میں گریویٹیشنل ویوز پہ کیوں ایمان لایا

مدثر عباس

محفلین
ہم پہلی بار کشش کی لہروں پہ اس وقت ایمان لائے جب ہمارا میٹرک کا نتیجہ آیا۔ نتیجہ کیا ہونا تھا ہمیشہ کی طرح پیوستہ رہ شجر سے اُمیدِ بہار رکھ والی بات ہوئی۔ ہم اپنا نامہ اعمال جو کہ ہمارے بائیں ہاتھ میں دیا گیا تھا لے کر کچھ وقت بازیچہ اطفال میں کھیلے۔ پھر کوئے گھر کی جانب بڑھے۔ دروازہ کھول کر ایک عجیب قنوطیت کا احساس لے کر اندر داخل ہوئے۔ گھر کے تمام افراد کی نظریں ہمارے نامہِ اعمال کے کاغذی پیراہن پہ تھیں۔ باباجان کسی ملکی وے کی طرح ہمارا مشاہدہ کر رہے تھے۔ بغل میں بیٹھی امی کے چہرے پہ مارکس کی من پسند لالی آئی ہوئی تھی۔ جوں ہی داخل ہوا تو بائیں جانب اپنے چچا کو دیکھا جو اکثر میری ناکامیوں پہ ستار العیوب ہوتے تھے۔ ابھی میں چچا کو ٹھیک سے دیکھ نہیں پایا کہ بابا گویا ہوئے۔

“ برخوردار کامیابی ملی یا بے آبرو ہو کر کوچے سے نکلے ہو؟ ”

اب ہم کیا بتاتے۔ نامہِ اعمال کو ان کے روبرو پیش کیا۔ انہوں نے طائرانہ نگاہ ڈالی۔ لیکن یہ نگاہ فزکس، کیمسٹری اور حیاتیات پہ آ کے رکی۔ کچھ تامل کیا۔ پھر انہوں نے ایک ڈنڈا اٹھایا اور ہم پر کسی پولیس تھانیدار کی طرح ٹوٹ پڑے۔ حالانکہ ہمارے اور ان کے درمیان تقریباً کچھ فٹ کا فاصلہ تھا۔ لیکن انہوں نے سپیس اینڈ ٹائم کی پرواہ کیے بغیر یہ سفر چند ملی سیکنڈز میں طے کیا اور اس سائنسی آلے ‏( ڈنڈے ‏) سے ہمیں یورینیم سمجھ کر تجربات میں مشغول ہو گئے۔ کافی ٹائم تجربہ کیا۔ ہمارے جسم کا ایک ایک حصہ بابا کے سائنسی تجربے کا بانگ درا سے اعلان کر رہا تھا۔ بابا کچھ دیر بعد فارغ ہوئے اور نیا نظریہ دینے کی بجائے باہر نکل گئے۔

اس تجربے کے بعد ہماری آنکھیں بلیک ہولز کی طرح کافی دن سیاہ رہیں۔ گال زمین کے پھیلاؤ کی طرح پوری طرح سے پھیل چکا تھا۔ کمر کی پلیٹیں پورے جسم میں زلزلہ برپا کررہی تھیں۔ ٹانگوں کی گریویٹی تقریباً ڈبل ہو گئی تھی۔ پاس بیٹھے میرے چچا مجھے ہیگل کی ڈائلیکٹک نگاہوں سےدیکھ رہے تھے۔ کچھ کہہ نہیں پا رہے تھے۔ البتہ ماں کے آنسو فضا میں نمی بڑھا رہے تھے۔ بابا کے ان روز روز کے تجربات سے ان کا دل تنگ آ چکا تھا۔ وہ ہمیں اکثر کہتی تھیں :

“ تو کیوں سٹیفن ہاکنگ کی طرح خاموش ہے؟ کچھ بولا کر میرا بیٹا۔ گوگل بن گوگل۔ ”

المختصر کچھ دنوں تک ہمارے جسم پر ہونے والے سائنسی اثرات جو بابا کے تجربات کا منہ بولتا ثبوت تھے، مٹنے لگے اور ہم اپنے جسم کو مولوی کے دماغ کی طرح خالی اور صاف سمجھنے لگے۔

لیکن ایک چیز ہمارے لیے تشویش کا باعث تھی کہ ہمارے اور ابو کے درمیان تو اتنا فاصلہ تھا جتنا سائنس اور مولوی کے درمیان۔ پھر انہوں نے یہ فاصلہ اتنی جلدی کیسے طے کیا؟ کافی تفکر و تعقل کے بعد سمجھ میں آیا یہ کشش کی لہروں کا اثر ہے، بس اسی دن ہم ان لہروں پر ایمان لائے اور آج اللہ کے فضل سے ثابت بھی ہو گیا۔

مدثر عباس
 
Top