میں کیوں لکھتا ہوں ۔ رؤف خلش

عندلیب

محفلین
میں کیوں لکھتا ہوں ۔ رؤف خلش
"میں کیوں لکھتا ہوں " کے تین جواب ممکن ہیں ۔ ایک یہ کہ میں صرف اپنے لیے لکھتا ہوں ۔ دوسرے یہ کہ اوروں کے لیے لکھتا ہوں ۔ تیسرے یہ کہ میرے اندر کی تحریک مجھ سے لکھواتی ہے ، جیسے اندرونی احساس" یا Inner feeling کانام دیا جاسکتا ہے ۔ اگر میں اپنے تخلیقی تجربہ بیان کروں تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ تین چیزیں میرے تخلیقی عمل کا حصہ بنی ہیں ۔ وہ ہیں مشاہدہ تجربہ اور احساس ۔دراصل تخلیقی عمل ایک شعور و لا شعور کے جھٹ پٹے کا عمل ہے ۔ کم از کم میرے تجربے کے مطابق ایک قوت کار فرما رہتی ہے جسے حالی کی زبان میں "قوت متخیلہ " کہا جاسکتا ہے ۔ لیکن یہ سب باتیں اس عنوان کے تحت آتی ہیں کہ میں کیوں کر لکھتا ہوں یا کیسے لکھتا ہوں ۔ تخلیقی سطح پر میرا دائرہ شعر گوئی پر محیط ہے جس کی دو شاخیں ہیں ایک فرمائشی دوسری تخلیقی ۔ فرمائشی سے مراد وہ شاعری ہے جو کسی دئیے گئے موضوع ، عنوان یا کسی طرحی مصرعہ پر کی جائے ۔ اسے پیداوار یا Productive کہا جاسکتا ہے ۔ اگر میں اسے اپنے مزاج یا افتاد طبع کا حصہ نہ بناؤ ں تو یہ خدشہ رہتا ہے کہ شاعری کہیں قافیہ پیمائی یا تک بندی بن کر نہ رہ جائے ۔ البتہ اپنے مزاج ، اسلوب یا تحریک پر آزادنہ شعر کہاجائے تو اسے تخلیق یا Creative کہیں گے ۔ ہر دو کے لیے یہ "جذبہ ء تحریک " یا Motivation کا ہونا بہت ضروری ہے ۔ میری ترجیحات ہمیشہ فرمائشی کے بجائے تخلیقی کی طرف زیادہ رہی ہیں ۔ اس کی وجہ میرا "شعری مزاج" ہے ۔ سوال یہ ہے کہ میرا شعری مزاج کیا ہے ؟ اگر میں اسے ایک جملے میں بیان کروں تو کہوں گا کہ میرا شعری مزاج تفصیل کے مقابل جامعیت ، بیانیہ کے مقابل ایمائیت اور روایت کے مقابل جدیدیت کا حامل ہے ۔ اور میرا یہ شعری مزاج بہت کچھ اپنے انفرادی ذوق یا پسند نا پسند کی بناء پر رہا ہے ۔ اس ضمن میں ایک اور اہم نکتہ یہ ہے کہ میرا شعری رویہ ایک طرح سے "خود احتسابی" کا رویہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں نظر ثانی کو بہت اہم مانتا ہوں ۔ موزوں طبع ہونے کے باوجود جب تک میری طبیعت شعر کہنے کی طرف خود بخود مائل نہیں ہوتی میں شعر موزوں نہیں کرتا ۔ شعر گوئی میرے لیے ایک انبساط یا کیف و سرور کا عمل ہے ۔ "کاتا اور لے دوڑی" کا میں بالکل قائل نہیں ۔ میں کرتا یہ ہوں کہ پہلے استعارہ : بصری لمسی یا سماعی پیکر میں ڈھلتا جائے بعد میں قرطاس و قلم کی کی مدد سے شعر بنے ۔ میں یہ بھی سوچتا ہوں کہ کسی بھی نظریہء حیات کو ادب میں ڈھالتے ہوئے شاعر کو dogmatic یا ادعا پسند نہیں ہونا چاہیے ۔ 60 ء کی دہائی میں "وابستگی " یا "ناوابستگی " کی اسی بحث نے اختلافات کی خلیج پیدا کردی ۔ غالبا ترقی پسند ادب کی سیاسی نظرئیے سے وابستگی نے یہ جنجال کھڑا کردیا تھا ۔ جس کے نتیجے میں بیشتر شاعری نعرہ بازی یا پروپگنڈہ بن کر رہ گئی ۔ یہ قول بڑی حد تک درست ہے کہ ادب بہترین پروپگنڈہ ہے لیکن بہترین پروپگنڈہ ادب نہیں ہوتا ۔
 
Top