شاہد شاہنواز
لائبریرین
مجھ سے تُو ہے کیوں خفا؟ میں نے کچھ نہیں کیا!
رُوٹھنا ہے بے وجہ، میں نے کچھ نہیں کیا!
جا رہی ہے کیوں بھلا؟ میں نے کچھ نہیں کیا!
اے صبا ٹھہر ذرا ، میں نے کچھ نہیں کیا!
یار کی تلاش میں زندگی گزر گئی
یار جب نہیں ملا، میں نے کچھ نہیں کیا!
چپ ہیں لوگ پوچھ کر مجھ سے سرکشی مری
دے رہا ہوں میں صدا، میں نے کچھ نہیں کیا!
رب سے پوچھتا رہا”اے خدا میں کیا کروں؟“
اُس نے کچھ نہیں کہا، میں نے کچھ نہیں کیا!
جس کے جوش و قہر سے خاک ہو گیا چمن
تھا وہ میرا رہنما، میں نے کچھ نہیں کیا!
جس کے ساتھ میں چلا ، مجھ کو چھوڑ کر چلا
اُس نے مجھ سے کی جفا، میں نے کچھ نہیںکیا!
دل کو کُل جہان سے میں الگ نہ رکھ سکا
چھُو گئی مجھے ہوا، میں نے کچھ نہیں کیا!
رب نے دی جو زندگی، دے کے مانگی بندگی
اِس میں میری کیا خطا؟ میں نے کچھ نہیں کیا!
اُس نے عہد لے کے بھی ذہن سے مٹا دیا
مجھ کو یاد کچھ نہ تھا، میں نے کچھ نہیں کیا!
بھیج کر زمین پر دیکھتا ہے وہ مجھے
میں جہاں میں کھو گیا، میں نے کچھ نہیں کیا!
کر رہے ہیں لوگ جو میں وہ کام کیوں کروں؟
اِس لیے بھی اے خدا میں نے کچھ نہیں کیا!
کیا کروں میں کیا کروں، سوچتے گزر گئی
بعدِ مرگ یہ کھُلا میں نے کچھ نہیں کیا!
یہ وفا ہے یا جفا؟ میں نے کچھ نہیں کیا!
سننے کو ملے سدا میں نے کچھ نہیں کیا!
کیوں اے میرے ہم نوا میں نے کچھ نہیں کیا؟
تُو نے کیسے کہہ دیا میں نے کچھ نہیں کیا؟
دشمنوں نے داد دی جب مرے جنون کی
دوستوں نے یہ کہا میں نے کچھ نہیں کیا!
میں نہ آگ، نہ کلی، نہ صبا نہ پھول ہوں
مجھ سے کوئی کیوں جلا؟ میں نے کچھ نہیں کیا!
میں نے خار کو دیا احترام پھول سا
پھر بھی یہ کہے صبا میں نے کچھ نہیں کیا!
دِن کو سب کا دیکھنا غور سے وہ رُخ مرا
شب کو اُن کا پھر گلہ میں نے کچھ نہیں کیا!
بت بچا ہے اَب مرا، بت کرے تو کیا کرے؟
جان کوئی لے گیا، میں نے کچھ نہیں کیا
جس نے آپ کو دیا طعنہ بے وفائی کا
تھا وہ کوئی آپ سا میں نے کچھ نہیں کیا!
سن کے فتویٰ کفر کا گھورتے ہیں شیخ جی
وہ بھی ایک شیخ تھا میں نے کچھ نہیں کیا!
ہاں حرم کے نام پر سر جھکا لیا مگر
جب بھی دیکھا بت کدہ میں نے کچھ نہیں کیا!
دُور جب اُٹھا دھواں، میں نے خوب کی فغاں
جب بھی میرا گھر جلا میں نے کچھ نہیں کیا!
دل تو مفلسی میں بھی تھا شریکِ غم ترا
اے مرے وطن بجا میں نے کچھ نہیں کیا!
تیرگی میں چشمِ نم اَشک پھر بہا گئی
دل میں دَرد پھر اُٹھا میں نے کچھ نہیں کیا!
یہ دُعا ہے یا دوا؟ میں نے کچھ نہیں کیا
ہے سکوت یا صدا؟ میں نے کچھ نہیں کیا
درد ہے یا پھر شفا؟ میں نے کچھ نہیں کیا
زندگی ہے یا قضا؟ میں نے کچھ نہیں کیا
کیا کہوں میں اے چمن! کس لیے اُداس ہوں؟
کیا بتاﺅں اے صبا! میں نے کچھ نہیں کیا
میرے رب نے نعمتیں مجھ کو بے شمار دیں
میں نے یہ صلہ دیا میں نے کچھ نہیں کیا
اُس کی یاد کا مرے دل میں اِک چراغ تھا
دیکھ کر جسے بجھا میں نے کچھ نہیں کیا
روشنی ختم ہوئی دن کے آفتاب کی (ختم کا تلفظ درست ہے یا؟ )
شب کا چاند ڈھل گیا میں نے کچھ نہیں کیا
کیا کرے گا رَب مجھے آگ میں اُتار کر؟
ہے مری یہی سزا میں نے کچھ نہیں کیا
جانے کس محاذ سے اِک ڈرون پھر اُڑا
پھر کہیں پہ بم گرا میں نے کچھ نہیں کیا
زلزلے میں دھنس گئے ہم وطن زمین میں
میں نے جب یہ سب سنا، میں نے کچھ نہیں کیا
چند عمارتیں گریں جن کے انتقام میں
اِک جہان جل اُٹھا، میں نے کچھ نہیں کیا
پھر غموں سے چُور تھے اَن گنت ملائکہ
اِک لعین پھر ہنسا ، میں نے کچھ نہیں کیا
پھر کسی نے روشنی تیرگی میں قید کی
شب کا باب پھر کھلا، میں نے کچھ نہیں کیا
جانتا ہوں میں مگر وہ بھی روئے گا کبھی
سن کے جس کا قہقہہ میں نے کچھ نہیں کیا
حق کی بات دل میں تھی، لب پہ میں نہ لا سکا
میں نے ظلم سہہ لیا، میں نے کچھ نہیں کیا
الف عین
مزمل شیخ بسمل
محمد وارث
مہدی نقوی حجاز
سیدہ سارا غزل
محمد اظہر نذیر
فاتح
@محمد بلال
محمد احمد
مقدس
سیدہ شگفتہ
ابن سعید
ماوراء
شمشاد
اسد قریشی
پردیسی
احمد بلال
رُوٹھنا ہے بے وجہ، میں نے کچھ نہیں کیا!
جا رہی ہے کیوں بھلا؟ میں نے کچھ نہیں کیا!
اے صبا ٹھہر ذرا ، میں نے کچھ نہیں کیا!
یار کی تلاش میں زندگی گزر گئی
یار جب نہیں ملا، میں نے کچھ نہیں کیا!
چپ ہیں لوگ پوچھ کر مجھ سے سرکشی مری
دے رہا ہوں میں صدا، میں نے کچھ نہیں کیا!
رب سے پوچھتا رہا”اے خدا میں کیا کروں؟“
اُس نے کچھ نہیں کہا، میں نے کچھ نہیں کیا!
جس کے جوش و قہر سے خاک ہو گیا چمن
تھا وہ میرا رہنما، میں نے کچھ نہیں کیا!
جس کے ساتھ میں چلا ، مجھ کو چھوڑ کر چلا
اُس نے مجھ سے کی جفا، میں نے کچھ نہیںکیا!
دل کو کُل جہان سے میں الگ نہ رکھ سکا
چھُو گئی مجھے ہوا، میں نے کچھ نہیں کیا!
رب نے دی جو زندگی، دے کے مانگی بندگی
اِس میں میری کیا خطا؟ میں نے کچھ نہیں کیا!
اُس نے عہد لے کے بھی ذہن سے مٹا دیا
مجھ کو یاد کچھ نہ تھا، میں نے کچھ نہیں کیا!
بھیج کر زمین پر دیکھتا ہے وہ مجھے
میں جہاں میں کھو گیا، میں نے کچھ نہیں کیا!
کر رہے ہیں لوگ جو میں وہ کام کیوں کروں؟
اِس لیے بھی اے خدا میں نے کچھ نہیں کیا!
کیا کروں میں کیا کروں، سوچتے گزر گئی
بعدِ مرگ یہ کھُلا میں نے کچھ نہیں کیا!
یہ وفا ہے یا جفا؟ میں نے کچھ نہیں کیا!
سننے کو ملے سدا میں نے کچھ نہیں کیا!
کیوں اے میرے ہم نوا میں نے کچھ نہیں کیا؟
تُو نے کیسے کہہ دیا میں نے کچھ نہیں کیا؟
دشمنوں نے داد دی جب مرے جنون کی
دوستوں نے یہ کہا میں نے کچھ نہیں کیا!
میں نہ آگ، نہ کلی، نہ صبا نہ پھول ہوں
مجھ سے کوئی کیوں جلا؟ میں نے کچھ نہیں کیا!
میں نے خار کو دیا احترام پھول سا
پھر بھی یہ کہے صبا میں نے کچھ نہیں کیا!
دِن کو سب کا دیکھنا غور سے وہ رُخ مرا
شب کو اُن کا پھر گلہ میں نے کچھ نہیں کیا!
بت بچا ہے اَب مرا، بت کرے تو کیا کرے؟
جان کوئی لے گیا، میں نے کچھ نہیں کیا
جس نے آپ کو دیا طعنہ بے وفائی کا
تھا وہ کوئی آپ سا میں نے کچھ نہیں کیا!
سن کے فتویٰ کفر کا گھورتے ہیں شیخ جی
وہ بھی ایک شیخ تھا میں نے کچھ نہیں کیا!
ہاں حرم کے نام پر سر جھکا لیا مگر
جب بھی دیکھا بت کدہ میں نے کچھ نہیں کیا!
دُور جب اُٹھا دھواں، میں نے خوب کی فغاں
جب بھی میرا گھر جلا میں نے کچھ نہیں کیا!
دل تو مفلسی میں بھی تھا شریکِ غم ترا
اے مرے وطن بجا میں نے کچھ نہیں کیا!
تیرگی میں چشمِ نم اَشک پھر بہا گئی
دل میں دَرد پھر اُٹھا میں نے کچھ نہیں کیا!
یہ دُعا ہے یا دوا؟ میں نے کچھ نہیں کیا
ہے سکوت یا صدا؟ میں نے کچھ نہیں کیا
درد ہے یا پھر شفا؟ میں نے کچھ نہیں کیا
زندگی ہے یا قضا؟ میں نے کچھ نہیں کیا
کیا کہوں میں اے چمن! کس لیے اُداس ہوں؟
کیا بتاﺅں اے صبا! میں نے کچھ نہیں کیا
میرے رب نے نعمتیں مجھ کو بے شمار دیں
میں نے یہ صلہ دیا میں نے کچھ نہیں کیا
اُس کی یاد کا مرے دل میں اِک چراغ تھا
دیکھ کر جسے بجھا میں نے کچھ نہیں کیا
روشنی ختم ہوئی دن کے آفتاب کی (ختم کا تلفظ درست ہے یا؟ )
شب کا چاند ڈھل گیا میں نے کچھ نہیں کیا
کیا کرے گا رَب مجھے آگ میں اُتار کر؟
ہے مری یہی سزا میں نے کچھ نہیں کیا
جانے کس محاذ سے اِک ڈرون پھر اُڑا
پھر کہیں پہ بم گرا میں نے کچھ نہیں کیا
زلزلے میں دھنس گئے ہم وطن زمین میں
میں نے جب یہ سب سنا، میں نے کچھ نہیں کیا
چند عمارتیں گریں جن کے انتقام میں
اِک جہان جل اُٹھا، میں نے کچھ نہیں کیا
پھر غموں سے چُور تھے اَن گنت ملائکہ
اِک لعین پھر ہنسا ، میں نے کچھ نہیں کیا
پھر کسی نے روشنی تیرگی میں قید کی
شب کا باب پھر کھلا، میں نے کچھ نہیں کیا
جانتا ہوں میں مگر وہ بھی روئے گا کبھی
سن کے جس کا قہقہہ میں نے کچھ نہیں کیا
حق کی بات دل میں تھی، لب پہ میں نہ لا سکا
میں نے ظلم سہہ لیا، میں نے کچھ نہیں کیا
الف عین
مزمل شیخ بسمل
محمد وارث
مہدی نقوی حجاز
سیدہ سارا غزل
محمد اظہر نذیر
فاتح
@محمد بلال
محمد احمد
مقدس
سیدہ شگفتہ
ابن سعید
ماوراء
شمشاد
اسد قریشی
پردیسی
احمد بلال