میں دیوانہ ہوں دیوانے کا کیا ہے

میں دیوانہ ہوں دیوانے کا کیا ہے
زمانہ خود تماشا بن گیا ہے

ہم اپنی داستاں خود کیوں سنائیں
جو ظالم پوچھتا ہے جانتا ہے

دھوئیں کی گود میں بیٹھا زمانہ
گل و بلبل پہ فقرے کس رہا ہے

ہمارا نام ان کے نام کے ساتھ
کسی بدخط نے عمداً لکھ دیا ہے

حقیقت سے جو منہ پھیرے سو کافر
حرم ہے دیر ہے بت ہیں خدا ہے

ترا غصہ تو پھر غصہ ہے ظالم
ترا یہ صبر بھی صبر آزما ہے

ہر اک سے حال مت دریافت کیجے
اسی سے پوچھیے جس کو پتا ہے

خدا کے ذکر میں تسکین ہو گی
بتوں کی بات کا اپنا مزا ہے

حسد ہے منعموں کو منعموں سے
فقیروں کو فقیروں کی دعا ہے

اسی دکھ میں مرا جاتا ہے راحیلؔ
کوئی سمجھے کہ دکھ کس بات کا ہے

راحیلؔ فاروق
۲۸ فروری ؁۲۰۱۷ء
 
آخری تدوین:
کیا بات ہے سرکار
دھوئیں کی گود میں بیٹھا زمانہ
گل و بلبل پہ فقرے کس رہا ہے

حسد ہے منعموں کو منعموں سے
فقیروں کو فقیروں کی دعا ہے

اسی دکھ میں مرا جاتا ہے راحیلؔ
کوئی سمجھے کہ دکھ کس بات کا ہے
 
بہت بہت شکریہ، پیارے لوگو۔ میں آپ کی جانب سے پسندیدگی پر مسرور اور اظہارِ پسندیدگی پر ممنون ہوں۔
کیا مطلع میں ایطا نہیں ہے راحیل فاروق بھائی ۔
عظیم بھائی، پہلے تو آپ کی نکتہ رسی اور دقتِ نظر کی داد بنتی ہے۔ اب کون زمانے میں یہ فکریں کرتا ہے۔ بہت اچھا لگا آپ کا یہ استفسار۔
ایطا مطلع کے قوافی میں حروف کے اس اعادے کا نام ہے جس سے روی کا اختلاف مترشح ہوتا ہو یا جس کا التزام بعد کے اشعار میں نہ کیا جائے۔ اس مطلع پر یہ شبہ گزرنا عین جائز ہے۔ مگر ایسا ہے نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ 'گیا' میں یا اپنی اصل حالت میں پورے اعلان کے ساتھ وارد ہوئی ہے جبکہ 'کیا' کی یا مخلوط ہے۔ یعنی کاف کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ اس کی مثال دوچشمی ھ کی سی ہے جو اپنا الگ وجود نہیں رکھتی لہٰذا وزن میں محسوب نہیں۔ بلکہ وزن میں شمار ہونے کا سوال تو پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ ایسی ھ یا یے اپنے ماقبل حرف کے ساتھ مل کر گویا ایک نئے حرف کو جنم دے دیتی ہے جو بہرصورت وزن میں گنا جاتا ہے۔
جس طرح کا اور کھا کا وزن ایک ہے اسی طرح کیا (استفہامیہ) اور کا کا وزن بھی ایک ہی ہے۔ اس نکتۂِ نگاہ سے دیکھا جائے تو کیا کی یے گویا آئی ہی نہیں بلکہ کاف اور یے کی ایک مخلوط آواز پیدا ہوئی ہے جس کا گیا کی یے کے مقابل آنا ایطا کے دائرے سے خارج ہے۔
اہلِ فارس گاف کو کافِ فارسی اور چ کو جیمِ فارسی وغیرہ کہتے ہیں۔ ان کے مخارج نہایت قریب قریب ہیں مگر یہ درحقیقت الگ الگ آوازیں ہیں۔ اردو میں یائے مخلوط، ہائے مخلوط اور رائے مخلوط وغیرہ کی دوسرے حروف سے مل کر الگ آوازیں تو پیدا ہو گئی ہیں مگر ان کے لیے الگ حروف تشکیل دینے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔آپ کے اشکال کی جڑ میں ہمارے نظامِ تہجی کی یہی خامی کارفرما ہے۔
امید ہے میں اپنا نکتۂِ نظر واضح کر سکا ہوں گا۔ آپ کے اختلاف کا بہرحال خیرمقدم کیا جائے گا۔ ایک بار پھر خصوصی شکریہ!
 
آخری تدوین:

نیرنگ خیال

لائبریرین
ہم اپنی داستاں خود کیوں سنائیں
جو ظالم پوچھتا ہے جانتا ہے

ہر اک سے حال مت دریافت کیجے
اسی سے پوچھیے جس کو پتا ہے

دھوئیں کی گود میں بیٹھا زمانہ
گل و بلبل پہ فقرے کس رہا ہے

حسد ہے منعموں کو منعموں سے
فقیروں کو فقیروں کی دعا ہے

کیا بات ہے راحیل بھائی۔۔۔ بہت ہی خوبصورت غزل ہے۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
بہت بہت شکریہ، پیارے لوگو۔ میں آپ کی جانب سے پسندیدگی پر مسرور اور اظہارِ پسندیدگی پر ممنون ہوں۔

عظیم بھائی، پہلے تو آپ کی نکتہ رسی اور دقتِ نظر کی داد بنتی ہے۔ اب کون زمانے میں یہ فکریں کرتا ہے۔ بہت اچھا لگا آپ کا یہ استفسار۔
ایطا مطلع کے قوافی میں حروف کے اس اعادے کا نام ہے جس سے روی کا اختلاف مترشح ہوتا ہو یا جس کا التزام بعد کے اشعار میں نہ کیا جائے۔ اس مطلع پر یہ شبہ گزرنا عین جائز ہے۔ مگر ایسا ہے نہیں۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ 'گیا' میں یا اپنی اصل حالت میں پورے اعلان کے ساتھ وارد ہوئی ہے جبکہ 'کیا' کی یا مخلوط ہے۔ یعنی کاف کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ اس کی مثال دوچشمی ھ کی سی ہے جو اپنا الگ وجود نہیں رکھتی لہٰذا وزن میں محسوب نہیں۔ بلکہ وزن میں شمار ہونے کا سوال تو پیدا ہی نہیں ہوتا کیونکہ ایسی ھ یا یے اپنے ماقبل حرف کے ساتھ مل کر گویا ایک نئے حرف کو جنم دے دیتی ہے جو بہرصورت وزن میں گنا جاتا ہے۔
جس طرح کا اور کھا کا وزن ایک ہے اسی طرح کیا (استفہامیہ) اور کا کا وزن بھی ایک ہی ہے۔ اس نکتۂِ نگاہ سے دیکھا جائے تو کیا کی یے گویا آئی ہی نہیں بلکہ کاف اور یے کی ایک مخلوط آواز پیدا ہوئی ہے جس کا گیا کی یے کے مقابل آنا ایطا کے دائرے سے خارج ہے۔
ایذا کسی تبصرے کے حروف میں اس اعادے کا نام ہے جس کا اختلاف ہم جیسے نو آموزوں سے ہوتا ہو یا جس کا التزام محض ہم جیسوں کو شاعری سے دور رکھنے کے لیے کیا جائے۔ ایسے تبصرے پر شبہ گزرنا عین جائز ہے۔ بلکہ یقین کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے تبصرے اپنی اصل حالت میں علی الاعلان یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ اس شخص کی زندگی بھی کتنے مصائب میں ہے۔ اور کیسا خطاکار و گناہگار ہے۔ ایسے تمام تبصروں کی آواز مخلوط ہوتی ہے۔ اور اس آواز کے نکالنے والوں کو دو لگانا کارثواب ہے۔

اہلِ فارس گاف کو کافِ فارسی اور چ کو جیمِ فارسی وغیرہ کہتے ہیں۔ ان کے مخارج نہایت قریب قریب ہیں مگر یہ درحقیقت الگ الگ آوازیں ہیں۔ اردو میں یائے مخلوط، ہائے مخلوط اور رائے مخلوط وغیرہ کی دوسرے حروف سے مل کر الگ آوازیں تو پیدا ہو گئی ہیں مگر ان کے لیے الگ حروف تشکیل دینے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔آپ کے اشکال کی جڑ میں ہمارے نظامِ تہجی کی یہی خامی کارفرما ہے۔
امید ہے میں اپنا نکتۂِ نظر واضح کر سکا ہوں گا۔
اللہ معاف کرے۔روز محشر مجھے نظر نہ آئیو۔۔۔ ابھی بتا رہا ہوں۔۔۔۔ :D
 

محمداحمد

لائبریرین
دھوئیں کی گود میں بیٹھا زمانہ
گل و بلبل پہ فقرے کس رہا ہے
ترا غصہ تو پھر غصہ ہے ظالم
ترا یہ صبر بھی صبر آزما ہے
خدا کے ذکر میں تسکین ہو گی
بتوں کی بات کا اپنا مزا ہے
اسی دکھ میں مرا جاتا ہے راحیلؔ
کوئی سمجھے کہ دکھ کس بات کا ہے

:applause::applause::applause:
 
ایذا کسی تبصرے کے حروف میں اس اعادے کا نام ہے جس کا اختلاف ہم جیسے نو آموزوں سے ہوتا ہو یا جس کا التزام محض ہم جیسوں کو شاعری سے دور رکھنے کے لیے کیا جائے۔ ایسے تبصرے پر شبہ گزرنا عین جائز ہے۔ بلکہ یقین کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسے تبصرے اپنی اصل حالت میں علی الاعلان یہ بتا رہے ہوتے ہیں کہ اس شخص کی زندگی بھی کتنے مصائب میں ہے۔ اور کیسا خطاکار و گناہگار ہے۔ ایسے تمام تبصروں کی آواز مخلوط ہوتی ہے۔ اور اس آواز کے نکالنے والوں کو دو لگانا کارثواب ہے۔


اللہ معاف کرے۔روز محشر مجھے نظر نہ آئیو۔۔۔ ابھی بتا رہا ہوں۔۔۔۔ :D
:laughing::laughing::laughing::laugh::laugh::laugh::rollingonthefloor::rollingonthefloor::rollingonthefloor:
 
ہم اپنی داستاں خود کیوں سنائیں
جو ظالم پوچھتا ہے جانتا ہے
بہت ہی کمال اور لاجواب غزل ہے بھیا ۔ ایک ایک شعر بہترین
دھوئیں کی گود میں بیٹھا زمانہ
گل و بلبل پہ فقرے کس رہا ہے
یہ شعر میں نے کہیں اور بھی پڑھا ہے ۔ شاید کسی میگزین میں یا کسی کے کالم میں ۔ اب یاد نہیں ہے ۔
 
Top