غزل تو اچھی ہے زہرا۔ لیکن شاید فاتح بھی یہی کہنا چاہ رہے ہوں جو میں لکھنے جا رہا ہوں۔
یہ مصرع:
نازگی خواب ِ فصل ِ گل تو سنو !
اس کی تفہیم نہیں ہو سکی۔ کیا تازگیِ خوابِ فصلِ گل مراد ہے؟
زہرا صاحبہ! آپ نے یہ لفظ "تازگی ۔ ت ا ز گ ی" لکھنا چاہا ہے یا "نازکی ۔ ن ا ز ک ی"؟ کیوں کہ مجھے تو یہ "نازگی ۔ ن ا ز گ ی" نظر آیا ہے اور آپ نے اعجاز صاحب کو جواب دیتے ہوئے بھی دوبارہ "نازگی" ہی استعمال کیا ہے جو میرے ناقص علم میں نہیں۔
دوسری بات یہ کہ "نازگی خواب ِ فصل ِ گل تو سنو !" میں نازکی اور خواب کے درمیان زیرِ اضافت نہ ڈالی جائے تو یہ مضاف اور مضاف الیہ نہیں بنتے اور یوں مفہوم واضح نہیںہو پاتا اور اگر اضافت استعمال کی جائے تو وزن درست نہیں رہتا۔
ایک آسان حل تو یہ ہے کہ اس مصرع میں 'تو' کی بجائے 'کی' کر دیں اور یوں مصرع کچھ ہو گا "نازگی خواب ِ فصل ِ گل کی سنو!" لیکن بہرحال 'کی' شعر کی نزاکت پر اثر انداز ہوتا ہے۔
علاوہ ازیں "تپش ِ شوق سے جلائیں ہیں جو" میں 'جلائیں ہیں جو' کا صوتی تاثر کچھ اچھا نہیں پڑ رہا کہ اس کی تقطیع کچھ یوں ہو گی:
"جلا ءِ ہِ جو"
یوں ایک ہی رکن میں اوپر تلے دو نون غنہ اور دو یائے تحتانی کا گرنا کانوں کو بھلا معلوم نہیں ہوتا۔
فاتح صاحب پہلے تو بہت شکریہ اتنی تفصیل سے اغلاط کی نشاندہی کا
لفظ یقینا " نازکی " ہی ہو گا جسے میں نازگی سمجھتی رہی۔۔
میں "تپش ِ شوق سے جلائیں ہیں جو" اس مصرعے کو بھی بدلنے کی کوشش کرتی ہوں۔۔۔