معاویہ وقاص
محفلین
میں حادثوں سے جام لڑاتا چلا گیا
ہنستا ہنساتا ،پیتا پلاتا ، چلا گیا
نقش و نگار زیست بنانے کا شوق تھا
نقش و نگار زیست بناتا چلا گیا
اتنے ہی اختلاف ابھرتے چلے گئے
جتنے تعلقات بڑھاتا چلا گیا
طوفاں کے رحم پر تھی فقیروں کی کشتیاں
طوفاں ہی کشتیوں کو چلاتا چلا گیا
دنیا مری خوشی کو بہت گھورتی رہی
میں زندگی کا ساز بجاتا چلا گیا
وہ رفتہ رفتہ جام پلاتے چلے گئے
میں رفتہ رفتہ ہوش میں آتا چلا گیا
ہر مے کدے سے ایک عقیدت تھی اے عدم
ہر مہ جبیں سے آنکھ ملتا چلا گیا
عبدالحمید عدم