حسیب احمد حسیب
محفلین
میں نے اور جبریل نے دیکھا ...!
دوزخ کی دیوار پہ چڑھ کر
میں نے اور جبریل نے دیکھا
جو نہ کبھی سوچا تھا میں نے
حیراں حیراں دیکھ رہا تھا
دوزخ کی گھاٹی میں ہر سو
وحشت تھی اک حشر بپا تھا
ایسا منظر کیا بتلاؤں
میرا کلیجہ کانپ رہا تھا
میں نہ کبھی بھولوں گا توبہ
میں نے دیکھا جو نظّارا
لعنت لعنت بول رہا تھا
دوزخ کا ہر منظر گندا
ننگی ننگی ٹانگوں والے
بدصورت بد ہیت لبرل
خوف زدہ زنخوں کے پیچھے
بھاگ رہے تھے کہہ کے " ھررا "
"بچ کے کہاں جاؤ گے ؟" کہہ کے
وہ دیوانے ناچتے گاتے
چاروں طرف سے گھیر کے ان کو
ہنستے، کدکتے، شور مچاتے
ڈر کے چیخیں مار رہے تھے
زنخے ریشمی کپڑوں والے
ان کے دل دھک دھک کرتے تھے
دیکھ کے لبرل ننگے پنگے
میں نے اور جبریل نے بولا
اپنے قہر کی آگ میں انکو
دوزخ کی اس تیز تپش میں
اے معبود جلانا
تو ، تو.!
حسیب احمد حسیب
نوٹ : راجہ مہدی علی خان کی ایک نظم " میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے " ایک طویل عرصے سے طالب جواب تھی سو آج یہ قرض خادم نے اتارنے کی کوشش کی ہے .
دوزخ کی دیوار پہ چڑھ کر
میں نے اور جبریل نے دیکھا
جو نہ کبھی سوچا تھا میں نے
حیراں حیراں دیکھ رہا تھا
دوزخ کی گھاٹی میں ہر سو
وحشت تھی اک حشر بپا تھا
ایسا منظر کیا بتلاؤں
میرا کلیجہ کانپ رہا تھا
میں نہ کبھی بھولوں گا توبہ
میں نے دیکھا جو نظّارا
لعنت لعنت بول رہا تھا
دوزخ کا ہر منظر گندا
ننگی ننگی ٹانگوں والے
بدصورت بد ہیت لبرل
خوف زدہ زنخوں کے پیچھے
بھاگ رہے تھے کہہ کے " ھررا "
"بچ کے کہاں جاؤ گے ؟" کہہ کے
وہ دیوانے ناچتے گاتے
چاروں طرف سے گھیر کے ان کو
ہنستے، کدکتے، شور مچاتے
ڈر کے چیخیں مار رہے تھے
زنخے ریشمی کپڑوں والے
ان کے دل دھک دھک کرتے تھے
دیکھ کے لبرل ننگے پنگے
میں نے اور جبریل نے بولا
اپنے قہر کی آگ میں انکو
دوزخ کی اس تیز تپش میں
اے معبود جلانا
تو ، تو.!
حسیب احمد حسیب
نوٹ : راجہ مہدی علی خان کی ایک نظم " میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے " ایک طویل عرصے سے طالب جواب تھی سو آج یہ قرض خادم نے اتارنے کی کوشش کی ہے .
آخری تدوین: