگر‘‘
کرگئی شرمندہ مجھ کو میری ایسی گفتگو
ایک سگنل پر گدھا گاڑی جب آئی روبرو
سَرسَرؔی میں کہہ اٹھا اس پر پڑی جونہی نظر
’’سامنے ہو تم مرے ، میں تم سے آگے ہوں مگر‘‘