ملک عدنان احمد
محفلین
میں مطمئن تھا کہ میں نے تجھ کو اب اپنے دل سے مٹادیا ہے
نجانے کل رات کیوں تری یاد نے مجھے پھر رلا دیا ہے
یہ ضبط ہے یا کہ ہے تغافل، میں کشمکش میں ہوں تم بتاؤ
میں یاد آتا ہوں تم کو اب بھی، یا تم نے سچ مچ بھلا دیا ہے
وہ خشک پتوں کی چرچراہٹ، ہوا کی سازش تھی یا کہ تم تھے
وہ تم نہیں تھے تو کس کی آہٹ نے نصفِ شب میں جگا دیا ہے
یوں لگ رہا تھا وہی سراپا، وہی لچک تھی، وہی تھی شوخی
مرے تخیل نے مورنی کو تمہارے جیسا دِکھا دیا ہے
یہ لفظ کب ہیں جگر کا خوں ہے، جسے مری ڈائری میں کل شب
مری ان آنکھوں سے قطرہ قطرہ تمہارے غم نے بہا دیا ہے
تمام رستے نری تمازت، کہیں پہ چھاؤں نہ کوئی سایہ
بڑا کٹھن پیار کا سفر تھا، مجھے تو اس نے جلا دیا ہے
بڑا بہادر تھا تیرا احمد، گرا نہیں تھا، سنبھلتا آیا
مگر تری بے رخی نے منزل پہ آکے اس کو گرا دیا ہے
(ملک عدنان احمد)