نور وجدان
لائبریرین
کبھی کبھی ہمیں جن سے بہت پیار ہوتا ہے وہ اپنے نہیں رہتے ۔ اس کو سنتے سنتے مجھے خیال آیا کہ جس نے آپ سے نفرت کی ہو وہ اپنا ہوجائے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ وہ بھی اپنا نہیں ہوتا !!!
میں نے ادھر ادھر دیکھا تو لکھتےپایا مجھے احساس ہوا کہ میرا من تو خالی ہے ! میں نے لکھنا شروع کر دیا۔بس لکھتے لکھتے پڑھنا بھی پڑتا ہے کبھی لوگوں کو اور کبھی تحاریر کو۔۔!! لوگوں کو پڑھنا مشکل نہیں ہوتا کہ ان کی پرتیں چہروں کے نیچے نہیں ہوتے اور کراہیت کا احساس نہیں ہوتا اور کبھی کبھی تحاریر کو پڑھنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔کیونکہ روح پر چھینٹے پڑتے ہوئے دل تک اثر کر جاتے ہیں ۔۔
قبلہ ! نوجوان ۔۔۔ !!! اچھا لکھتے ہیں ۔ ہاں کبھی تو بہت کمال کا لکھا کرتے تھے مگر ایک سال نے سب کچھ بدل دیا۔ میں نے ان کی تحریر پڑھی ۔ ابھی چوتھی لائن پر تھی کہ مجھے چھوڑنی پڑی ۔ مگر خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ کسی نہ کسی طریقہ سے مجبورا اس تحریر کو مجھے پڑھنا پڑا۔ میرا دل و دماغ اس بات کو کبھی سوچ نہیں سکتے کہ سوچوں تو اپنے آپ سے نفرت ہوجائے اور پڑھ کر بے اختیار خود پر تف کی ۔
حادثات کی نظر لوگ سب سے پہلے خدا کو بھول جاتے ہیں ۔ میرا قلم لکھنے پر مجبور ہے کہ اس سے پہلے کہ روشنائی ِ قلم کو درکار سیاہی و مواد کا خامہ نہ ہوسکے ۔قرطاس پر لفظ کی بارش کو بکھیر دوں کہ جس بارش سے میرا تن من بھیگ کر بھیگا بھی نہیں ۔۔۔ جل کر یہ جلا بھی نہیں ۔۔ وہ آگ جس نے میرے اندر کی آگ کو تپشِ خاک و راکھ کر دیا۔محبت کا خون کیا ہواِ؟ کیا کوئی بھائی نہ رہا ؟
ان سوالوں کے جواب تو نہیں میرے پاس کہ ان اللہ وانا الہ راجعون ۔۔۔روح کو ہم تجربات دے کر نہ جانے گیان کی کن منزلوں تک پہنچ جاتے ہیں مگر تن کے ساتھ سلوک ہمیں بُرا کیوں لگتا ہے ۔۔۔ خلیل جبران کو ایک قول جو مجھے دس سالوں سے زائد عرصے سے یاد ہے کہ جسم کی سزا کے بدلے قصاص و دیت ہے اور روح کو دیت کیا ہے ؟ نوجوان کا کتوں کے ساتھ تن کے تجربات کا معانی معاشرتی اصلاح کا پیش خیمہ ہے اور بچوں کے ساتھ یہی سلوک معاشرتی آئنہ ہے اور لڑکی کے ساتھ سلوک تو اپنا آئنہ ہے ۔ایک دن وہ بھی یہی کام کرے گا ۔۔ جب ہم لکھتے ہیں تو ہم مستقبل کو تحریر کررہے ہوتے ہیں اس لیے ہر کوئی لکھنے کی طاقت سے محروم رہتا ہے ۔ مثال کے طور پر بہادر شاہ ظفر اپنی موت سے پہلے یہ شعر لکھ چکا تھا
بڑا ہے ندنصیب ظفر دفن کے لیے
کہ دو گز زمیں بھی نہ ملے کوئے یار میں
کئی مثالوں کو میں رنگیں کر دوں مگر فائدہ کیا ہوگا؟ میرا کتابوں سے رشتہ ایک وجہ سے ٹوٹا ہوا کہ میں سماج کا آئنہ دیکھنے کی لائق نہیں مگر کچھ لکھاری سماج کی تشنہ گامی کو اپنے تسکین کی لیے استعمال کرتے ہیں اور نوجوان کیا معاشرے کو دکھائے گا کہ جس نے زندگی کے تجربات میں ایک دو سال میں قدم رکھا ہے کیا ایک سال یا دو سال میں سماج کا آئینہ اس کے معصوم و سادہ سے تخیل کو انجمادِ گرد کرگیا ؟ ہمارا فرض نہیں کہ ہم ان آئینوں کو سنبھال کو اچھا کریں اور جب خود کو لاچار پائیں تو اپنی چھوٹی عقل کا ماتم کریں کہ آپ کے پاس وہ دلائل نہیں کہ آپ ان کو استعمال کر سکو اور نہ برداشت کہ مزید کچھ سُن سکو۔میں چُپ ہوگئی کہ اب کیا فائدہ سمجھانے کا میرے پاس پڑھنے کے بعد سوائے خاموشی کے کچھ نہیں ۔۔۔ سوائے حسرت کے کچھ نہیں کہ میں چاہ کر بھی بچا نہ سکو کہ لمحہ بھر کا اک تجربہ ایسا سنگین ہوتا کہ صدیوں پر محیط ہوتا ہے ۔
میں نے ادھر ادھر دیکھا تو لکھتےپایا مجھے احساس ہوا کہ میرا من تو خالی ہے ! میں نے لکھنا شروع کر دیا۔بس لکھتے لکھتے پڑھنا بھی پڑتا ہے کبھی لوگوں کو اور کبھی تحاریر کو۔۔!! لوگوں کو پڑھنا مشکل نہیں ہوتا کہ ان کی پرتیں چہروں کے نیچے نہیں ہوتے اور کراہیت کا احساس نہیں ہوتا اور کبھی کبھی تحاریر کو پڑھنا بڑا مشکل ہوتا ہے۔کیونکہ روح پر چھینٹے پڑتے ہوئے دل تک اثر کر جاتے ہیں ۔۔
قبلہ ! نوجوان ۔۔۔ !!! اچھا لکھتے ہیں ۔ ہاں کبھی تو بہت کمال کا لکھا کرتے تھے مگر ایک سال نے سب کچھ بدل دیا۔ میں نے ان کی تحریر پڑھی ۔ ابھی چوتھی لائن پر تھی کہ مجھے چھوڑنی پڑی ۔ مگر خدا کی کرنی ایسی ہوئی کہ کسی نہ کسی طریقہ سے مجبورا اس تحریر کو مجھے پڑھنا پڑا۔ میرا دل و دماغ اس بات کو کبھی سوچ نہیں سکتے کہ سوچوں تو اپنے آپ سے نفرت ہوجائے اور پڑھ کر بے اختیار خود پر تف کی ۔
حادثات کی نظر لوگ سب سے پہلے خدا کو بھول جاتے ہیں ۔ میرا قلم لکھنے پر مجبور ہے کہ اس سے پہلے کہ روشنائی ِ قلم کو درکار سیاہی و مواد کا خامہ نہ ہوسکے ۔قرطاس پر لفظ کی بارش کو بکھیر دوں کہ جس بارش سے میرا تن من بھیگ کر بھیگا بھی نہیں ۔۔۔ جل کر یہ جلا بھی نہیں ۔۔ وہ آگ جس نے میرے اندر کی آگ کو تپشِ خاک و راکھ کر دیا۔محبت کا خون کیا ہواِ؟ کیا کوئی بھائی نہ رہا ؟
ان سوالوں کے جواب تو نہیں میرے پاس کہ ان اللہ وانا الہ راجعون ۔۔۔روح کو ہم تجربات دے کر نہ جانے گیان کی کن منزلوں تک پہنچ جاتے ہیں مگر تن کے ساتھ سلوک ہمیں بُرا کیوں لگتا ہے ۔۔۔ خلیل جبران کو ایک قول جو مجھے دس سالوں سے زائد عرصے سے یاد ہے کہ جسم کی سزا کے بدلے قصاص و دیت ہے اور روح کو دیت کیا ہے ؟ نوجوان کا کتوں کے ساتھ تن کے تجربات کا معانی معاشرتی اصلاح کا پیش خیمہ ہے اور بچوں کے ساتھ یہی سلوک معاشرتی آئنہ ہے اور لڑکی کے ساتھ سلوک تو اپنا آئنہ ہے ۔ایک دن وہ بھی یہی کام کرے گا ۔۔ جب ہم لکھتے ہیں تو ہم مستقبل کو تحریر کررہے ہوتے ہیں اس لیے ہر کوئی لکھنے کی طاقت سے محروم رہتا ہے ۔ مثال کے طور پر بہادر شاہ ظفر اپنی موت سے پہلے یہ شعر لکھ چکا تھا
بڑا ہے ندنصیب ظفر دفن کے لیے
کہ دو گز زمیں بھی نہ ملے کوئے یار میں
کئی مثالوں کو میں رنگیں کر دوں مگر فائدہ کیا ہوگا؟ میرا کتابوں سے رشتہ ایک وجہ سے ٹوٹا ہوا کہ میں سماج کا آئنہ دیکھنے کی لائق نہیں مگر کچھ لکھاری سماج کی تشنہ گامی کو اپنے تسکین کی لیے استعمال کرتے ہیں اور نوجوان کیا معاشرے کو دکھائے گا کہ جس نے زندگی کے تجربات میں ایک دو سال میں قدم رکھا ہے کیا ایک سال یا دو سال میں سماج کا آئینہ اس کے معصوم و سادہ سے تخیل کو انجمادِ گرد کرگیا ؟ ہمارا فرض نہیں کہ ہم ان آئینوں کو سنبھال کو اچھا کریں اور جب خود کو لاچار پائیں تو اپنی چھوٹی عقل کا ماتم کریں کہ آپ کے پاس وہ دلائل نہیں کہ آپ ان کو استعمال کر سکو اور نہ برداشت کہ مزید کچھ سُن سکو۔میں چُپ ہوگئی کہ اب کیا فائدہ سمجھانے کا میرے پاس پڑھنے کے بعد سوائے خاموشی کے کچھ نہیں ۔۔۔ سوائے حسرت کے کچھ نہیں کہ میں چاہ کر بھی بچا نہ سکو کہ لمحہ بھر کا اک تجربہ ایسا سنگین ہوتا کہ صدیوں پر محیط ہوتا ہے ۔