Noman Alam
محفلین
میں تو آینہ ہوں
از نعمان عالم ، خارکوف یوکرین ، مورخہ تین مئی سن دو ہزار تیرہ
میں تو آیینہ ہوں ٹوٹ کے بکھر جاؤں گا
تمہارا چہرہ ہزار آنکھوں کو پھر دکھاؤں گا (نعمان عالم )
کتے اور گھر کے مکینوں میں بنیادی فرق تو یہ ہوتا ہے کہ کتا گھر کے باہر کھڑا ، بیٹھا ہر آتے جاتے پہ بھونکتا رہتا ہے ، اسکا کام ہر نہ معلوم شخص پر بھونکنا ہوتا ہے چاہے وہ اس گھر کی چھت مرمت کرنے آیا ہو یعنی گھر کے فائدے کے واسطے ، اب مکینوں کا کردار کتے کے کردار سے بلکل مختلف ہوتا ہے ، گھر کے مکین دل و جان سے گھر کو صاف رکھتے ہیں ، پودوں کو پانی دیتے ہیں الغرض اگر سینکڑوں میل دور جا کر نوکری بھی کرنی پڑ جائے تو اس سے بھی نہیں کتراتے-
یہ بات سوچنے والی ہے کہ کہیں ہم گھر کے باہر بیٹھنے والے اور ہر اس شخص پر زبان کھولنے والے تو نہیں بن گئے جو اس گھر کے اچھائی چاہتا ہو ؟ ہم کھانے پینے اور دوسروں پر تنقید کرنے والی مشین بن چکے ہیں اپنی ذات کو چھوڑ کر ہر اس ذات پر لپکتے ہیں جو ہمیں ناگوار گزرنے والی بات کہ ڈالتا ہے -
پچھلی پانچ دہائیوں سے ہماری ذات کو ایک مخصوص پروپیگنڈا کے ذریعے امید کے لحاف میں ایسا لپیٹا جا چکا ہے کہ ہم ماسوائے اپنے کسی دوسرے کو خاطر میں ہی نہیں لا پاتے ، نماز ، روزے ، تسبیح ، بھارت ، اسرائیل ، امریکا ، کرکٹ ، جنت ، جہنم اور کئی دوسرے ایسے نفسیاتی بیج ہیں جو ہمارے ذہنوں کو پستی سے بلندی کی طرف کے سفر کو روکنے کے لیے بو دیے گئے ہیں ، ایک عام پاکستانی کے ذہن میں اپنے بچوں کو کھانا کھلانے سے زیادہ بھارت سے جنگ کرنے کو جی چاہتا ہو گا یا پھر بچوں کو کپڑے پہنانے سے زیادہ مسجد کے لیے نئی صفوں کی خریداری ذہن میں آتی ہو گی ، جنت اور جہنم کے کھیل نے ایسا آ دبوچا ہے کہ انسانیت کو چھوڑ کر حیوانیت کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ یہ بات قابل فکر ہے کہ جنت یا جہنم میں اگر کوئی جاتا بھی ہو تو اسکا کم از کم انسان ہونا تو لازمی شرط ہے -
متذکرہ بالا بیج اپنا پھل لے آے ہیں ، آج اگر کوئی بھی تمہیں تمہاری غلطی بتاتا ہے تو تم اس بیچارے کی پچھلی سات نسلوں تک کو گالیوں سے نوازتے ہے ، اسکی بات کا جواب تمہارے پاس صرف اسکی ذات پر تنقید ہی ہوتا ہے ، تمہارے منہ سے لفظ نہیں آگ نکلتی ہے ، جو ایک بات کی دلیل ہے کہ تمہارے اندر کا صبر جنت، جہنم، اسرائیل ، بھارت، امریکا ، نماز ، روزے اور نیکی جیسے بیجوں نے تلف کر ڈالا ہے اور تم کیونکہ ایک بیمار ہو اسی لیے اپنے اندر کی بیماری ختم کرنے والے کی باتوں تک کو بلا جواز بکواس کہ دیتے ہو ، بلکل اس بوڑھے کی طرح جو کہ دمے کا مریض ہے لیکن بھر بھی حقہ پینے کے واسطے ڈاکٹر کے سارے کیے دھرے پہ دو گالیاں جڑ کے مٹی ڈالتا ہے -
الفاظ کے معنی نہیں بدلا کرتے ، ہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الفاظ اپنے نفسیاتی اثرات بدل ڈالتے ہیں ، الله اکبر کا نعرہ تمہارے اندر کی نفسیاتی گندگی سے اٹھنے والی بدبو کا ایسا سپرے بن چکا ہے کہ ہر وہ بات جسکا مناسب جواب تمہارے پاس نہیں ہے ، تم اگلے کو یہود و نصارا کہ کر یہ نعرہ بلند کر ڈالتے ہو ، تم الله کو بلند نہی کرتے بلکہ اپنے اندر کے نفسیاتی بھوت کی لٹکی ہوئی گردن کو اونچا کرنے کی بیہودہ کوشش کرتے ہو ، مذھب کو تم نے سچائی سے بچانے والی دوائی بنا کر اپنی ذات پر چھڑک ڈالا ہے ، تم ہم ادھ مووئے ہو چکے ، جو جوے شیر ہماری منتظر تھی اس سے دوسرے کب کے لطف اندوز ہو چکے ، اب تمہیں ، ہمیں خود پسندی کے آسیب سے نکلنا ہے اور نئی جوے شیر اپنی نسلوں کو لا کر دینی ہے
تم تحفظ ختم نبوت کے لیے گلے پھاڑتے ہو لیکن کسی کی سات سال کی بیٹی کی ردا تار تار ہونے پہ تمہیں موت پڑ جاتی ہے اور تم اسی طرح خشوع و خضو ع کے ساتھ نمازیں پڑھ کے درود کے ورد میں مصروف ہو جاتے ہو ، وہ انسان اپنی ماں کی کیسے عزت کر سکتا ہے جو دوسروں کی بیٹی کو کپڑے دھونے ، برتن مانجھنے اور بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھے ، یہ ادھ موئی غیرت ابنان آدم اگر کھوپڑی کو اسکے اصل کام پہ لگا دیں تو یقین جانیں پورا مغرب منہ میں انگلیاں لیے حیرانیت کی حدوں کو چھوے -
میں تو آینہ ہوں ، میرا کام تمہیں یہ دکھانا ہے کہ تمہارے ماتھے پر سیاہی لگی ہے ، اور دامن پر داغ ، اب اس داغ کو دھونا اور سیاہی کو صاف کرنا تمہارا اپنا عمل ہے ، لیکن اس سے پہلے کہ تم میری بات کو سمجھو تمہاری خود پسندی تمہیں سیاہی صاف کرنے اور داغ پہ توجہ دینے سے پہلے تمہیں مجھے گالیاں دینے پہ اکساتی ہے جسکا نتیجہ تو یہ ہے کہ تم اپنی اصلیت دکھا کر ویسے ہی جینا پسند کرتے ہو جیسا کہ آینہ دیکھنے سے پہلے - میں تو آینہ ہوں ، توڑ ڈالو گے تو تمہیں تمہارے اصل روپ کے سینکڑوں حصے نظر آنے لگیں گے ، میں تو آینہ ہوں ٹوٹ کر بھی تمہارے وجود کا عذاب بن جاؤں گا ، تمہارے وجود کی خباثت تمہارے علاوہ سینکڑوں کو دیکھا ڈالوں گا ، میں تو آینہ ہوں میرے کام کو سمجھو نہ کہ توڑنے کی تدبیر
از نعمان عالم ، خارکوف یوکرین ، مورخہ تین مئی سن دو ہزار تیرہ
میں تو آیینہ ہوں ٹوٹ کے بکھر جاؤں گا
تمہارا چہرہ ہزار آنکھوں کو پھر دکھاؤں گا (نعمان عالم )
کتے اور گھر کے مکینوں میں بنیادی فرق تو یہ ہوتا ہے کہ کتا گھر کے باہر کھڑا ، بیٹھا ہر آتے جاتے پہ بھونکتا رہتا ہے ، اسکا کام ہر نہ معلوم شخص پر بھونکنا ہوتا ہے چاہے وہ اس گھر کی چھت مرمت کرنے آیا ہو یعنی گھر کے فائدے کے واسطے ، اب مکینوں کا کردار کتے کے کردار سے بلکل مختلف ہوتا ہے ، گھر کے مکین دل و جان سے گھر کو صاف رکھتے ہیں ، پودوں کو پانی دیتے ہیں الغرض اگر سینکڑوں میل دور جا کر نوکری بھی کرنی پڑ جائے تو اس سے بھی نہیں کتراتے-
یہ بات سوچنے والی ہے کہ کہیں ہم گھر کے باہر بیٹھنے والے اور ہر اس شخص پر زبان کھولنے والے تو نہیں بن گئے جو اس گھر کے اچھائی چاہتا ہو ؟ ہم کھانے پینے اور دوسروں پر تنقید کرنے والی مشین بن چکے ہیں اپنی ذات کو چھوڑ کر ہر اس ذات پر لپکتے ہیں جو ہمیں ناگوار گزرنے والی بات کہ ڈالتا ہے -
پچھلی پانچ دہائیوں سے ہماری ذات کو ایک مخصوص پروپیگنڈا کے ذریعے امید کے لحاف میں ایسا لپیٹا جا چکا ہے کہ ہم ماسوائے اپنے کسی دوسرے کو خاطر میں ہی نہیں لا پاتے ، نماز ، روزے ، تسبیح ، بھارت ، اسرائیل ، امریکا ، کرکٹ ، جنت ، جہنم اور کئی دوسرے ایسے نفسیاتی بیج ہیں جو ہمارے ذہنوں کو پستی سے بلندی کی طرف کے سفر کو روکنے کے لیے بو دیے گئے ہیں ، ایک عام پاکستانی کے ذہن میں اپنے بچوں کو کھانا کھلانے سے زیادہ بھارت سے جنگ کرنے کو جی چاہتا ہو گا یا پھر بچوں کو کپڑے پہنانے سے زیادہ مسجد کے لیے نئی صفوں کی خریداری ذہن میں آتی ہو گی ، جنت اور جہنم کے کھیل نے ایسا آ دبوچا ہے کہ انسانیت کو چھوڑ کر حیوانیت کے قریب تر ہوتے جا رہے ہیں حالانکہ یہ بات قابل فکر ہے کہ جنت یا جہنم میں اگر کوئی جاتا بھی ہو تو اسکا کم از کم انسان ہونا تو لازمی شرط ہے -
متذکرہ بالا بیج اپنا پھل لے آے ہیں ، آج اگر کوئی بھی تمہیں تمہاری غلطی بتاتا ہے تو تم اس بیچارے کی پچھلی سات نسلوں تک کو گالیوں سے نوازتے ہے ، اسکی بات کا جواب تمہارے پاس صرف اسکی ذات پر تنقید ہی ہوتا ہے ، تمہارے منہ سے لفظ نہیں آگ نکلتی ہے ، جو ایک بات کی دلیل ہے کہ تمہارے اندر کا صبر جنت، جہنم، اسرائیل ، بھارت، امریکا ، نماز ، روزے اور نیکی جیسے بیجوں نے تلف کر ڈالا ہے اور تم کیونکہ ایک بیمار ہو اسی لیے اپنے اندر کی بیماری ختم کرنے والے کی باتوں تک کو بلا جواز بکواس کہ دیتے ہو ، بلکل اس بوڑھے کی طرح جو کہ دمے کا مریض ہے لیکن بھر بھی حقہ پینے کے واسطے ڈاکٹر کے سارے کیے دھرے پہ دو گالیاں جڑ کے مٹی ڈالتا ہے -
الفاظ کے معنی نہیں بدلا کرتے ، ہاں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ الفاظ اپنے نفسیاتی اثرات بدل ڈالتے ہیں ، الله اکبر کا نعرہ تمہارے اندر کی نفسیاتی گندگی سے اٹھنے والی بدبو کا ایسا سپرے بن چکا ہے کہ ہر وہ بات جسکا مناسب جواب تمہارے پاس نہیں ہے ، تم اگلے کو یہود و نصارا کہ کر یہ نعرہ بلند کر ڈالتے ہو ، تم الله کو بلند نہی کرتے بلکہ اپنے اندر کے نفسیاتی بھوت کی لٹکی ہوئی گردن کو اونچا کرنے کی بیہودہ کوشش کرتے ہو ، مذھب کو تم نے سچائی سے بچانے والی دوائی بنا کر اپنی ذات پر چھڑک ڈالا ہے ، تم ہم ادھ مووئے ہو چکے ، جو جوے شیر ہماری منتظر تھی اس سے دوسرے کب کے لطف اندوز ہو چکے ، اب تمہیں ، ہمیں خود پسندی کے آسیب سے نکلنا ہے اور نئی جوے شیر اپنی نسلوں کو لا کر دینی ہے
تم تحفظ ختم نبوت کے لیے گلے پھاڑتے ہو لیکن کسی کی سات سال کی بیٹی کی ردا تار تار ہونے پہ تمہیں موت پڑ جاتی ہے اور تم اسی طرح خشوع و خضو ع کے ساتھ نمازیں پڑھ کے درود کے ورد میں مصروف ہو جاتے ہو ، وہ انسان اپنی ماں کی کیسے عزت کر سکتا ہے جو دوسروں کی بیٹی کو کپڑے دھونے ، برتن مانجھنے اور بچے پیدا کرنے کی مشین سمجھے ، یہ ادھ موئی غیرت ابنان آدم اگر کھوپڑی کو اسکے اصل کام پہ لگا دیں تو یقین جانیں پورا مغرب منہ میں انگلیاں لیے حیرانیت کی حدوں کو چھوے -
میں تو آینہ ہوں ، میرا کام تمہیں یہ دکھانا ہے کہ تمہارے ماتھے پر سیاہی لگی ہے ، اور دامن پر داغ ، اب اس داغ کو دھونا اور سیاہی کو صاف کرنا تمہارا اپنا عمل ہے ، لیکن اس سے پہلے کہ تم میری بات کو سمجھو تمہاری خود پسندی تمہیں سیاہی صاف کرنے اور داغ پہ توجہ دینے سے پہلے تمہیں مجھے گالیاں دینے پہ اکساتی ہے جسکا نتیجہ تو یہ ہے کہ تم اپنی اصلیت دکھا کر ویسے ہی جینا پسند کرتے ہو جیسا کہ آینہ دیکھنے سے پہلے - میں تو آینہ ہوں ، توڑ ڈالو گے تو تمہیں تمہارے اصل روپ کے سینکڑوں حصے نظر آنے لگیں گے ، میں تو آینہ ہوں ٹوٹ کر بھی تمہارے وجود کا عذاب بن جاؤں گا ، تمہارے وجود کی خباثت تمہارے علاوہ سینکڑوں کو دیکھا ڈالوں گا ، میں تو آینہ ہوں میرے کام کو سمجھو نہ کہ توڑنے کی تدبیر