میں گلابوں کی تجارت کا نہیں ہوں قائل

غزل

کوئی احساس بنے روح میں اترا جائے
وہ میرے پاس نہ آئے تبھی سوچا جائے

میں گلابوں کی تجارت کا نہیں ہوں قائل
پھول مرجھائے تبھی شاخ سے توڑا جائے

میری آنکھوں میں رہے اور دکھائی بھی نہ دے
وہ ذرا دور چلا جائے تو دیکھا جائے

عشق کی پیاس ہے جلتا ہوا دریا بھی ہے
گھونٹ دو گھونٹ کی حاجت ہے کہ ڈوبا جائے

اس کے نامے تو جلا ڈالے ہیں میں نے لیکن
راکھ پھیلی ہے اسے کیسے سمیٹا جائے

بات کہنی بھی ضروری ہے مگر بہتر ہے
کوئی میزان تو لے آئے کہ تولا جائے

مجھ سے ہتھیار نگاہوں کے یہ کہتے ہیں حسیب
ہم شکنجے ہیں ہمیں دیکھ کے پھینکا جائے

حسیب احمد حسیب
 
آخری تدوین:

یاز

محفلین
بہت عمدہ غزل ہے حسیب صاحب۔

آخری شعر میں شاید اس تصحیح کی ضرورت ہے۔
مجھ سے ہتھیار نگاہوں کے یہ کہتے ہیں حسیب

اس کے علاوہ درج ذیل مصرعہ میں "میری آنکھوں رہے" کے استعمال پہ مجھے کچھ شبہ سا لگ رہا ہے۔ (ہو سکتا ہے کہ غلط ہی لگ رہا ہو)۔
میری آنکھوں رہے اور دکھائی بھی نہ دے
 
بہت عمدہ غزل ہے حسیب صاحب۔

آخری شعر میں شاید اس تصحیح کی ضرورت ہے۔
مجھ سے ہتھیار نگاہوں کے یہ کہتے ہیں حسیب

اس کے علاوہ درج ذیل مصرعہ میں "میری آنکھوں رہے" کے استعمال پہ مجھے کچھ شبہ سا لگ رہا ہے۔ (ہو سکتا ہے کہ غلط ہی لگ رہا ہو)۔
میری آنکھوں رہے اور دکھائی بھی نہ دے
درست فرمایا " کے " کی ہی جگہ ہے
"میری آنکھوں میں رہے" کتابت کی غلطی سے " میں " رہ گیا
 
انتخاب نہیں ان کا اپنا کلام ہے۔ :)
شکریہ رہنمائی کے لیے۔۔مجھے لگا تھا کہ شاید انھوں نے کسی کے کلام سے انتخاب کیا ہے۔۔۔خیر یہ انکا اپنا کلام ہے تو بہت خوشی کی بات ہے اور میں دوبارہ ہی نہیں سہبارہ بھی انکو داد دینے کو تیار ہوں اللہ ان کو خیر برکت سے نوازے۔۔آمین
 
ارے اپنے کلام میں سے یہاں شئیر کرنے کا انتخاب کہنا چاہ رہے ہونگے لبید صاحب ...;)
زیدی صاحب آپ کی مزاحیہ شخصیت میرے دل کو بڑی بھائی ہے۔۔۔ویسے آپ یہ بھی مراد لے سکتے ہیں۔۔بات تو کچھ اور تھی ۔۔۔خیر مجھے خوشی ہے کہ آپ احباب مجھے محبت دیتے ہیں اللہ آپ سب کو سلامت رکھے آمین
 
Top