حسیب احمد حسیب
محفلین
غزل
کوئی احساس بنے روح میں اترا جائے
وہ میرے پاس نہ آئے تبھی سوچا جائے
میں گلابوں کی تجارت کا نہیں ہوں قائل
پھول مرجھائے تبھی شاخ سے توڑا جائے
میری آنکھوں میں رہے اور دکھائی بھی نہ دے
وہ ذرا دور چلا جائے تو دیکھا جائے
عشق کی پیاس ہے جلتا ہوا دریا بھی ہے
گھونٹ دو گھونٹ کی حاجت ہے کہ ڈوبا جائے
اس کے نامے تو جلا ڈالے ہیں میں نے لیکن
راکھ پھیلی ہے اسے کیسے سمیٹا جائے
بات کہنی بھی ضروری ہے مگر بہتر ہے
کوئی میزان تو لے آئے کہ تولا جائے
مجھ سے ہتھیار نگاہوں کے یہ کہتے ہیں حسیب
ہم شکنجے ہیں ہمیں دیکھ کے پھینکا جائے
حسیب احمد حسیب
وہ میرے پاس نہ آئے تبھی سوچا جائے
میں گلابوں کی تجارت کا نہیں ہوں قائل
پھول مرجھائے تبھی شاخ سے توڑا جائے
میری آنکھوں میں رہے اور دکھائی بھی نہ دے
وہ ذرا دور چلا جائے تو دیکھا جائے
عشق کی پیاس ہے جلتا ہوا دریا بھی ہے
گھونٹ دو گھونٹ کی حاجت ہے کہ ڈوبا جائے
اس کے نامے تو جلا ڈالے ہیں میں نے لیکن
راکھ پھیلی ہے اسے کیسے سمیٹا جائے
بات کہنی بھی ضروری ہے مگر بہتر ہے
کوئی میزان تو لے آئے کہ تولا جائے
مجھ سے ہتھیار نگاہوں کے یہ کہتے ہیں حسیب
ہم شکنجے ہیں ہمیں دیکھ کے پھینکا جائے
حسیب احمد حسیب
آخری تدوین: