طارق شاہ
محفلین
غزلِ
پروین شاکر
میں ہجر کے عذاب سے انجان بھی نہ تھی
پر کیا ہُوا کہ صبح تلک جان بھی نہ تھی
آنے میں گھر مِرے، تجھے جتنی جھجک رہی
اس درجہ تو میں بے سرو سامان بھی نہ تھی
اِتنا سمجھ چُکی تھی میں اُس کے مِزاج کو
وہ جا رہا تھا اور میں حیران بھی نہ تھی
آراستہ تو خیر نہ تھی زندگی کبھی
پر تجھ سے قبل اِتنی پریشان بھی نہ تھی
جس جا مکین بننے کے دیکھے تھے میں نے خواب
اُس گھر میں ایک شام کی مہمان بھی نہ تھی
دُنیا کو دیکھتی رہی، جس کی نظر سے میں
اُس آنکھ میں، مِرے لئے پہچان بھی نہ تھی
روتی رہی اگر، تو مجبور تھی بہت !
وہ رات کاٹنی کوئی آسان بھی نہ تھی
نقدِ وَفا کو چشمِ خریدار کیا مِلے
اِس جنس کے لئے کوئی دوکان بھی نہ تھی
پروین شاکر
پروین شاکر
میں ہجر کے عذاب سے انجان بھی نہ تھی
پر کیا ہُوا کہ صبح تلک جان بھی نہ تھی
آنے میں گھر مِرے، تجھے جتنی جھجک رہی
اس درجہ تو میں بے سرو سامان بھی نہ تھی
اِتنا سمجھ چُکی تھی میں اُس کے مِزاج کو
وہ جا رہا تھا اور میں حیران بھی نہ تھی
آراستہ تو خیر نہ تھی زندگی کبھی
پر تجھ سے قبل اِتنی پریشان بھی نہ تھی
جس جا مکین بننے کے دیکھے تھے میں نے خواب
اُس گھر میں ایک شام کی مہمان بھی نہ تھی
دُنیا کو دیکھتی رہی، جس کی نظر سے میں
اُس آنکھ میں، مِرے لئے پہچان بھی نہ تھی
روتی رہی اگر، تو مجبور تھی بہت !
وہ رات کاٹنی کوئی آسان بھی نہ تھی
نقدِ وَفا کو چشمِ خریدار کیا مِلے
اِس جنس کے لئے کوئی دوکان بھی نہ تھی
پروین شاکر