ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
میں روز اپنے لئے ضابطے بناتا ہوں
پھر اُن کو توڑتا ہوں اور نئے بناتا ہوں
پہنچ بھی جاؤں کہیں میں تو گھر نہیں کرتا
نئے سفر کیلئے راستے بناتا ہوں
مقیمِِ دل ہوں میں ، امید نام ہے میرا
میں خواب بُنتا ہوں اور واقعے بناتا ہوں
میں ٹکڑے جوڑ کے ٹوٹے ہوئے چراغوں کے
ہوا کے سامنے بیٹھا دیئے بناتا ہوں
بس ایک سنگِ ندامت ہے اب مری توفیق
میں پانی تکتا ہوں اور دائرے بناتا ہوں
نہ سنگِ میل ، نہ منزل ، نہ رہنما ، میں تو
ستارے دیکھتا ہوں ، زائچے بناتا ہوں
مجھے خبرہے کہ جانا مجھے اکیلا ہے
تو پھر یہ قافلہ کس کے لئے بناتا ہوں ؟
۔۔۔۔ ۲۰۰۷۔۔۔۔۔۔
پھر اُن کو توڑتا ہوں اور نئے بناتا ہوں
پہنچ بھی جاؤں کہیں میں تو گھر نہیں کرتا
نئے سفر کیلئے راستے بناتا ہوں
مقیمِِ دل ہوں میں ، امید نام ہے میرا
میں خواب بُنتا ہوں اور واقعے بناتا ہوں
میں ٹکڑے جوڑ کے ٹوٹے ہوئے چراغوں کے
ہوا کے سامنے بیٹھا دیئے بناتا ہوں
بس ایک سنگِ ندامت ہے اب مری توفیق
میں پانی تکتا ہوں اور دائرے بناتا ہوں
نہ سنگِ میل ، نہ منزل ، نہ رہنما ، میں تو
ستارے دیکھتا ہوں ، زائچے بناتا ہوں
مجھے خبرہے کہ جانا مجھے اکیلا ہے
تو پھر یہ قافلہ کس کے لئے بناتا ہوں ؟
۔۔۔۔ ۲۰۰۷۔۔۔۔۔۔