طارق شاہ
محفلین
غزل
حسرت موہانی
میں مبتلائے رنجِ وطن ہوں وطن سے دُور
بلبل کے دل میں یادِ چمن ہے چمن سے دُور
آشفتہ کس قدر ہے، پریشان کِس قدر
دل ہے جو اُس کی زلفِ شکن در شکن سے دُور
ہے ہجر میں وصال، زہے خوبیِ خیال
بیٹھے ہیں انجمن میں تری، انجمن سے دُور
سب یاد ہیں فریبِ محبّت کے واقعات
اب دل رہے گا اُس نگہِ سحرفن سے دُور
فرقت میں اُن کی بُوئے گل اے بادِ نو بہار
آئے بھی تو رہے مرے بیت الحزن سے دُور
رعنائیِ خیال کو ٹھہرا دیا گناہ!
زاہد بھی کس قدر ہے مذاقِ سُخن سے دُور
غالب کی طرح رہ گئی حسرت مِری بھی شرم
مارا دیارِغیر میں، مجھ کو وطن سے دُور
حسرت موہانی