کاشفی
محفلین
غزل
(رئیس امروہوی)
میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا
ایک سایہ مرے عقب میں چلا
صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی
میں اکیلا سوادِ شب میں چلا
جب گھنے جنگلوں کی صف آئی
ایک تارہ مرے عقب میں چلا
آگے آگے کوئی بگولہ سا
عالمِ مستی و طرب میں چلا
میں کبھی حیرتِ طلب میں رکا
اور کبھی شدتِ غضب میں چلا
نہیں کھلتا کہ کون شخص ہوں میں
اور کس شخص کی طلب میں چلا
(رئیس امروہوی)
میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا
ایک سایہ مرے عقب میں چلا
صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی
میں اکیلا سوادِ شب میں چلا
جب گھنے جنگلوں کی صف آئی
ایک تارہ مرے عقب میں چلا
آگے آگے کوئی بگولہ سا
عالمِ مستی و طرب میں چلا
میں کبھی حیرتِ طلب میں رکا
اور کبھی شدتِ غضب میں چلا
نہیں کھلتا کہ کون شخص ہوں میں
اور کس شخص کی طلب میں چلا
آخری تدوین: