میں خود کو ڈھونڈنے نکلا ہوا ہوں

عظیم

محفلین


میں خود کو ڈھونڈنے نکلا ہوا ہوں
اور اپنی کھوج میں ہی گمشدہ ہوں

ہزاروں وسوسے ہیں دل میں میرے
ہزاروں وہم ہیں جن سے جڑا ہوں

نہ جانے کیا سبب ہے خوش نہیں میں
اگرچہ روز ماتھا ٹیکتا ہوں

اٹھا رہتا ہے میرا سر یہ کیوں کر؟
میں جب اپنی حقیقت جانتا ہوں

مجھی میں ہے کہیں موجود وہ بھی
میں خود اپنے خدا کا ہی پتا ہوں

سمجھ آتا نہیں ہے کچھ بھی مجھ کو
مگر یہ ہے کہ سب کچھ جانتا ہوں

غریبی عیش یہ سب دیکھ کر میں
سکونِ قلب کو اب بھاگتا ہوں

وہ جس نے مجھ کو بخشا نرم دل میں
اسی رب کی اطاعت میں کھڑا ہوں

یہ احساں ہے مرے مالک کا ورنہ
مجھے کیا علم میں کیا بولتا ہوں



 

عظیم

محفلین


بھنور میں تھا کنارا مل گیا ہے
کہ خوش رہنے کا چارہ مل گیا ہے

مجھے وہ مل ہی جائے گا کسی دن
پتا اس کا تو سارا مل گیا ہے

تجھے اے دل تھی جس کی آرزو وہ
مکیں مجھ کو تمہارا مل گیا ہے

نہیں کچھ فکر تنہائی کی مجھ کو
کہ جو ہے جاں سے پیارا مل گیا ہے

اگر روٹھا ہوا ہے مجھ سے کیا غم
مقدر کا ستارہ مل گیا ہے




کسی کی بھی نظر میں کچھ نہیں ہوں
مجھے شک ہے کہ میں بھی کیا یہیں ہوں

کہیں رکنے نہیں دیتا تخیل
یہیں بیٹھا تھا لیکن اب کہیں ہوں

وہی وہ ہے جہاں بھی دیکھ لوں میں
نہیں ہوں میں نہیں ہوں میں نہیں ہوں

کہاں پھرتی ہے میرے بخت کی لو!
جہاں تاریکیاں ہیں میں وہیں ہوں

کبھی لگتا ہے میں ہی میں ہوں شاعر
کبھی لگتا ہے اس قابل نہیں ہوں



کچھ تو ہے اس کو بھی خیال مرا
یوں ہی اچھا نہیں ہے حال مرا

اپنے دیوانے کو نہ چھوڑے وہ
اس تک آنا نہیں کمال مرا

شوق میں وقت کی ہے یہ رفتار
لمحہ بھر کا ہے ایک سال مرا

کچھ سمجھ پاؤں خود تو لکھوں بھی
کیسا ماضی تھا کیا ہے حال مرا

کیا ہوا ہے جو یوں ہوں دیوانہ
خود سے ہے بس یہی سوال مرا

وہ بھی روٹھا تو کیا کروں گا میں؟
دوست ہے جو کہ بے مثال مرا



ایک بھی رمز اس کی پا نہ سکا
یہ سبب ہے کہ مسکرا نہ سکا

در بھی کھلتا نہیں ہے فہم کا اور
میں بھی اٹھ کر یہاں سے جا نہ سکا

ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہی گزری عمر
خود کو میں آج تک بھی پا نہ سکا

جانے کیا بات تھی کہ دل کی بات
چاہ کر بھی کبھی چھپا نہ سکا

دکھ کے نغمے زباں پہ آئے فقط
گیت خوشیوں کا اک بھی گا نہ سکا

کھا گیا شوق میری آدھی عمر
ایک لمحے کو بھی بچا نہ سکا

وہ جو ہے بحر بیکراں مجھ میں
اس کو آنکھوں سے میں بہا نہ سکا


بابا
 
آخری تدوین:
Top