میں سوچ رہا ہوں تو بس یہ کہ

رات کے گہرے سائے میں
اپنے سائے سے گھبرا کے
تنہا گھر کے آنگن میں
بے چین، بے بس
آسمان کو کب سے دیکھ رہا ہوں
دل کے درودیوار کو
رنج و غم کی دیمک چاٹ رہی ہے
میں سوچ رہا ہوں تو بس یہ کہ
رُوز اپنے محور پر گھومتی ہے زمین
اسی طرح سر اُٹھائے کھڑا ہے فلک
اسی طرح پیچھے لگی ہیں دنوں کے راتیں
اسی طرح لمحوں کا سفر ہے جاری
مگر فاصلے جو قائم ہیں ہمارے درمیاں
کم نہیں ہوتے، بڑھتے کیوں ہیں جاتے؟
ذہن کے سنسان کمرے میں
مرے ماضی کی الماری
غور سے مجھ کو دیکھ رہی ہے
اور میں سوچ رہا ہوں تو بس یہ کہ
گزرے وقت کے ہاتھوں
تمہاری شکل بدل گئی ہوگی؟
زلفوں کی کالی گھٹاؤں میں
سفید بالوں کی تعداد بڑھ گئی ہوگی؟
اک چاند روشن تھا ماتھے پہ تمہارے
شاید وہ چاند بجھ گیا ہوگا؟
اک چاندنی سی روشن تھی آنکھوں میں تمہاری
کیا اب بھی باقی ہوگی اُس میں وہ دمک؟
اک تل چمکتا تھا جسم پہ تمہارے
کیا اب بھی باقی ہوگی اُس میں وہ چمک؟
میں سوچ رہا ہوں تو بس یہ کہ
ماضی کی الماری کہ جس میں
بُری بھلی سب یادیں
تہہ در تہہ چُنی ہوئی ہیں
سُہانی چند یادیں لے کر
سجا لوں دل میں اپنے
لیکن
سوچ کے یہ ڈر جاتا ہوں
رنج و غم کی دیمک
ان یادوں کو چاٹ نہ جائے
 
Top