میں سجّے ہتھ کو بیٹھا تھا ادھر بازار کے وچ میں ۔ مجید لاہوری

فرخ منظور

لائبریرین
میں سجّے ہتھ کو بیٹھا تھا ادھر بازار کے وچ میں
وہ کبھّے ہتھ سے میرے کول گذرے کار کے وچ میں

اکیلے تو نہیں ملتے جدوں بھی اب وہ ملتے ہیں
کبھی چھ سات کے وچ میں کبھی دوچار کے وچ میں

میں بولا، بادشاہو! میری اِک چھوٹی سی گَل سُن لو
وہ بولے، چھڈو جی! کیا گل سنیں بازار کے وچ میں

لبوں کے وِچ لئے پھرتا ہے تُو گُل قند او ظالم
مِلا گل قند تھوڑی شربتِ دیدار کے وچ میں

کبھی مینوں بھی لے چل ظالماں تُو وچ کلفٹن کے
کدوں تک میں رہوں گا “گولی مار“ کے وچ میں

سویرے اُٹھ کے منگھے پیر کے وچ ایہہ دعا مانگی
خدا مجھ کو بھی پہنچا دے تِرے دربار کے وچ میں

وہ میری “ہیر“ ہے اور میں ہوں “رانجھے خاں“ مجید اُس کا
ہمارا ذکر ہے ہر کوچہ و بازار کے وچ میں

از مجید لاہوری
 

محمد وارث

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب شیئر کرنے کیلیے، اور یہ بھی ثابت ہوا کہ 'اردو پنجابی' مکس شاعری خالد مسعود کی اختراع نہیں ہے :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
شکریہ فرخ صاحب شیئر کرنے کیلیے، اور یہ بھی ثابت ہوا کہ 'اردو پنجابی' مکس شاعری خالد مسعود کی اختراع نہیں ہے :)

واہ واہ ۔ بہت شکریہ وارث صاحب۔ میرے پوشیدہ مقاصد کو آپ نے بہت اچھی طرح بھانپ لیا۔ بہت شکریہ حضور :)
 
Top