واہ واہ قبلہ فرخ صاحب۔ میری پسندیدہ غزل ارسال کر کے آپ نے تو قبل از وقت عید کروا دی۔ بہت شکریہ۔ اور یہ خوشی یوں دونی ہو گئی ہے کہ آپ نے بھی اس غزل کو 'قابلِ فہم' گردانا اور پسندیدگی کی سند عطا فرما دی۔
یہ غزل سن کر میں نے حسبِ دستور نیٹ پر اسے تلاش کیا اور ایک حیرت بلکہ صدمہ ہوا کہ کہیں بھی یہ غزل مکمل موجود نہیں۔ تمام سائٹوں پر زیادہ سے زیادہ چھ اشعار ہی ہیں۔ لہٰذا یہ غزل جس قدر مجھے مل سکی، یعنی آٹھ شعر، میں حاضر کیے دے رہا ہوں۔ نیز مہدی حسن کی خوبصورت آواز میں بھی اس غزل کو سننے اور دیکھنے کا سامان بہم کیے دیتا ہوں۔ گو آواز استاد مہدی حسن خان صاحب کی ہے لیکن کمپوزیشن استاد رئیس خان ہی کی ہے۔
میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے
سرِ آئینہ مرا عکس ہے پس ِ آئینہ کوئی اور ہے
میں کسی کے دست ِ طلب میں ہوں تو کسی کے حرف ِ دعا میں ہوں
میں نصیب ہوں کسی اور کا مجھے مانگتا کوئی اور ہے
عجب اعتبار و بے اعتباری کے درمیان ہے زندگی
میں قریب ہوں کسی اور کے، مجھے جانتا کوئی اور ہے
تجھے دشمنوں کی خبر نہ تھی، مجھے دوستوں کا پتہ نہ تھا
تری داستاں کوئی اور تھی، مرا واقعہ کوئی اور ہے
وہی منصفوں کی روایتیں، وہی فیصلوں کی عبارتیں
مرا جرم تو کوئی اور تھا، پہ مری سزا کوئی اور ہے
کبھی لوٹ آئیں تو پوچھنا نہیں، دیکھنا انہیں غور سے
جنہیں راستے میں خبر ہوئی کہ یہ راستہ کوئی اور ہے
مری روشنی ترے خدّ و خال سے مختلف تو نہیں مگر
تُو قریب آ تجھے دیکھ لوں تُو وہی ہے یا کوئی اور ہے
جو مری ریاضتِ نیم شب کو سلیم صبح نہ مل سکی
تو پھر اس کے معنی تو یہ ہوئے کہ یہاں خدا کوئی اور ہے
(سلیم کوثر)
مہدی حسن ۔ حصۂ اول
مہدی حسن ۔ حصۂ دوم