رہ وفا
محفلین
نشاں منزل کے یوں تو دسترس سے دور لگتے ہیں
مگر ہم آبلہ پا کب تھکن سے چُور لگتے ہیں
کہ اس جلتی ہوئی دھرتی پہ ان پلکوں کا سایہ ہے
وہ گہری جھیل سی آنکھیں
انہیں جس دن سے دیکھا ہے
انہیں جس دن سے دیکھا ہے
ہر اک منظر ہے اجلا سا، سبھی موسم بہاروں سے
مجھے تاریک رستے بھی بہت پر نور لگتےہیں
مگر ہم آبلہ پا کب تھکن سے چُور لگتے ہیں
وہ گہری جھیل سی آنکھیں
انہیں دیکھوں تو
انہیں دیکھوں تو
بنجر سی زمینوں میں شگوفے سر اٹھاتے ہیں
انہیں سوچوں تو دل کی بے سکوں وادی میں
نغمے جاگ اٹھتے ہیں
میں گر چاہوں تو وہ آنکھیں
میں گر سوچوں تو وہ آنکھیں
مجھے کچھ اور اے میرے خدا اچھا نہیں لگتا
میں روز و شب دعائوں میں اگر مانگوں تو
وہ آنکھیں