نور وجدان
لائبریرین
ایک سڑک پر جاتے ہوئے ایک بوڑھا ملا ، بہت زخمی تھا میں نے پوچھا کون ہو تم کس نے تم کو مارا ہے اس حد تک کہ خون بہے جا رہا ہے . وہ بولا میں مسلمان ہوں مجھے مسلمان مارتا ہے . اگر وہ ایک کافر کی بات کرتا تو حیرت ہوتی مگر وہ تو مجھے کچھ اور کہ رہا تھا . میں نے پوچھا کس مسلمان کے بچے میں اتنی ہمت کہ اتنے ضعیف العمر پر وار کرے . بولا میرا ساتھی بے وفا ہوئے وہ مسلم جان قوّی ہوگیا .میں نے پھر پوچھا ماجرا کیا ہے مجھے سمجھ نہیں آرہا ... میں اس بوڑھے بابا سے کہا بابا آپ ایسا کرو گھر آجاؤ وہاں مجھے اپنی کہانی سناؤ...
بوڑھا بولا گھر آکر تم نے چنگیز کا نام سنا تو ہوگا جس کا رحم بھی ظالم تھا ایک ڈوبتے ہوئے بچے پر رحم آیا تو اپنی تلوار کی نوک سے اسکو اٹھایا ..بے چارہ رحم رحم میں مارا گیا...
میں نے کہا بابا میں نے سنا ہے تاتاریوں کے بارے میں اسلام کو کس طرح کفن پہنانے کی کوشش کی تھی یہ تو بعد میں عماد الدین زنگی ، نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی آئے انہوں نے اسلام کو زندہ کیا ....
بوڑھا بابا مجھ سے بولا مجھے یاد ہے وہ شعر بھی احمد ندیم قاسمی کا :
اک بار پھر یثرب سے پھر فلسطین آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ ترا
پھر بولا .... تمھیں بتاؤ میں کون ہو ..خیر تم سے سوال جواب کے بجائے سیدھا سا بتاتا ہوں میں اسلام ہوں .... مجھے بہت زیادہ زخمی کیا گیا .. تمھیں کیا لگتا ہے جب نورالدین اس دنیا میں تھا تو کیا سیف الدین نہ تھا کیا؟ یا حسن بن صباح نہ تھا ؟ جب فدائی نے صلاح الدین کے سینے پر خنجر گھونپا تو کیا صلاح الدین نے نیند میں اس کو للکارا نہ تھا ... اس وقت ایک سچا انسان موجود تھا ... جب حضرت عبد اللہ بن زبیر تھے تو کیا حجاج نہیں تھا ؟ ان کو دار پر اس نے کیا نہ چڑھایا تھا ؟ کیا حجاج نے خانہ کعبہ پر سنگ باری نہ کروائی تھی ... اور کیا اہلِ قرامطہ نے ہجرِ اسود کو اس پاک جگہ سے اٹھایا تو غزنوی کیا نہیں آیا تھا ..حجاج کا ستم دور کرنے کو عمر بن عبد العزیز کیا نہیں آیا ... جب جب مجھ پر ظلم ہوا ہے ... مجھے ایک رہبر اور شہسوار ملتا رہا ہے ...مگر آج....
مجھے بابا کی درد بھری کہانی سن کر بہت دکھ ہوا ... پوچھا بابا سے بابا آج کیا ہوا ہے ... اب کہ تو زخم بھی تازہ لگ رہے ہیں مجھے ... آپ کی چہرے کی گرد بتارہے کہ آپ زندگی کے سفر میں بڑی کٹھنائیوں سے گزر کر آئے ہیں .... بابا پلیز اپنی داستان سنائیے ....
بوڑھے بابا بولے مجھے تقسیم کرنے کا عمل پرانا نہیں ہے ...خوارج ، معتزلہ اور شیعان علی نے یہ کام کیا.... اس کے زخم مندمل نہ ہوئے تھے تھے کہ عباسی آئے انہوں نے امویوں کی قبروں کو کھود کر ان کی نعشوں پر کھانا تناول کیا ....
بابا پلیز اب کی بتائیں اب کیا ہوا ہے ....
بیٹا کہانی تو پوری سنانی تھی ... آج اسلام نہیں رہا ہے .... شیعہ اور سنی بن گیا ہے ... آج وطن رہا ، زمین کا ٹکرا رہا ہے اسلام ..دلوں میں فرق ہیں تو شیعہ ہے میں سنی ہوں ... آج سعودی عرب بحرین پر ظلم کرتا ہے اسکی آبادی مسلم ہے ، شام کو عرب لیگ سے نکال دیتا ہے کہ وہ بھی شیعہ ملک ہے ... ایران کے خلاف بھارت اور امریکہ سے مل گیا ہے اپنا ایمان بانٹ کر مجھے بوڑھا اور لاغر کر دیا ہے .... اگر حماس مجھے نہ ملتی تو میں تو مر ہی جاتا مجھے فلسطین میں یاسر عرفات نے موت کے گھونٹ اتارنے کی کوشش کی مگر خالد حسینی نے مجھے بچا لیا ہے ...آج وہ ڈیمو کریٹ جماعت ہے فلسطین کی مگر اس کو کوئی مانتا نہیں اس نے عوام کی خدمت کی .... مجھے محمود عباس نے بیچ ڈالا ... مجھ پر ظلم ہو رہا ہے مسلم خوش ہے کہ شیعہ پر ظلم ہو رہا ہے اور شیعہ خوش ہے سنی مر رہے ہیں مسلم دنیا میں انقلاب آرہے ہیں ... یہ انقلاب مسلمانوں کو ختم کر رہے ہیں
ابھی وہ بات مکمل نہیں ہوئی تھی اس بوڑھے کی سانسیں اکھڑنے لگی اور وہ بے ہوش ہوگیا ...میں بابا کو آواز دے رہی تھی مگر مارے نقاہت کے ان کی آنکھیں نہیں کھل رہی تھیں
میں نے بابا کو جگانے کی کوشش کی .... ان کے منہ سے آواز نکل رہی تھی .... پاکستان بھی ڈوب گیا ، ایران ڈوب رہا ہے اس کو ڈبونے والا اس کا بھائی سعودی عرب ہے ... یاد ہوگا جب سعودی کی طرح صدام نے کویت پر حملہ کیا ، ایران سے جنگ کی تو اس کو انہی جرموں کی سزا ملی ... عراق پر ظلم ہو رہا ہے یہ بھی بٹ رہا ہے کردوں میں ، سنیوں اور شیعوں میں .... پاکستان بھی بٹ رہا ہے اس نے افغانستان پر حملے کیے آج یہ بھی پشتونوں اور بلوچوں میں بٹ رہا ہے ، شاہی راج کا خاتمہ ہورہا ہے ، سوڈان بھی تقسیم ہو گیا ہے ، بس اب شاہی راج سعودی عرب میں ہے ... وہ وقت قریب ہے جب شاہی راج کا خاتمہ ہوگا اور پھر اور ٹکرے ہوں گے .... پھر میری موت آئے اس سے پہلے اے نوجوان سپہ سالار ذرا سنبھل جا ... اس پہلے کہ سب کچھ ختم ہو جائے اس سے پہلے کے میرے زخموں کا عکس تیرے دامن کو بکھو دے تو سنبھل جا .....
بوڑھا بولا گھر آکر تم نے چنگیز کا نام سنا تو ہوگا جس کا رحم بھی ظالم تھا ایک ڈوبتے ہوئے بچے پر رحم آیا تو اپنی تلوار کی نوک سے اسکو اٹھایا ..بے چارہ رحم رحم میں مارا گیا...
میں نے کہا بابا میں نے سنا ہے تاتاریوں کے بارے میں اسلام کو کس طرح کفن پہنانے کی کوشش کی تھی یہ تو بعد میں عماد الدین زنگی ، نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی آئے انہوں نے اسلام کو زندہ کیا ....
بوڑھا بابا مجھ سے بولا مجھے یاد ہے وہ شعر بھی احمد ندیم قاسمی کا :
اک بار پھر یثرب سے پھر فلسطین آ
راستہ دیکھتی ہے مسجدِ اقصیٰ ترا
پھر بولا .... تمھیں بتاؤ میں کون ہو ..خیر تم سے سوال جواب کے بجائے سیدھا سا بتاتا ہوں میں اسلام ہوں .... مجھے بہت زیادہ زخمی کیا گیا .. تمھیں کیا لگتا ہے جب نورالدین اس دنیا میں تھا تو کیا سیف الدین نہ تھا کیا؟ یا حسن بن صباح نہ تھا ؟ جب فدائی نے صلاح الدین کے سینے پر خنجر گھونپا تو کیا صلاح الدین نے نیند میں اس کو للکارا نہ تھا ... اس وقت ایک سچا انسان موجود تھا ... جب حضرت عبد اللہ بن زبیر تھے تو کیا حجاج نہیں تھا ؟ ان کو دار پر اس نے کیا نہ چڑھایا تھا ؟ کیا حجاج نے خانہ کعبہ پر سنگ باری نہ کروائی تھی ... اور کیا اہلِ قرامطہ نے ہجرِ اسود کو اس پاک جگہ سے اٹھایا تو غزنوی کیا نہیں آیا تھا ..حجاج کا ستم دور کرنے کو عمر بن عبد العزیز کیا نہیں آیا ... جب جب مجھ پر ظلم ہوا ہے ... مجھے ایک رہبر اور شہسوار ملتا رہا ہے ...مگر آج....
مجھے بابا کی درد بھری کہانی سن کر بہت دکھ ہوا ... پوچھا بابا سے بابا آج کیا ہوا ہے ... اب کہ تو زخم بھی تازہ لگ رہے ہیں مجھے ... آپ کی چہرے کی گرد بتارہے کہ آپ زندگی کے سفر میں بڑی کٹھنائیوں سے گزر کر آئے ہیں .... بابا پلیز اپنی داستان سنائیے ....
بوڑھے بابا بولے مجھے تقسیم کرنے کا عمل پرانا نہیں ہے ...خوارج ، معتزلہ اور شیعان علی نے یہ کام کیا.... اس کے زخم مندمل نہ ہوئے تھے تھے کہ عباسی آئے انہوں نے امویوں کی قبروں کو کھود کر ان کی نعشوں پر کھانا تناول کیا ....
بابا پلیز اب کی بتائیں اب کیا ہوا ہے ....
بیٹا کہانی تو پوری سنانی تھی ... آج اسلام نہیں رہا ہے .... شیعہ اور سنی بن گیا ہے ... آج وطن رہا ، زمین کا ٹکرا رہا ہے اسلام ..دلوں میں فرق ہیں تو شیعہ ہے میں سنی ہوں ... آج سعودی عرب بحرین پر ظلم کرتا ہے اسکی آبادی مسلم ہے ، شام کو عرب لیگ سے نکال دیتا ہے کہ وہ بھی شیعہ ملک ہے ... ایران کے خلاف بھارت اور امریکہ سے مل گیا ہے اپنا ایمان بانٹ کر مجھے بوڑھا اور لاغر کر دیا ہے .... اگر حماس مجھے نہ ملتی تو میں تو مر ہی جاتا مجھے فلسطین میں یاسر عرفات نے موت کے گھونٹ اتارنے کی کوشش کی مگر خالد حسینی نے مجھے بچا لیا ہے ...آج وہ ڈیمو کریٹ جماعت ہے فلسطین کی مگر اس کو کوئی مانتا نہیں اس نے عوام کی خدمت کی .... مجھے محمود عباس نے بیچ ڈالا ... مجھ پر ظلم ہو رہا ہے مسلم خوش ہے کہ شیعہ پر ظلم ہو رہا ہے اور شیعہ خوش ہے سنی مر رہے ہیں مسلم دنیا میں انقلاب آرہے ہیں ... یہ انقلاب مسلمانوں کو ختم کر رہے ہیں
ابھی وہ بات مکمل نہیں ہوئی تھی اس بوڑھے کی سانسیں اکھڑنے لگی اور وہ بے ہوش ہوگیا ...میں بابا کو آواز دے رہی تھی مگر مارے نقاہت کے ان کی آنکھیں نہیں کھل رہی تھیں
میں نے بابا کو جگانے کی کوشش کی .... ان کے منہ سے آواز نکل رہی تھی .... پاکستان بھی ڈوب گیا ، ایران ڈوب رہا ہے اس کو ڈبونے والا اس کا بھائی سعودی عرب ہے ... یاد ہوگا جب سعودی کی طرح صدام نے کویت پر حملہ کیا ، ایران سے جنگ کی تو اس کو انہی جرموں کی سزا ملی ... عراق پر ظلم ہو رہا ہے یہ بھی بٹ رہا ہے کردوں میں ، سنیوں اور شیعوں میں .... پاکستان بھی بٹ رہا ہے اس نے افغانستان پر حملے کیے آج یہ بھی پشتونوں اور بلوچوں میں بٹ رہا ہے ، شاہی راج کا خاتمہ ہورہا ہے ، سوڈان بھی تقسیم ہو گیا ہے ، بس اب شاہی راج سعودی عرب میں ہے ... وہ وقت قریب ہے جب شاہی راج کا خاتمہ ہوگا اور پھر اور ٹکرے ہوں گے .... پھر میری موت آئے اس سے پہلے اے نوجوان سپہ سالار ذرا سنبھل جا ... اس پہلے کہ سب کچھ ختم ہو جائے اس سے پہلے کے میرے زخموں کا عکس تیرے دامن کو بکھو دے تو سنبھل جا .....