میں چادر اوڑھے غفلت کی سوے جا رہا ہوں

Saba Akhtar

محفلین
میں جو رفتہ رفتہ زندگی سے پرے جا رہا ہوں
تو میں برق برق انا میں اپنی ِگرے جا رہا ہوں

چڑھا کر آنکھ پر پردے لگا کر قفل ایماں کو
میں اک بے حسی کے دریا میں اترے جا رہا ہوں

میں دیکھوں ظلم کے منبر پہ ظالم کی ڈھٹائی کو
سیےؔ ہونٹوں کو اپنے بے ضمیر ہوے جا رہا ہوں

لگی ہے آگ بستی میں جلے ہیں لوگ کتنے ہی
میں چادر اوڑھے غفلت کی سوے جا رہا ہوں

ملا کر خاک میں دیکھو اُس عالیشان کی باتیں
کہ کیسا خوب خود کو ہی مٹاے جا رہا ہوں

جو دیکھا عکس کو اپنے حقیقی آینے میں اخترّ
تو جانا شرفِ انسانیت سے گرے جا رہا ہوں
 
Top