محمد خرم یاسین
محفلین
ہر روز ارد گرد پھیلے ہزاروں دکھوں کو دیکھتا ہوں
قدرت دھڑکتے دلوں کابٹن ایک دم سے آف کردیتی ہے
میں حسرت و یاس بھری آنکھوں کے پردے بند کردیتا ہوں
پٹی کرتے سمے بہتے خون کے چھینٹے مجھے رنگین کرتے ہیں۔۔۔
مگر ان کی بو اب محسوس نہیں ہوتی
چٹختی ہڈیاں جب پورے زور سے چلاّتی گوشت پھاڑ نکلتی ہیں
میں بے تاثر نظروں سے چیخیں سنتا ہوں مگرمیرامدد کو اٹھا ہاتھ رک نہیں پاتا
البتہ نہر میں بچوں سمیت ڈوبی کوئی ماں مل جائے توملی جلی کیفیت میں آواز لگاتاہوں
”سارا خاندان مکمل ہوگیا“
بم بلاسٹ میں بکھرے انسانوں کے چیتھڑے دل کو روگ لگاتے ہیں
اور سکولوں میں بکھری ننھی لاشیں دیکھ کر مجھے میرے بچے یاد آتے ہیں
تو۔۔۔ دل لرز اٹھتا ہے
حادثات میں بریڈ ارنرز کو معزور ہوتا دیکھتا ہوں تو میرے ہاتھ ہینڈل پر مضبوط ہوجاتے ہیں
کبھی کبھی اکلوتے جوان بیٹے کی لاش پر ماتم کرتی ماں کو دیکھ کر دل بھر آتا ہے
”اب نہیں رہا“ کہتے ہوئے شرمندہ سا ہوجاتا ہوں
یا پھر برسوں بعد وطن لوٹنے والے شخص کے لٹنے پر دل خون بہاتا ہے
۔۔۔دکھ سنبھالتے سنبھالتے تھکنے لگتا ہوں تودل چاہتا ہے چلا ّکر رووں
سر پر خاک ڈال لوں
خود کو اس دنیا سے کہیں باہر نکال لوں
لیکن پھر سے یہی سب کچھ شب و روز دیکھتا ہوں اور اس سے بڑھ کر دیکھتا ہوں
تو بت ہوتاجا تا ہوں
انسانیت کے درد کو روز کھوتا جاتا ہوں
٭٭٭
قدرت دھڑکتے دلوں کابٹن ایک دم سے آف کردیتی ہے
میں حسرت و یاس بھری آنکھوں کے پردے بند کردیتا ہوں
پٹی کرتے سمے بہتے خون کے چھینٹے مجھے رنگین کرتے ہیں۔۔۔
مگر ان کی بو اب محسوس نہیں ہوتی
چٹختی ہڈیاں جب پورے زور سے چلاّتی گوشت پھاڑ نکلتی ہیں
میں بے تاثر نظروں سے چیخیں سنتا ہوں مگرمیرامدد کو اٹھا ہاتھ رک نہیں پاتا
البتہ نہر میں بچوں سمیت ڈوبی کوئی ماں مل جائے توملی جلی کیفیت میں آواز لگاتاہوں
”سارا خاندان مکمل ہوگیا“
بم بلاسٹ میں بکھرے انسانوں کے چیتھڑے دل کو روگ لگاتے ہیں
اور سکولوں میں بکھری ننھی لاشیں دیکھ کر مجھے میرے بچے یاد آتے ہیں
تو۔۔۔ دل لرز اٹھتا ہے
حادثات میں بریڈ ارنرز کو معزور ہوتا دیکھتا ہوں تو میرے ہاتھ ہینڈل پر مضبوط ہوجاتے ہیں
کبھی کبھی اکلوتے جوان بیٹے کی لاش پر ماتم کرتی ماں کو دیکھ کر دل بھر آتا ہے
”اب نہیں رہا“ کہتے ہوئے شرمندہ سا ہوجاتا ہوں
یا پھر برسوں بعد وطن لوٹنے والے شخص کے لٹنے پر دل خون بہاتا ہے
۔۔۔دکھ سنبھالتے سنبھالتے تھکنے لگتا ہوں تودل چاہتا ہے چلا ّکر رووں
سر پر خاک ڈال لوں
خود کو اس دنیا سے کہیں باہر نکال لوں
لیکن پھر سے یہی سب کچھ شب و روز دیکھتا ہوں اور اس سے بڑھ کر دیکھتا ہوں
تو بت ہوتاجا تا ہوں
انسانیت کے درد کو روز کھوتا جاتا ہوں
٭٭٭