عثمان غازی
محفلین
تحریر: عثمان غازی
میں ایک ضمیر فروش صحافی ہوں، چونکہ میں عمران خان کی حمایت نہیں کرتا اس لیے بکاوبھی ہوں، میں روز سینکڑوں گالیاں سنتا ہوں، مجھے عمران خان کی حمایت نہ کرنے پر صحافت کا پیشہ چھوڑنے کا بھی مشورہ دیا جاتاہے
ایسا نہیں ہے کہ میں نوازشریف کا حامی ہوں یا کرپٹ جمہوری نظام کو پسند کرتاہوں، مجھے اس سسٹم سے کوئی سروکار نہیں ہے مگر مجھے عمران خان سے تحفظات ہیں اور ان تحفظات کے اظہار نے مجھے ان تمام لوگوں کی نظروں میں گرادیا ہے جو کل تک میری ہر بات پہ واہ واہ کرتے تھے
میں دھرنے میں شرکا کی درست تعدادبتاوں تو مجھ پرتعصب کا الزام لگتا ہے، اگر غلطی سے پوچھ بیٹھوں کے عمران خان کے واضح اعلان کے باوجود تحریک انصاف نے اسمبلی میں اپنے استعفوں کااعلان کیوں نہیں کیاتو مجھ پر پھبتیاں کسی جاتی ہیں، عمران خان نے سابق چیف جسٹس کو صبح خائن کہااور شام میں تحریری معافی مانگ کر ان کو ہیروقراردے دیا، پھر اپنا یہ معافی نامہ بھی واپس لے لیا، اتنے زبردست یوٹرن پر میں نے بے تاب ہوکر سوال کیا اور جواب میں مجھے لفافہ صحافی کاطعنہ ملا
چینی صدرکادورہ ملتوی ہوا تو عمران خان نے مضحکہ خیزی سے کہاکہ لگتا ہے کہ چینی صدرکو بھی پتہ چل گیا کہ نوازشریف جانے والا ہے، مجھے یہ بات بری لگی ، میں نے اظہارکیااور ناسمجھ کہلایا، ردعمل میں میں نے چین کے اخبارات کے حوالوں سے ثابت کیاکہ دورہ نہ صرف ملتوی ہوا ہے بلکہ 35ملین ڈالر کی سرمایہ کاری تھی، وہ عمران خان کے بقول قرض نہیں تھا مگرمیری بات نقارخانے میں طوطی کی طرح ثابت ہوئی
میں کراچی میں رہتاہوں، یہاں مسلم لیگ ن کا کوئی وجودنہیں ہے مگر مجھ پر ن لیگی ہونے کاٹھپہ لگادیاگیا، میں حلفیہ کہتاہوں کہ میں نے اپنی 29سالہ مختصرزندگی میں مسلم لیگ ن کا ایک دفترتک نہیں دیکھا
جب انقلاب کارخ پارلیمنٹ ہاوس کی جانب ہواتو اس رات کالمحہ لمحہ میری آنکھوں میں جیسے نقش سا ہوگیا، خواتین شیل لگنے سے بے ہوش ہوئیں تو ایسے لگا کہ جیسے میرا دل چیردیاگیاہو، اس موقع پر میں نے سوال کیا کہ عمران خان اور طاہرالقادری کہاں ہیں، یہ لوگ کنٹینر سے باہرکیوں نہیں نکلے ، اس وقت مجھے ذوالفقارعلی بھٹو یادآنے لگا جب اس کے کارکنوں کو راولپنڈی میں ڈنڈے پڑے تو وہ ٹرک سے نیچے کود گیا اور پولیس والوں کو للکارکرکہنے لگاکہ میں ہوں بھٹو۔۔مجھے مارو
میرے ان اعتراضات پر مجھے کہاگیاکہ میں انقلاب کی تاریخ سے نابلد ہوں، حکمت عملی بھی آخرکوئی چیز ہوتی ہے،کوئی مانے یا نہ مانے میں نے اس بات کو بہت سنجیدہ لیا اوراس وقت سے اب تک انقلاب کے حوالے سے چار کتابیں پڑھ چکاہوں، میں نے ماوزے تنگ کو پڑھا، فرانس کے انقلاب کا مطالعہ کیا، ایرانی انقلاب اور برطانیہ میں پارلیمان کی بالادستی کی جدوجہد کابھی دوبارہ بغورمطالعہ کیامگر میں اعتراف کرتاہوں کہ مجھے ابھی تک شرح صدرنہیں ہوسکاکہ پاکستان میں آنے والی یہ تبدیلی اورانقلاب آخر کس قسم سے تعلق رکھتے ہیں
جاوید ہاشمی نے جب انکشافات کاسلسلہ شروع کیاتو میرے جذبات کو گویاایک کنارامل گیا، میں نے بڑے فخر سے ان انکشافات کو لوگوں کے سامنے بیان کیاتو کہاگیاکہ جاوید ہاشمی مسلم لیگ ن کے ایجنٹ ہیں ، سچ کہیں تو یہ وہ پہلا مرحلہ تھا جب مجھے غصہ آیا، صحافی ہونے کی حیثیت سے بھی مطالعہ میری عادت ہے، کتاب اور شخصیات دونوں کا بغورمطالعہ کرتاہوں، میرے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ جاوید ہاشمی کو جھوٹاسمجھوں، اس شخص نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، اس شخص کے مقابلے میں مجھے نوازشریف کاقد چھوٹالگتاہے
اس وقت میں نے لکھا کہ اگر دھاندلی کے الزامات کی بنیادپر نوازشریف سے مستعفیٰ ہونے کامطالبہ کیاجاسکتا ہے تو عمران خان پر لگنے والے الزامات دھاندلی سے بھی سنگین ہیں، عمران خان نے عوام کے دلی جذبات کو استعمال کرکے اپنے اقتدارکی راہ ہموارکرنے کی کوشش کی ہے، انصاف کاتقاضہ ہے کہ عمران خان جس طرح محض الزامات کی بنیادپر نوازشریف سے مستعفی ہونے کامطالبہ کررہے ہیں، جاوید ہاشمی کے الزامات کے بعد خود بھی تحریک انصاف کی چئیرمین شب سے مستعفی ہوجائیں اور الزامات غلط ثابت ہونے کے بعددوبارہ سربراہی سنبھال لیں مگر جب عمران خان نے بادشاہ سلامت کی طرح جاوید ہاشمی کو پارٹی سے نکال باہر کیا تو میرے سار ے جمہوری جذبات یکلخت بچہ جمہوراہوگئے، اس وقت تک میری ہر دلیل ہارچکی تھی، مجھے اپنی ہردلیل کے جواب میں وہ وہ باتیں سننا پڑیں جو میں شرم کی وجہ سے یہاں نقل بھی نہیں کرسکتا
اسی دوران میں ذوالفقارعلی بھٹوکے مضمون دی گریٹ ٹریجڈی کا مطالعہ کررہاتھا، اس مضمون میں ایک عجیب بات منکشف ہوئی،اس مضمون میں اگرشیخ مجیب الرحمان کا نام ہٹاکر اس کی جگہ عمران خان لکھ دیا جائے توشیخ مجیب الرحمان کی سیاست اور عمران خان کی سیاست میں کوئی فرق نہیں ہے، اگرچہ شیخ مجیب الرحمان اور عمران خان کے چھ نکات میں ہرگزمماثلت نہیں ہے مگر سول نافرمانی کی تحریک سے لے کر 1970میں آنے والے سیلاب کے نام پرشیخ مجیب الرحمان کی سیاست کودیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان بنگلابدھوکی کاربن کاپی ہیں، شیخ مجیب الرحمان بھی عوام کے استحصال کاذکرکرتاتھااور عمران خان بھی یہی کام کرتے ہیں ، شیخ مجیب الرحمان نے عوام کے جذبات کو استعمال کرکے جو نتیجہ دیا، وہ سب کے سامنے ہے، مجھے ڈرلگاکہ کہیں وہی کہانی دوبارہ نہ دہرائی جارہی ہو، مجھے تاریخ میں ایک اور عمران خان بھی نظرآیا، اس کی جماعت کا نام بھی پی ٹی آئی (پاکستان تحریک استقلال )تھا، ائیرمارشل ریٹائرڈاصغرخان کے پاس بھی سیاست دانوں کے خلاف خفیہ ثبوت ہواکرتے تھے، وہ بھی اسی طرح الزام لگاتے اور جلسے کرتے تھے، کیاعمران خان کی شکل میں دوسرااصغرخان قوم کومل گیاہے، یہ وہ تحفظات تھے جن کااظہارکرنا گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا
میں نے متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف لکھاہے، میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے اس طرح کی مغلظات کاسامنا نہیں کرنا پڑا ، ایم کیوایم تو خوامخواہ بدنام ہے،تحریک انصاف نے عدم برداشت کی بالکل نئی روایتوں کو جنم دیاہے،جب آصف زرداری صدرپاکستان تھے، میں نے کراچی کے پیپلزپارٹی سیکریٹریٹ میں ان کے خلاف ان کے دیرینہ کارکنوں کو خوب دلائل دیئے، سب نے تحمل سے سنا،مجھے جواب دینے کی کوشش کی، میں قائل نہیں ہوا،میں آج بھی ان کے لوگوں سے ملتاہوں، یہ لوگ میری عزت کرتے ہیں، مجھے فون کرتے ہیں مگر تحریک انصاف کی مخالفت میں ایک لفظ کہنا ملک سے غداری کے مترادف بنادیاگیاہے، جاوید ہاشمی جب تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو اس سے محض چند روزقبل میں نے لکھا کہ مسلم لیگ ن میں جاوید ہاشمی سے زیادتی ہورہی ہے، ان کو یاتو پارٹی چھوڑدینا چاہیے یا پھر اپنی پارٹی بنالینی چاہیے، اس تحریر کے جواب میں کسی نے مجھ سے نہیں کہاکہ میں نے پیسے کھائے ہیں
ایسانہیں ہے کہ عمران خان کے خلاف میرے یہ تحفظات پہلے دن سے تھے،2013کے عام انتخابات میں عمران خان نے ایک ایک دن میں پانچ پانچ انتخابی جلسے کیے اور میں نے ہرجلسے کی تقریرپوری سنی اور اس سے رپورٹ بنائی، جب عمران خان لاہورمیں لفٹرسے گرے تو میں ان لوگوں میں شامل تھاجو بلک بلک کرروئے ، میں نے تحریک انصاف کو ووٹ بھی دیا، میرے اس اعتماد میں دراڑیں تھرڈایمپائرکے ذکرنے ڈالیں، شروع میں عمران خان جب تھرڈایمپائرکاذکرکررہے تھے تو میرادل بہت پریشان تھا، میں اس وقت بھی عمران خان سے بددل نہیں تھامگر جب آرمی چیف سے ملاقات کے لیے عمران خان روانہ ہوئے تو جیسے میرا دل ٹوٹ گیا، آرمی چیف سے ملنے کی وجہ کوئی بھی ہو، کسی نے بھی درخواست کی ہومگر عمران خان جیسے پائے کے لیڈرکاوہاں جانا درست نہیں تھا، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آرمی چیف سے ملنا کوئی گناہ ہے یاوہ پاکستانی نہیں ہیں، مسئلہ صرف یہ ہے کہ جمہوری لیڈرجمہوری فیصلے عوام کے درمیان کرتاہے، طاقت وراداروں اورافرادکے ساتھ ڈرایئنگ روم میں بیٹھ کر قوموں کی تقدیرکے فیصلے ایک تیز رفتارباولر تو کرسکتاہے، ایک لیڈرایسا نہیں کرسکتا
عمران خان نے سیکریٹری داخلہ کودھمکی دی کہ وہ ان کے خاندان والوں کو پاکستان میں نہیں رہنے دیں گے، یہ دھمکی ایک مخصوص ذہنیت کی عکاس ہے، جیسے مکتی باہنی کا ایک سرپھراکارکن چٹاگانگ میں اپنے بہاری پڑوسی کو چنوتی دے رہاہو ، عمران خان نے طاہرہ آصف کے قاتلوں کاپتہ بتانے کااعلان کیا، پوری قوم کی طرح میں نے بھی انتظارکیامگر یہ دعویٰ بھی محض دعویٰ ہی رہااور جب جب یہ اعتراضات میں نے لوگوںکے سامنے رکھے تو معقول جواب تو دورکی بات ہے ،کسی نے جواب دینے کی زحمت ہی نہیں کی، صرف گالیوں سے نوازاگیا
میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے گالیاں کھاکھاکرعمران خان کو سمجھاہے، یہ ایک بہت بھاری قیمت ہے جو میں نے عمران خان کو سمجھنے کے لیے دی ہے،اس ساری داستان کو سنانے کامقصددراصل ایک اعتراف تھا کہ میں ہارگیاہوں، تحریک انصاف اور اس کی مغلظات جیت گئی ہیں
اب سے میں ایک ضمیر فروش صحافی ہوں، میں بکاومال ہوں، نوازشریف سے جہاں پہلے ہی بہت سے شکوے ہیں، وہاں اب ایک اور مزید شکوے کا اضافہ ہوگیاہے کہ مجھے لفافہ کیوں نہیں ملا، میں تسلیم کرتا ہوں کہ تحریک انصاف کے دھرنوں میں لاکھوں لوگ شریک ہیں، اگر یہ بھی کسی کو کم لگیں تو میں کروڑوں کہنے کو تیارہوں، عمران خان کے سواباقی سب جھوٹے ہیں، میں اعتراف کرتا ہوں کہ سچ صرف کپتان بولتاہے، جاوید ہاشمی ن لیگ کا جاسوس تھا اور جاسوس تحریک انصاف کے تھرڈایمپائر نہیں ہیں، افضل خان سچے تھے اور عمران خان کے بہنوئی نے جو کہا، وہ دروغ گوئی تھی
اب مجھے تحریک انصا ف کوکوئی ہمدرداورکارکن گالی نہ دے ، آپ لوگ جیت گئے ہیں
نوٹ: تحریر کے حوالے سے آفیشل ویب سائٹ پر تبصرہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں
میں ایک ضمیر فروش صحافی ہوں، چونکہ میں عمران خان کی حمایت نہیں کرتا اس لیے بکاوبھی ہوں، میں روز سینکڑوں گالیاں سنتا ہوں، مجھے عمران خان کی حمایت نہ کرنے پر صحافت کا پیشہ چھوڑنے کا بھی مشورہ دیا جاتاہے
ایسا نہیں ہے کہ میں نوازشریف کا حامی ہوں یا کرپٹ جمہوری نظام کو پسند کرتاہوں، مجھے اس سسٹم سے کوئی سروکار نہیں ہے مگر مجھے عمران خان سے تحفظات ہیں اور ان تحفظات کے اظہار نے مجھے ان تمام لوگوں کی نظروں میں گرادیا ہے جو کل تک میری ہر بات پہ واہ واہ کرتے تھے
میں دھرنے میں شرکا کی درست تعدادبتاوں تو مجھ پرتعصب کا الزام لگتا ہے، اگر غلطی سے پوچھ بیٹھوں کے عمران خان کے واضح اعلان کے باوجود تحریک انصاف نے اسمبلی میں اپنے استعفوں کااعلان کیوں نہیں کیاتو مجھ پر پھبتیاں کسی جاتی ہیں، عمران خان نے سابق چیف جسٹس کو صبح خائن کہااور شام میں تحریری معافی مانگ کر ان کو ہیروقراردے دیا، پھر اپنا یہ معافی نامہ بھی واپس لے لیا، اتنے زبردست یوٹرن پر میں نے بے تاب ہوکر سوال کیا اور جواب میں مجھے لفافہ صحافی کاطعنہ ملا
چینی صدرکادورہ ملتوی ہوا تو عمران خان نے مضحکہ خیزی سے کہاکہ لگتا ہے کہ چینی صدرکو بھی پتہ چل گیا کہ نوازشریف جانے والا ہے، مجھے یہ بات بری لگی ، میں نے اظہارکیااور ناسمجھ کہلایا، ردعمل میں میں نے چین کے اخبارات کے حوالوں سے ثابت کیاکہ دورہ نہ صرف ملتوی ہوا ہے بلکہ 35ملین ڈالر کی سرمایہ کاری تھی، وہ عمران خان کے بقول قرض نہیں تھا مگرمیری بات نقارخانے میں طوطی کی طرح ثابت ہوئی
میں کراچی میں رہتاہوں، یہاں مسلم لیگ ن کا کوئی وجودنہیں ہے مگر مجھ پر ن لیگی ہونے کاٹھپہ لگادیاگیا، میں حلفیہ کہتاہوں کہ میں نے اپنی 29سالہ مختصرزندگی میں مسلم لیگ ن کا ایک دفترتک نہیں دیکھا
جب انقلاب کارخ پارلیمنٹ ہاوس کی جانب ہواتو اس رات کالمحہ لمحہ میری آنکھوں میں جیسے نقش سا ہوگیا، خواتین شیل لگنے سے بے ہوش ہوئیں تو ایسے لگا کہ جیسے میرا دل چیردیاگیاہو، اس موقع پر میں نے سوال کیا کہ عمران خان اور طاہرالقادری کہاں ہیں، یہ لوگ کنٹینر سے باہرکیوں نہیں نکلے ، اس وقت مجھے ذوالفقارعلی بھٹو یادآنے لگا جب اس کے کارکنوں کو راولپنڈی میں ڈنڈے پڑے تو وہ ٹرک سے نیچے کود گیا اور پولیس والوں کو للکارکرکہنے لگاکہ میں ہوں بھٹو۔۔مجھے مارو
میرے ان اعتراضات پر مجھے کہاگیاکہ میں انقلاب کی تاریخ سے نابلد ہوں، حکمت عملی بھی آخرکوئی چیز ہوتی ہے،کوئی مانے یا نہ مانے میں نے اس بات کو بہت سنجیدہ لیا اوراس وقت سے اب تک انقلاب کے حوالے سے چار کتابیں پڑھ چکاہوں، میں نے ماوزے تنگ کو پڑھا، فرانس کے انقلاب کا مطالعہ کیا، ایرانی انقلاب اور برطانیہ میں پارلیمان کی بالادستی کی جدوجہد کابھی دوبارہ بغورمطالعہ کیامگر میں اعتراف کرتاہوں کہ مجھے ابھی تک شرح صدرنہیں ہوسکاکہ پاکستان میں آنے والی یہ تبدیلی اورانقلاب آخر کس قسم سے تعلق رکھتے ہیں
جاوید ہاشمی نے جب انکشافات کاسلسلہ شروع کیاتو میرے جذبات کو گویاایک کنارامل گیا، میں نے بڑے فخر سے ان انکشافات کو لوگوں کے سامنے بیان کیاتو کہاگیاکہ جاوید ہاشمی مسلم لیگ ن کے ایجنٹ ہیں ، سچ کہیں تو یہ وہ پہلا مرحلہ تھا جب مجھے غصہ آیا، صحافی ہونے کی حیثیت سے بھی مطالعہ میری عادت ہے، کتاب اور شخصیات دونوں کا بغورمطالعہ کرتاہوں، میرے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ جاوید ہاشمی کو جھوٹاسمجھوں، اس شخص نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا، اس شخص کے مقابلے میں مجھے نوازشریف کاقد چھوٹالگتاہے
اس وقت میں نے لکھا کہ اگر دھاندلی کے الزامات کی بنیادپر نوازشریف سے مستعفیٰ ہونے کامطالبہ کیاجاسکتا ہے تو عمران خان پر لگنے والے الزامات دھاندلی سے بھی سنگین ہیں، عمران خان نے عوام کے دلی جذبات کو استعمال کرکے اپنے اقتدارکی راہ ہموارکرنے کی کوشش کی ہے، انصاف کاتقاضہ ہے کہ عمران خان جس طرح محض الزامات کی بنیادپر نوازشریف سے مستعفی ہونے کامطالبہ کررہے ہیں، جاوید ہاشمی کے الزامات کے بعد خود بھی تحریک انصاف کی چئیرمین شب سے مستعفی ہوجائیں اور الزامات غلط ثابت ہونے کے بعددوبارہ سربراہی سنبھال لیں مگر جب عمران خان نے بادشاہ سلامت کی طرح جاوید ہاشمی کو پارٹی سے نکال باہر کیا تو میرے سار ے جمہوری جذبات یکلخت بچہ جمہوراہوگئے، اس وقت تک میری ہر دلیل ہارچکی تھی، مجھے اپنی ہردلیل کے جواب میں وہ وہ باتیں سننا پڑیں جو میں شرم کی وجہ سے یہاں نقل بھی نہیں کرسکتا
اسی دوران میں ذوالفقارعلی بھٹوکے مضمون دی گریٹ ٹریجڈی کا مطالعہ کررہاتھا، اس مضمون میں ایک عجیب بات منکشف ہوئی،اس مضمون میں اگرشیخ مجیب الرحمان کا نام ہٹاکر اس کی جگہ عمران خان لکھ دیا جائے توشیخ مجیب الرحمان کی سیاست اور عمران خان کی سیاست میں کوئی فرق نہیں ہے، اگرچہ شیخ مجیب الرحمان اور عمران خان کے چھ نکات میں ہرگزمماثلت نہیں ہے مگر سول نافرمانی کی تحریک سے لے کر 1970میں آنے والے سیلاب کے نام پرشیخ مجیب الرحمان کی سیاست کودیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ عمران خان بنگلابدھوکی کاربن کاپی ہیں، شیخ مجیب الرحمان بھی عوام کے استحصال کاذکرکرتاتھااور عمران خان بھی یہی کام کرتے ہیں ، شیخ مجیب الرحمان نے عوام کے جذبات کو استعمال کرکے جو نتیجہ دیا، وہ سب کے سامنے ہے، مجھے ڈرلگاکہ کہیں وہی کہانی دوبارہ نہ دہرائی جارہی ہو، مجھے تاریخ میں ایک اور عمران خان بھی نظرآیا، اس کی جماعت کا نام بھی پی ٹی آئی (پاکستان تحریک استقلال )تھا، ائیرمارشل ریٹائرڈاصغرخان کے پاس بھی سیاست دانوں کے خلاف خفیہ ثبوت ہواکرتے تھے، وہ بھی اسی طرح الزام لگاتے اور جلسے کرتے تھے، کیاعمران خان کی شکل میں دوسرااصغرخان قوم کومل گیاہے، یہ وہ تحفظات تھے جن کااظہارکرنا گویا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف تھا
میں نے متحدہ قومی موومنٹ کے خلاف لکھاہے، میں اعتراف کرتا ہوں کہ مجھے اس طرح کی مغلظات کاسامنا نہیں کرنا پڑا ، ایم کیوایم تو خوامخواہ بدنام ہے،تحریک انصاف نے عدم برداشت کی بالکل نئی روایتوں کو جنم دیاہے،جب آصف زرداری صدرپاکستان تھے، میں نے کراچی کے پیپلزپارٹی سیکریٹریٹ میں ان کے خلاف ان کے دیرینہ کارکنوں کو خوب دلائل دیئے، سب نے تحمل سے سنا،مجھے جواب دینے کی کوشش کی، میں قائل نہیں ہوا،میں آج بھی ان کے لوگوں سے ملتاہوں، یہ لوگ میری عزت کرتے ہیں، مجھے فون کرتے ہیں مگر تحریک انصاف کی مخالفت میں ایک لفظ کہنا ملک سے غداری کے مترادف بنادیاگیاہے، جاوید ہاشمی جب تحریک انصاف میں شامل ہوئے تو اس سے محض چند روزقبل میں نے لکھا کہ مسلم لیگ ن میں جاوید ہاشمی سے زیادتی ہورہی ہے، ان کو یاتو پارٹی چھوڑدینا چاہیے یا پھر اپنی پارٹی بنالینی چاہیے، اس تحریر کے جواب میں کسی نے مجھ سے نہیں کہاکہ میں نے پیسے کھائے ہیں
ایسانہیں ہے کہ عمران خان کے خلاف میرے یہ تحفظات پہلے دن سے تھے،2013کے عام انتخابات میں عمران خان نے ایک ایک دن میں پانچ پانچ انتخابی جلسے کیے اور میں نے ہرجلسے کی تقریرپوری سنی اور اس سے رپورٹ بنائی، جب عمران خان لاہورمیں لفٹرسے گرے تو میں ان لوگوں میں شامل تھاجو بلک بلک کرروئے ، میں نے تحریک انصاف کو ووٹ بھی دیا، میرے اس اعتماد میں دراڑیں تھرڈایمپائرکے ذکرنے ڈالیں، شروع میں عمران خان جب تھرڈایمپائرکاذکرکررہے تھے تو میرادل بہت پریشان تھا، میں اس وقت بھی عمران خان سے بددل نہیں تھامگر جب آرمی چیف سے ملاقات کے لیے عمران خان روانہ ہوئے تو جیسے میرا دل ٹوٹ گیا، آرمی چیف سے ملنے کی وجہ کوئی بھی ہو، کسی نے بھی درخواست کی ہومگر عمران خان جیسے پائے کے لیڈرکاوہاں جانا درست نہیں تھا، اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ آرمی چیف سے ملنا کوئی گناہ ہے یاوہ پاکستانی نہیں ہیں، مسئلہ صرف یہ ہے کہ جمہوری لیڈرجمہوری فیصلے عوام کے درمیان کرتاہے، طاقت وراداروں اورافرادکے ساتھ ڈرایئنگ روم میں بیٹھ کر قوموں کی تقدیرکے فیصلے ایک تیز رفتارباولر تو کرسکتاہے، ایک لیڈرایسا نہیں کرسکتا
عمران خان نے سیکریٹری داخلہ کودھمکی دی کہ وہ ان کے خاندان والوں کو پاکستان میں نہیں رہنے دیں گے، یہ دھمکی ایک مخصوص ذہنیت کی عکاس ہے، جیسے مکتی باہنی کا ایک سرپھراکارکن چٹاگانگ میں اپنے بہاری پڑوسی کو چنوتی دے رہاہو ، عمران خان نے طاہرہ آصف کے قاتلوں کاپتہ بتانے کااعلان کیا، پوری قوم کی طرح میں نے بھی انتظارکیامگر یہ دعویٰ بھی محض دعویٰ ہی رہااور جب جب یہ اعتراضات میں نے لوگوںکے سامنے رکھے تو معقول جواب تو دورکی بات ہے ،کسی نے جواب دینے کی زحمت ہی نہیں کی، صرف گالیوں سے نوازاگیا
میں کہہ سکتا ہوں کہ میں نے گالیاں کھاکھاکرعمران خان کو سمجھاہے، یہ ایک بہت بھاری قیمت ہے جو میں نے عمران خان کو سمجھنے کے لیے دی ہے،اس ساری داستان کو سنانے کامقصددراصل ایک اعتراف تھا کہ میں ہارگیاہوں، تحریک انصاف اور اس کی مغلظات جیت گئی ہیں
اب سے میں ایک ضمیر فروش صحافی ہوں، میں بکاومال ہوں، نوازشریف سے جہاں پہلے ہی بہت سے شکوے ہیں، وہاں اب ایک اور مزید شکوے کا اضافہ ہوگیاہے کہ مجھے لفافہ کیوں نہیں ملا، میں تسلیم کرتا ہوں کہ تحریک انصاف کے دھرنوں میں لاکھوں لوگ شریک ہیں، اگر یہ بھی کسی کو کم لگیں تو میں کروڑوں کہنے کو تیارہوں، عمران خان کے سواباقی سب جھوٹے ہیں، میں اعتراف کرتا ہوں کہ سچ صرف کپتان بولتاہے، جاوید ہاشمی ن لیگ کا جاسوس تھا اور جاسوس تحریک انصاف کے تھرڈایمپائر نہیں ہیں، افضل خان سچے تھے اور عمران خان کے بہنوئی نے جو کہا، وہ دروغ گوئی تھی
اب مجھے تحریک انصا ف کوکوئی ہمدرداورکارکن گالی نہ دے ، آپ لوگ جیت گئے ہیں
نوٹ: تحریر کے حوالے سے آفیشل ویب سائٹ پر تبصرہ کرنے کے لیے یہاں کلک کریں