میں فرط مسرت سے ڈر ہے کہ نہ مر جاؤں ٭ سردار سوزؔ

میں فرط مسرت سے ڈر ہے کہ نہ مر جاؤں
لکھا ہے مجھے اس نے میں حد سے گزر جاؤں

اک بار ہی ہو جائے ہو جائے جو ہونا ہے
اتروں میں ترے دل میں یا دل سے اتر جاؤں

جس راہ میں بھی دیکھوں میں نقش قدم ان کا
مجھ پر ہے ادب لازم اک پل تو ٹھہر جاؤں

وہ بڑھ کے لگا لیں گے خود مجھ کو گلے اپنے
جو سامنے میں ان کے با دیدہ تر جاؤں

آنکھیں جو عطا کی ہیں تو یہ بھی دعا سن لے
دیکھوں تو اسے دیکھوں یا جاں سے گزر جاؤں

کیوں آنکھ مری ظالم رہ رہ کے پھڑکتی ہے
ممکن ہے وہ آ جائیں میں بھی تو سنور جاؤں

وہ بھی تو مزا چکھیں کچھ درد محبت کا
اچھا ہے کہ دل لے کر میں صاف مکر جاؤں

کم بخت محبت بھی اک روگ ہے جاں لیوا
معلوم نہیں مجھ کو کب جاں سے گزر جاؤں

رستے کی وہی مشکل منزل کی وہی دوری
اور دل کی وہی حسرت تا حد نظر جاؤں

پلکوں سے چنوں اپنی کانٹے تری راہوں کے
جوں برگ گل حسرت راہوں میں بکھر جاؤں

گر چشم کرم ان کی ہو جائے کبھی مجھ پر
فن میرا چمک اٹھے میں اور نکھر جاؤں

جس شہر کو چھوڑا تھا مایوس وفا ہو کر
اب دل کی یہی ضد ہے واں بار دگر جاؤں

حق بات کہی میں نے ملنی ہے سزا مجھ کو
جب منزل دار آئے ممکن نہیں ڈر جاؤں

اتنی بڑی دنیا میں اک ان کا سہارا تھا
جب وہ ہی نہیں ہم دم پھر سوزؔ کدھر جاؤں
سردار سوزؔ
 
Top