میں نے نواز شریف کو موت سے کیسے بچایا؟

جاسم محمد

محفلین
میں نے نواز شریف کو موت سے کیسے بچایا؟
23/02/2019 طاہر محمود چوہدری


پاکستان کے سیاسی اور صحافتی منظر نامے پر گزشتہ کئی ہفتوں سے میاں نواز شریف کی دوبارہ مبینہ ”ڈیل“ یا ”ڈھیل“ کے حوالے سے گرما گرم بحث جاری ہے۔ اور یارلوگ بڑی دور کی کوڑی ڈھونڈ کر لا رہے ہیں۔ اس حوالے سے وزیراعظم عمران خان اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی لبنانی وزیراعظم سعد حریری کے درمیان گفتگو کے بڑے چرچے ہوئے۔ اور ان سے کہا گیا ہے کہ وہ ماضی میں اپنے والد کی طرح آئندہ کسی ایسی ڈیل کا حصہ نہ بنیں۔ حالانکہ کسی حریری نامی شخص کا اس ڈیل سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں ہے۔

ابھی یہ بحث جاری تھی کہ اسی دوران مقبوضہ کشمیر کے علاقے پلوامہ میں بھارتی فوج کے 40 سے زائد فوجیوں کے ایک خودکش حملے میں ہلاکت کی خبر آ گئی۔ اور اس کے بعد سے دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کے بادل 20 سال پہلے کارگل جنگ کے بعد سے دوبارہ منڈلانے شروع ہو گئے ہیں۔

جب دو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک کی فوجیں آمنے سامنے آ گئی تھیں۔ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی درخواست پر امریکی صدر بل کلنٹن کی مداخلت سے یہ جنگ ٹلی اور پاکستان کارگل سے غیر مشروط طور پر اپنی فوجیں واپس بلانے پر راضی ہوا۔ وہ الگ بات ہے کہ اس کا خمیازہ نواز شریف کو جنرل پرویز مشرف سے محاذ آرائی کے باعث 12 اکتوبر 1999 ء کو اپنی حکومت کے خاتمے کی صورت برداشت کرنا پڑا۔ بعدازاں نواز شریف طیارہ سازش کیس میں گرفتار ہوئے۔ چودہ ماہ جیل میں رہنے کے بعد امریکی صدر بل کلنٹن دوبارہ پس پردہ رہ کر مدد کو آگے بڑھے اور نواز شریف کو کنگ عبداللہ کی مدد سے جنرل پرویز مشرف کے چنگل سے نکال کر سعودی عرب لے گئے۔



”نواز شریف بچاؤ“ مشن کیسے کامیابی سے پایہءتکمیل تک پہنچا؟ آئیے اس مشن کے انچارج بروس ریڈل (Bruce Riedel) کی زبانی یہ ساری کہانی سنتے ہیں۔ پہلے بروس ریڈل کا تھوڑا سا تعارف ہو جائے۔

66 سالہ بروس ریڈل امریکی سی آئی اے میں بطور اینالسٹ اور کاؤنٹر ٹرئیزم ایکسپرٹ، اپنی 29 سالہ مدتِ ملازمت پوری کرنے کے بعد 2006 ء میں رئٹائر ہو گئے۔ اس دوران وہ چار سابق امریکی صدور، جارج ہنری بش (بش سنئر) بل کلنٹن، جارج ڈبلیو بش اور باراک اُبامہ کے مشیر اور سپیشل اسسٹنٹ برائے مڈل ایسٹ اور ساؤتھ ایشیاء امور رہے۔ 1997 تا 2001 ء وہ صدر بل کلنٹن کے سپیشل اسسٹنٹ برائے نیشنل سیکورٹی کونسل تھے۔

2008 ء میں صدر ابامہ کی صدارتی الیکشن مہم میں پالیسی مشیر کے علاوہ فروری 2009 ء میں صدر ابامہ نے انہیں چئر آف وائٹ ہاؤس ریویو کمیٹی برائے پاکستان اور افغانستان فارن پالیسی بنایا۔

بروس ریڈل کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ علاوہ ازیں واشنگٹن کی جان ہپوکن یونیورسٹی کے سکول آف ایڈوانس سٹڈیز میں پروفیسر ہیں۔ اور آج امریکی تھنک ٹینک بروکنگس انٹیلی جنس میں پراجیکٹ ڈائریکٹر اور بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے ہی سبان سنٹر برائے مڈل ایسٹ پالیسی میں سنئر فیلو کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ اور اس کے علاوہ آج کل اسرائیل نیوکلیئر ڈاکٹرائن پر کتاب بھی لکھ رہے ہیں۔

بروس ریڈل نے بھارت اور پاکستان کے 1998 ء میں ایٹمی دھماکے کرنے کی اندرونی کہانی سمیت کارگل جنگ، پاکستان کی جانب سے غیر مشروط جنگ بندی اور فوجوں کی واپسی اور نواز شریف کی سعودی عرب ڈیل کی ساری روداد بطور ایک چشم دید کے اپنی کتاب ”Avoiding Armageddon: America، India And Pakistan To the Brink and Back“ میں تفصیل کے ساتھ بیان کی ہے۔



بروس ریڈل کے مطابق 1998 ء میں امریکہ کو ایسی اطلاعات تھیں کہ بھارت ایٹمی دھماکے کر سکتا ہے۔ اسی بنا پر ایک اعلیٰ سطحی تین رکنی وفد نے بھارت کا دورہ کیا۔ تاکہ بھارت کو ایسے دھماکوں سے باز رکھا جا سکے۔ بطور صدر کے سپیشل اسسٹنٹ برائے ساؤتھ ایشیاء امور، مجھ سمیت اس وفد میں ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ سٹروب ٹالبوٹ اور اسسٹنٹ سیکرٹری برائے ساؤتھ ایشیاء کارل انڈرفرتھ شامل تھے۔ بھارت کے وزیراعظم واجپائی نے وفد کو یقین دہانی کرائی تھی کہ بھارت ایٹمی دھماکے نہیں کرے گا۔

تاہم ہمیں بھارت سے واپس آئے ہوئے ابھی بمشکل ایک ماہ بھی نہیں ہوا تھا کہ مئی 1998 ء میں بھارت نے یکے بعد دیگرے کئی ائٹمی دھماکے کر دیے۔ بھارت کے اس حیران کن اقدام پر صدر بل کلنٹن سی آئی اے، اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ سمیت تمام ایسے متعلقہ افراد پر سخت برہم تھے جو بھارت کے ساتھ مذاکرات میں شامل تھے۔ صدر کا موقف تھا کہ اب بھارت پر اس کی فوجی اور اقتصادی امداد سمیت دیگر پابندیاں لگانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے بھارت نے اس موقع پر اپنے ایٹمی دھماکے کرنے کا جواز پاکستان کی بجائے چین کو قرار دیا تھا۔

بروس ریڈل کے مطابق بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد اب توقع تھی کہ پاکستان بھی ایسا ضرور کرے گا۔ لہذا پاکستان کو اس کے ارادوں سے باز رکھنے کے لیے واشنگٹن سے جو ٹیم پاکستان بھجوانے کا فیصلہ کیا گیا، میں بھی بطور نیشنل سیکورٹی کونسل کے مشیر اور صدر بل کلنٹن کے سپیشل اسسٹنٹ فار ساؤتھ ایشیاء ایک رکن کے اس ٹیم کا حصہ تھا۔ دوسرے دو اراکین سٹروب تالبوٹ (ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ) اور کارل انڈر فرتھ (اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ برائے ساؤتھ ایشیاء) شامل تھے۔ ہمیں یہ ”مشن ایمپوسیبل“ دیا گیا تھا کہ پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے باز رکھا جائے۔

بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ ہم تینوں امریکی سنٹ کام کے جنرل انتھونی زینی کے خصوصی جہاز پر پاکستان پہنچے۔ اس وقت امریکی ایئر فورس کے پاس غالباً یہ سب سے قدیم ترین طیارہ تھا۔ جو بالآخر ہمیں امریکی شہر ٹیمپا بے سے اسلام آباد پہنچانے میں کامیاب ہو گیا۔

اسلام آباد کا ماحول، خصوصاً وزیراعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ سخت سراسیمگی کے عالم میں تھی۔ پاکستانی میڈیا، اہم ایلیٹ سمیت پاکستان کے سائنسدان خصوصاً ڈاکٹر اے کیو خان ایٹمی دھماکے کے لیے گرین سگنل چاہ رہے تھے۔ پاکستانی وزیرِ خارجہ دھماکوں کے لیے چیخ رہا تھا۔ ایسے ماحول میں ہم نے محسوس کیا کہ صرف ایک آواز تھی، اور وہ تھی آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت کی۔ وہ واحد شخص تھے جو ہمیں ٹھنڈے دماغ کے ساتھ محسوس ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کے پاس اب ایٹمی دھماکے کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں ہے۔ اگر اب اس نے ایسا نہ کیا تو وہ اپنے ہی ملک میں اپنی کریڈبلٹی کھو بیٹھیں گے۔

ایسے وقت میں ہمارے لیے پاکستان میں کوئی خوش گوار صورتحال نہ تھی۔ وزیر خارجہ گوہر ایوب خاں نے سٹروب تالبوٹ کو بتایا تھا کہ اب جبکہ بھارت ایٹمی دھماکے کر کے دینا کی چھٹی ایٹمی قوت بن چکا ہے ہے۔ اب یہ دوڑ نہیں رکے گی۔ بلکہ بھارت اب آگے بڑھ کر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی مستقل نشست کی ڈیمانڈ کرے گا۔

بروس ریڈل کہتے ہیں کہ اس وقت ہمیں جو فوری امید نظر آئی وہ یہ تھی کہ نواز شریف کو ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کے لیے آخری امید کے طور پر پاکستان کو اقتصادی اور فوجی امداد کی آفر کی جائے۔ ایف 16 طیاروں سمیت پریسلر ترمیم کو ختم کرنے اور عالمی سپورٹ کی یقین دہانی کرائی جائے۔ ایٹمی دھماکوں سے باز رکھنے کے لیے اس موقع پر نواز شریف کو 6 بلین ڈالر کی امداد کی پیشکش کی گئی۔ اور امریکہ کے سٹیٹ وزٹ کی دعوت بھی دی گئی تھی۔

جبکہ نواز شریف کی جانب سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ امریکہ مسئلہ کشمیر پر ثالثی کرے اور صدر کلنٹن اپنا آئندہ دورہ صرف پاکستان کا کریں۔ وہ بھارت کا دورہ نہ کریں۔

بروس ریڈل لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے کہ ہم پاکستان کا اپنا دورہ ختم کرکے واپس روانہ ہوتے۔ نواز شریف نے فوج اور سائنسدانوں کو ایٹمی دھماکے کرنے کے لیے اجازت دے دی۔ اس طرح پاکستان نے مئی 26 اور مئی 30 کو اپنے ایٹمی دھماکے کر دیے۔

اور اس کے ساتھ ہی پاکستان کی جانب سے یہ کہا گیا کہ اسرائیل اور بھارت پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملوں کا منصوبہ بنائے ہوئے تھے۔ جبکہ یہ صرف ”سموک سکرین“ تھا۔

کارگل کی جنگ کے حوالے سے بروس ریڈل کا کہنا ہے کہ نواز شریف اس مسئلہ پر امریکی اعانت کے لیے 4 جولائی 1999 ء کو واشنگٹن پہنچے۔ اور انہیں اعلیٰ مہمانوں کے لیے بنائے گئے ”بلئیر ہاؤس“ میں ٹھہرایا گیا۔ بعدازاں نواز شریف کلنٹن تاریخی ملاقات ملاقات میں تیسرا واحد شخص میں تھا جو اس ملاقات کے نوٹس لینے کے لیے ”بطور نوٹ ٹیکر“ ساتھ بیٹھا تھا۔

امریکی نیشنل سیکورٹی کونسل کے مشیر سمؤیل سینڈی برجر نے دونوں سربراہوں کی اس ملاقات سے قبل وائٹ ہاؤس میں صدر کلنٹن کو بریفنگ دیتے ہوئے انہیں باور کرایا کہ دونوں ممالک پاکستان اور بھارت اس وقت ایٹمی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ اور دونوں ممالک سمیت پوری دنیا کا امن خطرے میں ہے۔ آپ کا صرف ایک شاٹ دونوں ممالک کو تباہی سے بچا سکتا ہے۔ آخر میں برجر نے صدر کو مشورہ دیا تھا کہ نواز شریف کو سن لیا جائے تاہم کارگل سے پاکستان کی فوجوں کے مکمل اور غیر مشروط انخلاء کے مطالبے پر سختی سے سٹنڈ لیا جائے۔ سینڈی برجر کی اس ایک گھنٹے کی متاثر کن بریفنگ کے بعد ہی صدر کلنٹن نواز شریف سے ملاقات پر رضا مند ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ اس وقت کے واشنگٹن میں سعودی سفیر پرنس بندر بن سلطان کا بھی خصوصی سفارتی کردار تھا۔

کتاب کے مطابق اس سے پہلے 4 جولائی 1999 ء کی صبح ہی سی آئی اے نے اپنی ”ڈیلی بریف“ میں صدر کو متنبہ کیا گیا تھا کہ پاکستان جوہری جنگ کے لیے اپنے ہتھیاروں کی نقل و حرکت کر رہا ہے۔ اور ممکن ہے کہ اسے بھارت کے خلاف استعمال میں لے آئے۔

نواز شریف صدر کلنٹن سے ملاقات کے لئے امریکہ کے اس دورے پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے ہمراہ آئے تھے۔ جو ان حالات میں ایک غیر معمولی بات تھی۔ اور وہ شاید یہ محسوس کر رہے تھے کہ اپنے اس اقدام کے نتیجے میں آنے والے حالات ان کے لیے کس قدر ناموافق ہو سکتے ہیں۔

واشنگٹن میں صدر کلنٹن نواز شریف سے ملاقات کے لئے اپنے رفقاء کے ساتھ بلئیر ہاوس پہنچے۔ ابتدائی تعارف اور خیر مقدمی کلمات کے بعد نواز شریف نے کہا کہ ملاقات ون آن ون ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی دونوں جانب کے عہدیدار ایک ایک کر کے مرکزی کمرے سے باہر نکل آئے۔ اب کمرے میں صدر کلنٹن، نواز شریف اور میں (بروس ریڈل) رہ گئے۔



صدر کلنٹن نے گفتگو کا آغاز کیا تو نواز شریف نے میری موجودگی پر اعتراض کیا تو صدر نے کہا کہ یہ ساتھ ہی بیٹھیں گے۔ نواز شریف نے اپنی پوزیشن واضح کی۔ اور صدر کلنٹن پر زور دیا کہ وہ اس مسئلے سمیت پاکستان بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر ثالثی کریں۔ صدر کلنٹن کا زور دے کر کہنا شروع کیا کہ یہ بعد میں دیکھا جائے گا۔ پہلے پاکستان کارگل سے اپنی افواج فوری طور پر واپس بلائے۔ اس موقع پر صدر نے نواز شریف کو پہلے سے تیار شدہ دو ڈرافٹ دکھائے۔ ایک پاکستان کی جانب سے اپنی افواج کا کارگل غیر مشروط انخلاء کا اعلان اور دوسرے ڈرافٹ میں افواج نہ ہٹانے جانے کی صورت میں امریکہ کی جانب سے گارگل جنگ شروع کرنے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈالے جانے سمیت ایک دوسرے ملک بھارت کے خلاف مسلط کی گئی اس جنگ کو جارحیت قرار دیا گیا تھا۔

صدر کلنٹن کا لہجہ مسلسل تند سے تند ہوتا جارہا تھا۔ انہوں نے ایک موقع پر نواز شریف سے پوچھا کہ کیا وہ ایٹمی جنگ کے نتائج سے آگاہ ہیں۔ اور کیا انہوں ایٹمی میزائلوں کی نقل و حرکت کی اجازت دی ہے۔ اس سوال کے بعد نواز شریف نے ایک بار پھر مجھے براہ راست کمرے سے باہر جانے کے لیے کہا۔ جس پر صدر کلنٹن نے ہاتھ کے اشارے سے مجھے بیٹھے رہنے کے لیے اصرار کیا۔

نواز شریف نے جواب میں کہا کہ ایٹمی جنگ کا نتیجہ تباہی ہو گا۔ اور انہوں اپنے اداروں کو ایسا کوئی حکم نامہ جاری نہیں کیا۔ ملاقات شروع ہونے کے نوے منٹ کے بعد نواز شریف تھکے تھکے اورمضمل سے نظر آنے لگے جس پر صدر کلنٹن نے کہا کہ اب کچھ وقت کے لیے بریک لیتے ہیں اور اپنے مشیروں سے ملاقات کے بعد دوبارہ اگلا سیشن شروع ہو گیا۔ آدھے گھنٹے کے بعد دوبارہ جب ملاقات شروع تو نواز شریف کی جانب سے کارگل سے فوجوں کے مکمل انخلاء اور غیر مشروط واپسی کی یقین دہانی کرائی گئی۔

پہلے سے تیار کردہ ایک ڈرافٹ یعنی مشترکہ اعلامیہ میں نواز شریف کی جانب سے سے کچھ رد و بدل کرنے کا کہا گیا جس کو تسلیم کر لیا گیا۔ نواز شریف کارگل سے اپنی افواج کی غیر مشروط واپسی پر راضی ہو گیا تاہم ا سے بعد ازاں اس کی قیمت اپنی حکومت کے خاتمے کے عوض چکانی پڑی۔ اور یوں جنرل پرویز مشرف اور اس کے حمایت یافتہ جرنیلوں نے فوجی بغاوت کے ذریعے نواز شریف کی حکومت 12 اکتوبر 1999 ء ختم کر کے ملک کی باگ ڈور سنبھال لی۔ تاہم اس ملاقات کے نتیجے میں دونوں ممالک ایک خوف ناک ایٹمی جنگ سے بچ گئے۔

بروس لکھتے ہیں کہ نواز شریف کے چھوٹے شہباز شریف سے میری پہلی ملاقات 1999 ء کے اوائل میں واشنگٹن میں ہوئی تھی۔ جب وہ صدر کلنٹن اور وہائٹ ہاؤس کو خبردار کرنے کے لیے آئے تھے۔ کہ جنرل پرویز مشرف اس کے بھائی نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ مجھ سمیت ملاقات میں موجود دیگر عہدیداروں نے شہباز شریف کو بڑے ہمدردانہ روئیے اور سکون کے ساتھ سنا۔ مگر ایک ایٹمی ہتھیار رکھنے والے ملک پاکستان میں میں فوجی مداخلت کو نہ روک سکے۔



12 اکتوبر 1999 ء کو فوجی بغاوت کے بعد نواز شریف پر طیارہ سازش کیس بنایا گیا۔ جس پر اسے سزائے موت کا سامنا تھا۔

بروس ریڈل لکھتے ہیں کہ مارچ 20 تا 25، 2000 ء، صدر کلنٹن نے ساؤتھ ایشیائی ممالک بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان کا دورہ کیا۔ وہ تقریباً پانچ دن بھارت کے دورے پر رہے۔ اور صرف چند گھنٹوں کے لیے پاکستان کے دورے پر گئے اس موقع پر کلنٹن مشرف ملاقات سخت تناؤ کا شکار رہی۔ اس ملاقات کے دوران بھی میں بطور ”نوٹس ٹیکر“ میں موجود تھا۔

صدر کلنٹن کی جانب سے اٹھائے گئے سارے نکات کے ساتھ جنرل مشرف نے اختلاف کیا۔ ماسوائے ایک نقطے کے جس پر انہوں نے آمادگی ظاہر کی کہ وہ نواز شریف کو پھانسی نہیں دیں گے۔

بروس ریڈل کے مطابق صدر کلنٹن نے انہیں یہ مشن سونپا کہ وہ کسی قیمت پر بھی نواز شریف کو سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی طرح موت کے منہ میں جاتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ اگر ایسا ہوا تو یہ پاکستان کے لیے مکمل تباہی کا باعث ہو گا۔ اس کے لیے انہیں جہاں تک بھی جانا پڑے وہ جائیں۔ اور نواز شریف کو موت کے منہ سے بچائیں۔

بروس ریڈل کے مطابق، میں ان دنوں وہائٹ ہاؤس میں صدر کی نیشنل سیکورٹی کونسل میں صدر کلنٹن کا بطور پرسنل اسسٹنٹ تعینات تھا۔ اس مشن یا ڈیل کو نتیجہ خیز بنانے کے سب سے پہلے میرا دھیان واشنگٹن میں متعین سعودی عرب کے سفیر شہزادہ بندر بن سلطان کی طرف گیا۔ ( پرنس بندر بن سلطان سب سے لمبے عرصے تک یعنی 1983 ء تا 2005 ء سعودی عرب کے امریکہ میں سفیر رہے۔ ان پر لکھی جانے والی کتاب ”دی پرنس“ کے مطابق 1980 ء کی دہائی میں افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلاء میں معاونت سمیت اہم سفارتی محاذوں پر انہوں نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ اور انہوں نے کئی مواقع پر ماسکو جا کر اس وقت کے روسی صدر گورباچوف سے بھی نتیجہ خیز ملاقاتیں کیں اور انہیں افغانستان سے نکلنے پر آمادہ کیا)

نواز شریف کو بچانے کے مشن کی تکمیل کے لیے ان کی پرنس بندر بن سلطان سے طویل ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اس وقت واشنگٹن میں پاکستانی سفیر ملیحہ لودھی سے بھی اس حوالے سے کئی ملاقاتیں رہیں۔ اور اس مسئلے پر انہیں بھی اپنا ہم خیال پایا۔

سعودی عرب بھی اس حق میں نہیں تھا کہ اب پاکستان میں ”ضیاء زلفی“ سیاہ باب دوبارہ دہرایا جائے۔

اس وقت کے سعودی فرمانروا شاہ عبداللہ نے نواز شریف کو بچانے کے لیے آخری حد تک جا کر اپنا اثر ورسوخ استعمال کیا۔ سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے جو پاکستان کو سب سے زیادہ معاشی امداد مہیا کرتا ہے۔ شاہ عبداللہ نے جنرل مشرف سے کہا کہ نواز شریف کو سعودی عرب جلا وطن کر دیا جائے۔ بعدازاں مشرف نے اپنی سوانح عمری میں لکھا کہ ”کنگ عبداللہ کی اس آفر کے آگے وہ بے بس ہو گئے اور انکار نہ کر سکے“۔

اس طرح ہماری کوششوں سے نواز شریف دسمبر 2000 ء میں اپنے خاندان سمیت بحفاظت سعودی عرب جلاوطن ہو گئے۔ اور مجھے صدر کلنٹن کی جانب سے سونپا گیا مشن پایہ تکمیل تک پہنچا۔
----
پڑھتا جا شرماتا جا
 
Top