چونکہ تھوڑا بہت تعلق فلسفے سے رہا ہے اسلئے علامات کی کی تھوڑی بہت سمجھ ضرور ہے اب اگر اصل نظم میں موجود علامات ملاحظہ کیجئے تو جن معانی کا ظہور ہوتا ہے انکے پیچھے کیا کہانی ہے یہ ایک مخالف نظریہ رکھنے والا ہی جان سکتا ہے کہ چوٹ کہاں ماری جا رہی ہے ...
اگر علامات کا بیان بزبان ادب ہو تو ایک طرف معنویت میں اضافہ ہوتا ہے تو دوسری جانب تہ داری اور پیچیدگی کہیں زیادہ بڑھی ہوئی دکھائی دیتی ہے بظاھر سیدھے اور آسان سے الفاظ علامت بن جاتے ہیں گفتگو اصطلاحات میں چھپ کر ہوتی ہے اور مضمون سامنے ہونے کے باوجود کہیں پوشیدہ رہتا ہے ...
اصل نظم کا عنوان ہے
" میں اور شیطان دیکھ رہے تھے "
اور جوابی نظم ہے
" میں نے اور جبریل نے دیکھا "
یہاں دو علامات کا ٹکراؤ ہے اسے خالص فلسفہ دین اور فلسفہ لا دینیت کے تناظر میں ملاحظہ کیجئے یعنی یہ ایک فلسفیانہ بحث ہے کہ جو علامات کے پیچھے چھپ کر لڑی گئی ہے ...
عجیب بات ہے کہ اعتراض وہاں پر بھی ہوا کہ جہاں بنتا نہیں
نظم میں " میں " سے نہ تو مہدی علی خاں مراد ہیں
اور نہ ہی جواب آں نظم میں حسیب احمد حسیب اور یہ کافی سامنے کی بات ہے
" میں " فرق ہے دو نظریات کا ایک جانب لبرل کی آنکھ ہے اور دوسری جانب صوفی کی نگاہ
اب " جبریل " کہ جو علامت ہے ہدایت کی
اور شیطان کہ جو علامت ہے گمراہی کی .......
ہر دو مقابل ہیں ....
جبریل کا دیکھنا اور جبریل کی آنکھ سے صوفی کا دیکھنا معرفت کا معاملہ
شیطان کا دیکھنا اور اسکی آنکھ سے لبرل کا دیکھنا دھوکے کا منظر ہے ..
آگے چلیے
پہلا بند
جنت کی دیوار پہ چڑھ کر
میں اور شیطاں دیکھ رہے تھے
جو نہ کبھی ہم نے دیکھا تھا
ہو کر حیراں دیکھ رہے تھے
جوابی بند
دوزخ کی دیوار پہ چڑھ کر
میں نے اور جبریل نے دیکھا
جو نہ کبھی سوچا تھا میں نے
حیراں حیراں دیکھ رہا تھا
یہاں دوزخ یا جنت کے مناظر کا حیران کن ہونا کوئی اختلافی امر نہیں
" میں " کی وضاحت اوپر آ چکی
لازمی امر ہے کہ جب مہدی علی خان " جنت " کا مقدمہ اٹھاتے ہیں تو
جواب میں دوزخ کا منظر ہی دکھایا جاوے گا ......
دوسری طرف مبصر ہیں " جبریل "
اور
شیطان .......