مہدی نقوی حجاز
محفلین
میں نے انساں سے محبت کی ہے۔۔۔
'چلو سنو! ایک دفعہ ایک ماں ہوتی ہے ایک بیٹا۔ ایک غریب محنتی باپ۔ رمضان المبارک کی شب ہوتی ہے اور اگلے دن روزے کا پہلا دن ہوتا ہے۔ ماں، رات ہوتی ہے تو کہتی ہے کہ کل روزہ ہے، سحری کرنی ہے۔ لیکن کیا کروں کہ گھر میں کچھ بھی تو نہیں۔ پھر ماں گھر کا کچھ اساسہ اپنے میاں کے حوالے کرتی ہے کہ جاؤ بیچ کر روپوں سے سحری اور افطاری میں کھانے کو کچھ لے آؤ۔۔۔''ارے کیا غضب ہے یہ؟! کچھ خوفِ خدا کرو۔ بچوں کو یہ کیا چرت و پرت سناتی ہو؟۔۔'
'ہاں۔ تو چھوٹے لڑکے کے ابو وہ سامان لے کر بازار چلے جاتے ہیں۔ بہت رات ہو جاتی ہے لیکن ان کا سامان بالکل نہیں بکتا۔ سحری کا وقت قریب آجاتا ہے تو وہ دل سے کہتے ہیں کہ اب میں گھر کس منہ سے جاؤں، نہ پیسے آئے ہیں نہ ہی کھانے کو کچھ میسر ہوا ہے۔ یہ سوچ کر وہ گھر ہی نہیں جاتے۔ یہاں امی اور چھوٹا لڑکا بو کا انتظار کرتے کرتے سو گئے ہوتے ہیں۔ سحری کے وقت امی کی آنکھ کھلتی ہے تو کیا دیکھتی ہیں کہ چھوٹا لڑکا بھی جاگ رہا ہے، اور ابو کا کوئی پتہ نہیں ہے۔ چھوٹا لڑکا امی سے کہتا ہے کہ ابو تو ابھی تک آئے نہیں، آپ روزہ کیسے رکھیں گی؟ تو امی کہتی ہیں کہ مین پانی پی کر روزہ رکھ رہی ہوں تو اس پر چھوٹا لڑکا۔۔۔'
'میں منع کر رہا ہوں! کیوں خواہ مخواہ بچوں کو ایسی کہانیاں سناتی ہو؟ انکے احساسات کو خدشہ پہنچے گا۔۔۔'
'تم بھی تو یہی سن کر بڑے ہوئے ہو ناں۔۔۔ ہاں تو چھوٹا لڑکا کہتا ہے کہ چلیں پھر میں بھی پانی پی کر روزہ رکھ لیتا ہوں۔ پھر چھوٹا لڑکا اور امی دونوں پانی پی کر روزہ رکھ لیتے ہیں۔ دوپہر میں امی چھوٹے لڑکے سے کہتی ہیں کہ بیٹا آپ پانی پی لیں۔ چھوٹا لڑکا کہتا ہے کہ نہیں امی میں روزہ پورا رکھوں گا۔ شام ہوتی ہے تو لڑکے پر غشی طاری ہونے لگتی ہے۔ امی پھر کہتی ہیں بیٹا پانی پی لیں آپ نے سحری میں بھی کچھ نہیں کھایا ہے۔ لیکن چھوٹا لڑکا منع کر دیتا ہے۔ پھر کچھ دیر میں اسکے ابو بھی آجاتے ہیں افطاری کا سامان لے کر۔ اب امی اور وبو دونوں چھوٹے لڑکے کے لیے پریشان ہوتے ہیں۔ وہ آنکھیں نہیں کھول رہا ہوتا۔۔۔'
'توبہ۔ بھئی بہت غلط بات ہے۔ بچوں کی ذہنیت پر خراب اثر پڑ رہا ہے۔۔۔'
'امی آپ سنائیں ناں!'
'ہاں تو جیسے ہی افطاری کا وقت ہوتا ہے لڑکا آنکھیں کھول لیتا ہے اور امی ابو اور اللہ بھی خوش ہو جاتے ہیں۔'
'ان معصوم بچوں کو نہ سنایا کرو یہ سب چیزیں۔ انکی عمر تو ابھی نامِ خدا پریوں کی کہانیاں سننے کی ہے۔۔۔'
'ذرا مجھے بتانا پھر خدا کی محبت کہاں جائے گی؟'
'ارے! یہ کیا طریقہ ہوا بھلا خدا کی محبت دلوں میں پیدا کرنے کا؟ بھئی ایسی چیزوں سے بچوں کے عقیدوں میں جھول پڑتا ہے۔ ان کے دلوں میں نادانستہ شدت پسندی کا عنصر پیدا کر رہی ہو تم۔ کچھ اچھی، لطیف کہانیاں سنایا کرو کہ ان کے ذوق کی بھی پرورش ہو اور ان کی 'need' بھی پوری ہو۔۔۔'
'ہاں تا کہ تم سے دو چار اور شاعر، لکھاری بنے پھرتے رہیں۔ خدا سے اتنا کفر کیوں برتتے ہو بھلا؟ میں نے تو غضب خدا کا ایسی پرورش نہیں کی تھی۔ تمہارے ابّا کا ہی کیا دھرا ہے۔ ذوق کی تسکین کے نام پر کتابیں لا لا کر دیے تھے۔ یہ تو میاں کافر ہو گئے۔ میرا بس چلتا تو ساری کتابیں راکھ کر دیتی۔ توبہ۔۔۔'
'کیسی باتیں ہیں بھئی۔ استغفار۔ کتابیں جلانے کا تذکرہ کرتی ہو! اسلام کی خودساختہ پیالی سے باہر آکر بھی دیکھو۔آسمان اس پیالی کے دہانے سے کئی زیادہ بڑا ہے۔ میں تو انسان سے محبت کا قائل ہوں بھئی۔۔۔'
'ہاں۔ تبھی ان کلموئیوں کی نازبرداری میں وقت، روپیہ۔۔۔'
'ارے سن بھی لو۔ تم ہر وقت ہاتھ دھو کر ان بیچاریوں کے پیچھے کیوں پڑی رہتی ہو؟ میں کہہ رہا تھا کہ خدا کی محبت تو بڑی چیز ہے۔ سخت حاصل ہے۔ پہلے بندہ انسان سے محبت کرنا تو سیکھ لے۔۔۔'
'ہاں بس محبت، عشق کے پیچھے ہی رہنا۔ کسی کے کچھ کام نہ آنا!'
'ارے یہ چھوٹا ادھورا انسان کسی کے کیا کام آ سکتا ہے۔ کام آنے والا تو خدا ہے۔ ہم تو انسانوں سے محبت ہی کر لیں بڑی بات ہے۔ تا کہ آخری دن جب نتیجہ کھلے تو خدا سے بقول احمدندیم قاسمی یہ تو کہہ سکیں کہ
تو مرا نامۂِ اعمال تو دیکھ
میں نے انساں سے محبت کی ہے
تم تو محض یہ بتاؤ گے کہ خدا ہم نے تجھ سے محبت کرنے کی کوشش کی ہے، کوشش۔ خود ہی بتاؤ بھلا کوئی وثوق سے یہ کہہ سکتا ہے کہ میں خدا سے بہ معنائے حقیقی محبت کرتا ہوں۔ کہہ سکتا ہے؟!'