میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں ۔ ڈاکٹر اسلم انصاری

میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھہرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھلایا بھی نہیں
جانے والوں کو کہاں روک سکا ہے کوئی
تم چلے ہو تو کوئی روکنے والا بھی نہیں
دور و نزدیک سے اٹھتا نہیں شورِ نجیر
اور صحرا میں کوئی نقشِ کفِ پا بھی نہیں
بے نیازی سے سب ہی قریہِ جاں گزرے
دیکھتا کوئی نہیں ہے کہ تماشا بھی نہیں
وہ تو صدیوں کا سفر کرکے یہاں پہنچا تھا
تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں
گل بہ ہر رنگ تبسم کا گنہگار رہا
زخم ہستی کا سوا اس کے مداوا ابھی نہیں
کون سا موڑ ہے کیوں پاوں پکڑتی ہے زمیں
اس کی بستی بھی نہیں کوئی پکارا بھی نہیں
کس کو نیرنگ ایام کی صورت دکھلائیں
رنگ اڑتا بھی نہیں نقش ٹھہرتا بھی نہیں
اک مسافر کے کسے تیری طلب ہے کب سے
احتراما تیرے کوچے سے گزرتا بھی نہیں

ڈاکٹر اسلم انصاری
 
آخری تدوین:
Top